لاہور NA118 ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کانٹے دار مقابلہ متوقع

این اے 118بیگم کوٹ شاہدرہ سے صدیقیہ کالونی تک 13یونین کونسلوں اورصوبائی اسمبلی کےدوحلقوں پی پی 137 اور138 پر مشتمل ہے۔


Shakeel Saeed May 04, 2013
این اے 118 کومسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتاہے۔ فوٹو : فائل

لاہور کا حلقہ این اے 118بیگم کوٹ شاہدرہ سے صدیقیہ کالونی تک 13یونین کونسلوں اورصوبائی اسمبلی کے دو حلقوں پی پی 137 اور138 پر مشتمل ہے ،اس حلقہ کے اہم علاقوں میں عزیزکالونی، فیصل پارک، قیصر ٹائون،دھیر، کوٹ محبوب،شاہدرہ، جیاموسیٰ، قلعہ لکشمن سنگھ،فروٹ منڈی،صدیق پورہ،بنگالی باغ،صدیقیہ کالونی،بادامی باغ،شاہدرہ رانا ٹائون،کھوکھر روڈ، نشاط پارک، چودھری کالونی، واسا کالونی، سبزی منڈی، پرانا راوی پل پرانا سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ(ن) کے ملک ریاض احمد 55ہزار 900ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے جب کہ پیپلز پارٹی کے سید آصف ہاشمی 24712 ووٹ لے کردوسرے نمبرپررہے تھے ۔ق لیگ کے امیدوارمیاں محمداظہرکو11075ووٹ ملے تھے۔اس سے پہلے 2002ء میں جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ نے بطور آزاد امیدوار مسلم لیگ(ن) کی حمایت کے ساتھ مسلم لیگ(ق) کے اس وقت کے سربراہ میاں محمد اظہرکوشکست دی تھی، حافظ سلمان بٹ نے 25484 جبکہ میاں اظہرنے 21641 ووٹ لیے تھے۔

جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوارعبدالقدیرکو16855 ووٹ ملے تھے ۔ این اے 118 کومسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتاہے لیکن گزشتہ دورمیں آصف ہاشمی کے ترقیاتی کاموں کی بدولت اسے اب ان حلقوں میں شمارکیاجارہاہے جہاں پیپلزپارٹی کامیابی حاصل کرسکتی ہے ۔آصف ہاشمی کی نااہلی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی طرف سے ان کے بیٹے فرازہاشمی میدان میں اترے ہیں۔

ان کی انتخابی مہم آصف علی ہاشمی خودچلارہے ہیں۔اس باراس حلقہ سے22امیدوارمیدان میں ہیں۔جن میں پیپلز پارٹی کے فرازہاشمی، مسلم لیگ(ن)کے ملک ریاض احمد، پاکستان تحریک انصاف کے حامدزمان، قومی وطن پارٹی کے حافظ امجد علی،جمیعت علماء اسلام کے حافظ عبدالودودشاہد،اسلامی تحریک پاکستان کے راناانتظارحسین، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سلیم خان کاکڑ،استقلال پارٹی کے سیدمنظورگیلانی، پاکستان سنی تحریک کے عامرراشد،تحریک تحفظ پاکستان کے عبدالقیوم باجوہ، جمعیت علماء پاکستان (نورانی)کے عبدالمجید،ایم کیوایم کے میاں سرفراز وٹو، پاکستان فلاح پارٹی ناصرعباس سمیت8آزادامیدوارشامل ہیں۔



ان میں اسلم ذوالقرنین تاج،بابر علی، ڈاکٹر اسد اشرف، رانا حسن شرافت،سید مظہر عباس،محمد سلیم ملک،ملک شوکت محموداورولیداحمدزمان شامل ہیں تمام امیدوار جیت کے لیے پرامید ہیں۔حلقے میں مجموعی طورپر3لاکھ 34ہزار 256ووٹرز اپناحق رائے دہی استعمال کرکے رکن قومی اسمبلی منتخب کرینگے۔ان ووٹرز میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 93ہزار 556 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعدادایک لاکھ 40ہزار 700 ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ میں ووٹ ڈالنے کے لیے 261 پولنگ اسٹیشن اور674 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں جبکہ261 پریذائیڈنگ آفیسر، 1348 اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز اور 674 پولنگ آفیسر تعینات کیے گئے ہیں۔موجودہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھرحلقہ کے رہائشی نئی امیدوں کے ساتھ اپنے ووٹ کاحق استعمال کرینگے۔

جبکہ امیدواربھی نئے وعدوں کے ساتھ میدان میں اترے ہیں ۔گزشتہ دورمیں آصف ہاشمی کی طرف سے کرائے گئے کاموں میں سر فہرست راوی ٹول پلازہ کاخاتمہ ، علاقے کے بیروزگار نوجوانوں کی بڑی تعدادکو وفاقی محکموں میں ملازمتیں دلواناشامل ہے ،اس لیے یہاں پر کانٹے دارمقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔مسلم لیگ(ن)،پیپلز پارٹی اورپاکستان تحریک انصاف کے امیدواراپنی اپنی جیت کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ 137سے مجموعی طور پر 26 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں سے مختلف سیاسی جماعتوں سے 11امیدوار جیت کے لیے کوشاں ہیں جبکہ 15آزاد امیدوار بھی کامیابی کی امید کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔

تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف،پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اورمسلم لیگ(ق) کے امیدواروں کے درمیان ہوگا۔اس حلقہ سے مسلم لیگ(ن)کے خواجہ عمران نذیر، پاکستان تحریک انصاف کے محمد یاسر گیلانی ،مسلم لیگ(ق) کے یوسف احد ملک سمیت جماعت اسلامی کے علی عمران، پاکستانی سنی تحریک کے اسلم ذوالقرنین تاج، ایم کیو ایم کی پروین اختر، متحدہ کاروان پاکستان کے ارشد علی انجم، جمعیت علماء اسلام پاکستان (فضل الرحمٰن)محمد قدیر علی، پاکستان فلاح پارٹی سید راشد رضا گیلانی، مجلس وحدت المسلمین سید ضمیر حسین رضوی،آل پاکستان مسلم لیگ فہد محمود مرزا سمیت آزاد امیدواروں میں اعظم علی، محمد ریاض گجر،حامد حسین خان،رانا احسن شرافت،رانا ناصر اقبال،صاحبزادہ ضیاء الحسن ،عبدالمجید،محمد افضل چودھری،محمد زاہد الراشدی،محمد نعیم اشرف،منیر احمد موگہ،میاں عبید اﷲ، میاں محمد عظیم یسین اور میاں محمد شبیر ایڈووکیٹ شامل ہیں۔

اس حلقہ میں مجموعی طورپرایک لاکھ62 ہزار 112ووٹرز اپناحق رائے دہی استعمال کرکے رکن صوبائی اسمبلی منتخب کرینگے۔ان میں مرد ووٹرز کی تعداد95 ہزار 18 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد67ہزار94 ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ میں ووٹ ڈالنے کے لیے130 پولنگ اسٹیشن اور347 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں جبکہ130 پریذائیڈنگ آفیسر،694 اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرزاور347پولنگ آفیسر تعینات کیے گئے ہیں۔

2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ(ن) کے رانا محمد اقبال خان 22ہزار 14ووٹ حاصل کرکے رکن اسمبلی بنے تھے۔اسی طرح2002ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سمیع اﷲ خان نے 10ہزار 546ووٹ حاصل کرکے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار رانا محمد اقبال کو شکست دی تھی جنہوں نے 9ہزار 638ووٹ حاصل کیے تھے۔اس حلقہ میں ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 13ہزار 860تھی جبکہ مجموعی طور پر 33ہزار 239ووٹ ڈالے گئے تھے۔اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقہ 138 میں38امیدوارمیدان میں ہیں جن میں سے17امیدوارمختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اور21بطورآزادامیدوارحصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقہ میں بھی اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان ہو گا۔

حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار غزالی سلیم بٹ، پیپلز پارٹی کے فراز ہاشمی، پاکستان تحریک انصاف کے میاں محموداحمداور جماعت اسلامی کے چودھری محمد سلیم کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ف)کے چودھری ظہیر احمد بابو،جمعیت علماء اسلام (ف) کے چودھری محمداجمل،قومی وطن پارٹی کے حافظ امجد علی،متحدہ دینی محاذ کے حافظ عبدالوحید فاروقی،استقلال پارٹی کے خالد محمود کسانہ،مجلس وحدت المسلمین کے سید عمران گلزیب ،تحریک تحفظ پاکستان کے عبدالقیوم باجوہ،ایم کیوایم کی مہہ بانو،آل پاکستان مسلم لیگ کے محمد بابر نذیر، پاکستان فلاح پارٹی کے محمد شبیر ڈوگر،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمد مبین خان،پنجاب نیشنل پارٹی کے مقبول احمد اور پاکستان سنی تحریک کے میاں محمود طاہر ایڈووکیٹ کے ساتھ ساتھ آزاد امیدواروں چودھری افتخار یوسف،چودھری عابد حسن ، چودھری محمود عالم،حماد مقصود گل،ڈاکٹر اسد اشرف،راجہ حسن علی،رانا محمد احسن، سلیم اﷲ قادری،سید مظفر شاہ،محمد اشرف گوندل، محمد افضل،محمد راشد منہاس،محمد سلیم ملک، محمد شہزاد ملک، مرزا محمد ادریس،ملک غلام رسول،ملک فیصل اسلام،ملک محمد افضل حسین،ملک محمدلطیف،ملک ندیم احمدالیاس کاکا خیل شامل ہیں۔



اس حلقہ میں مجموعی طورپرایک لاکھ 72ہزار144ووٹرز اپناحق رائے دہی استعمال کرکے رکن صوبائی اسمبلی منتخب کرینگی۔ان میں مرد ووٹرز کی تعداد98 ہزار538 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد73ہزار 604 ہے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ میں ووٹ ڈالنے کے لیے131 پولنگ اسٹیشن اور327پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں جبکہ131 پریذائیڈنگ آفیسر، 654 اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرزاور327پولنگ آفیسر تعینات کیے گئے ہیں۔ 2008ء اور 2002ء کے انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر اسد اشرف نے کامیابی حاصل کی تھی۔2008ء کے انتخابات میں ڈاکٹر اسدا شرف نے19552 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پیپلزپارٹی کے چودھری عبدالقدیر10207ووٹ لے کردوسرے نمبرپررہے تھے۔

آزاد امیدوار قیصر امین بٹ نے 10067 ووٹ لیے تھے۔2002 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے ڈاکٹراسداشرف نے 10651ووٹ لے کرکامیابی حاصل کی ، مسلم لیگ(ق) کے عارف بھنڈر کو9664 ووٹ ملے تھے۔پیپلزپارٹی کے ظفرعظیم بھٹی نے 8839 ووٹ لیے تھے۔اس حلقے کے مجموعی طور پر ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 29ہزار 847 تھی جبکہ صرف 35ہزار 607ووٹ ڈالے گئے تھے۔حلقہ 138میں اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن) کے امیدوارغزالی سلیم بٹ، پیپلز پارٹی کے فرازہاشمی،پاکستان تحریک انصاف کے میاں محموداحمداور جماعت اسلامی کے چودھری محمد سلیم کے درمیان ہوگا۔این اے 118 سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ملک ریاض احمدکاکہناہے کہ انہوں نے اپنے دورمیں علاقے میں تمام ترقیاتی کام کروائے جبکہ میٹروبس بھی شاہدرہ سے ہی شروع کرائی گئی تاکہ علاقہ کے لوگوں کی دوردرازتک جانے میں ہونیوالی پریشانی ختم ہوسکے۔اس کے علاوہ پینے کے صاف پانی کے لیے فلٹرلگوائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ انتخابات میں کامیاب ہوکروہ علاقہ کے اہم اوربڑے مسائل حل کروائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے حامدزمان کاکہناہے کہ ماضی میں اس علاقہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، وہ کامیاب ہوکرعلاقے کوترقی دے کر تبدیل کردینگے،یہاں کے عوام کوتمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جائینگی۔پیپلز پارٹی کے فراز ہاشمی نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں شکست کھانے کے باوجودپیپلزپارٹی نے حلقہ کے بیروزگار نوجوانوں کا وفاقی محکموں میں ملازمتیں دیں اورسب سے بڑامسئلہ راوی ٹول ٹیکس کاخاتمہ کروایاگیا۔اور آئندہ کامیاب ہوکر علاقے کے تمام مسائل حل کرادیں گے۔ماضی میں اس حلقہ سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کے ممبران عوامی مسائل کو تو حل نہ کراسکے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے اس حوالے سے علاقہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ مسائل کی دلدل بن چکا ہے، ارکان اسمبلی کی توجہ نہ ہونے سے علاقے کی گلیاں اور سڑکیں بھی تعمیرنہیں ہو سکیں ۔علاقے کے لیے منظورہونے والا بجٹ بھی علاقے کے مقدر نہ جگا سکا۔

علاقے کے مکین گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور متعدد درخواستوں کے باوجود پانی کی لائنیں تبدیل نہیں کی گئیں ۔بارش کے باعث پانی کے نکاس کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں کیاگیااورنہ ہی نوجوانوں کوملازمتیں دینے کے لیے کو ئی اقدام کیا گیا ہے۔ حلقہ کے رہائشیوں ملک شہبازاحمد،ارشاد سیٹھی، ملک دائود، فہیم احمد،ملک آصف،رشید،حبیب اﷲ خان،شہزادہ خالد،حامدنواز،زبیر خالد،اسلم خان سمیت دیگرنے کہاکہ صوبائی دارالحکومت کایہ واحد حلقہ ہے جس کی طرف ارکان اسمبلی اور حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔پورے لاہور کی سڑکیں اورگلیاں بنا دی گئی ہیں لیکن شاہدرہ بادامی باغ کی گلیاں اور سڑکیں ابھی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سرکاری محکموں میں ملازمتوں کے لیے ارکان اسمبلی کوبھی درخواستیں دی گئیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی علاقے کے مسائل کی طرف توجہ دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔