روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
ناقابل تسخیر نااہل اور قانون کے شکنجے میں نظر آرہے ہیں۔
کیا واقعی وہ وقت قریب آچکا ہے جس کا خواب ہمارے شعرا و ادبا برسوں پہلے دیکھتے رہے یعنی وہ وقت جب تاج اچھالے جائیں گے، جب تخت گرائے جائیں گے اور جب راج کرے گی خلق خدا، یا وہ سحر جس کا انتظار تھا حقیقتاً رونما ہونے والی ہے۔ کیا ساحرؔ کی پیشگوئی حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے جسے امید تھی کہ:
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے بے کاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بُت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
امید کے چراغ روشن کرنے والے، لوگوں کو بھوک و افلاس میں بھی مسکرا کر جینے کا حوصلہ، اچھے مستقبل کی آس دلانے والے، ظلم و ناانصافی، غربت و بیروزگاری، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے پاک معاشرے کا خواب گر جانے کتنی آنکھیں موت کی آغوش میں آسودہ خواب ہوگئیں۔ یہ تسلی دیتے ہوئے ''چند روز اور میری جاں! فقط چند ہی روز۔۔۔''
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں، اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔
ہمارے شاعروں، دانشوروں نے شاید محسوس کرلیا تھا کہ ''ان کالی صدیوں کے سر سے کبھی نہ کبھی سیاہ طویل رات کا آنچل ضرور ڈھلکے گا۔ صدیوں سے غلامی اور بیگار بھگتتے مزدور، کسان، عالی شان محلوں اور حویلیوں کی غلام گردشوں میں جاگیرداروں، وڈیروں، صاحب اقتدار و اختیاروں کے جنبش ابرو کے منتظر فاقہ کش اپنے آقاؤں کو کئی اقسام کے کھانے اور مشروبات پیش کرتے ہوئے اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ اور سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتے پورے دن خدمت کرنے کے باوجود جن سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے بھی کچھ کھایا؟
آخر ایک دن ان حالات کے خلاف ایک بلند آہنگ آواز، ایک طاقت بن کر ضرور اپنے آقاؤں سے صدیوں کا حساب طلب کریں گے۔
یہ سارے شاعرانہ و افسانوی خیالات میری آنکھوں میں چمک بن کر، دل و دماغ میں پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیں (کہ حالات اب پہلے سے مختلف جو نظر آرہے ہیں) آج کل جب ہمارے روایتی حکمران عوامی ایوان میں براجمان ہوتے ہوئے عوام کو اس ایوان کے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتے اور خود کو عوام کا نمایندہ قرار دے کر اس ایوان میں عوام دشمن منصوبے بناتے اور غریبوں کا خون چوستے بل پاس کراتے ہیں، ان کا عوام سے رشتہ صرف ووٹ لینے وہ بھی خوفزدہ کرکے، دھمکی دے کر، غریبوں کی بہو بیٹیوں کی عصمت کے سودے کرکے حاصل کیے جانے تک قائم رہتا ہے اور پھر اگلے پانچ برس اس رشتے کی ڈور غریبوں کے نمایندے جاگیردار، وڈیرے، مل مالکان، صنعتکار غرض ہر انداز سے دولت مند کے ہاتھ میں رہتی ہے جو کبھی بھی ڈھیلی نہیں پڑتی۔ ہمیشہ غریب کی گردن میں پڑی یہ ڈور تنی رہتی ہے۔
انتخابی اصلاحات جب ایسے لوگ کریں گے تو کیا ٹکٹ کروڑ پتیوں کو فروخت کرنے، انتخابی مہم پر اربوں خرچ کرنے والوں کو ہی آگے آنے کے مواقع نہ دیں گے؟ کیا کسی بھی پارٹی نے عوامی مسائل کے لیے اپنے منشور میں کوئی ایک شق بھی رکھی؟ کیوں رکھیں ووٹ تو عوام کو ہر حال میں ان کی مرضی کے مطابق ہی دینا پڑے گا۔
اب تک تو یہی ہوتا رہا ہے، مگر اب ایسا ہونا ذرا مشکل نظر آرہا ہے۔ ناقابل تسخیر نااہل اور قانون کے شکنجے میں نظر آرہے ہیں، ہماری تقدیر کے مالک اس صورتحال کو کسی کے اشارے پر کھیلا جانے والا کھیل کھیل ، جانبداری اور کسی کو منظر سے غائب کرنے کی سازش قرار دے کر پھر عوام سے اپنے پرانے وعدے نئے خوشنما لفافوں میں رکھ کر نئے انداز سے پیش کرتے ہوئے اپنی کرپشن کو عوامی خدمت، ملکی ترقی و خوشحالی کے ناموں سے ازسرنو فروخت کر رہے ہیں۔ مگر عوام اس بار ان کے جھانسے میں نہیں آرہے ہیں۔
اگرچہ ایسے بیدار عوام کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی پر امید کی کرن تو کہی جاسکتی ہے۔ اس بار نہ سہی آیندہ انتخابات تک پاکستان کا بچہ بچہ انشا اللہ بیدار ہوچکے گا، اگر اس بار بھی جاگیرداروں، وڈیروں کے نمایندے ایوان میں پہنچ گئے تو وہ پھر عوام کا راستہ روکیں گے۔ مگر اس انبوہ میں کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو عام آدمی کو ایوانوں میں لانے کی کچھ عرصے سے کامیاب کوشش کر رہی ہیں۔ اگرچہ ان عوامی نمایندوں کی تعداد ابھی کم ہے کہ ان کی آواز کسی کو سنائی دیتی ہے اور نہ موجودگی کسی پر بظاہر اثرانداز ہوتی ہے۔
اگرچہ یہ عام افراد نہ دولت مند ہیں نہ بڑے کاروباری مگر صاف کھری سیاست اور معاشرتی حقائق پر مبنی اپنا مضبوط موقف ضرور رکھتے ہیں، عوامی مسائل پر آواز اٹھاتے اور بل پیش کرتے ہیں جو اکثریت کے بل بوتے پر ''بڑے لوگ'' عموماً مسترد کردیتے ہیں مگر اس آواز میں عزت و وقار، حقائق اور حب الوطنی کی گھن گرج ایوان کے در و دیوار پر ضرور اثرانداز ہوتی ہے جس کے باعث امید ہوچلی ہے کہ آیندہ ایوان میں عوامی نمایندے واقعی عوام میں سے ہی ہوں گے۔
آج عوام ''خواص'' سے نہ صرف سوالات کر رہے ہیں بلکہ جواب بھی طلب کر رہے ہیں پی پی کے بقول ان کے گڑھ (لیاری) میں پارٹی چیئرمین کا استقبال ڈنڈوں، پتھروں، بوتلوں کے ساتھ آگے نہ بڑھنے دینے سے کیا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ کو اپنے ہی گھر پر بپھرے ہوئے عوام کا سامنا کرنا پڑا، اسی پارٹی کے ایم این اے نوید قمر کو اپنی کارکردگی کا حساب دینا پڑ گیا۔
ان مناظر کو کیمرے میں محفوظ کرنے والوں کو دھمکا کر کیمرے چھیننے کی کوشش کی گئی، پی ٹی آئی کے کارکنان نے اپنے لیڈر کو کئی دن تک گھر میں محصور رکھا کیونکہ انھوں نے دعوؤں کے باوجود پارٹی ٹکٹ مالدار لوگوں کو ہی فروخت کیے (بقول آفتاب شیر پاؤ اس فروخت کے ثبوت ان کے پاس ہیں) یعنی وہ جو تبدیلی لانے کے دعویدار تھے وہ بھی مجبور ہیں۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے خرم شیر زمان کو پارٹی کارکنوں نے گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کردی، عارف علوی کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور کارکردگی کی باز پرس کی گئی۔
ادھر کراچی کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم جس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے متوسط طبقے کے عام امیدوار بلا انتخابی اخراجات کے ایوان تک رسائی حاصل کرتے رہے ہیں۔ مگر کراچی کے حالات کی ذمے داری (باوجود مجبوریوں یا اختیار نہ ہونے کا عذر پیش کرنے کے) بہرحال کسی نہ کسی صورت ان کی ضرور بنتی ہے۔ لہٰذا گزشتہ دنوں اس کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو عوام نے گھیر لیا ان کا ووٹر ان سے اپنے مسائل پر سوالات کرنے میں حق بجانب ہے اس لیے انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے اگلے پچھلے حساب چکانے پر اصرار کیا کیونکہ فاروق ستار کئی بار ان کے نمایندے بن کر ایوان میں پارٹی کے قائد رہ چکے ہیں۔
حکومت سندھ سے اتحاد بھی رہا مگر کوٹہ سسٹم تک ختم نہ کراسکے۔ کراچی میں دوسرے صوبوں کے نوجوانوں کو روزگار ملتا رہا مگر کراچی کا نوجوان پڑھ لکھ کر بھی دھکے کھاتا پھر رہا ہے جب یہ لوگ کراچی کی نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر ان سے سوالات تو کیے جائیں گے کہ کراچی والوں کے لیے آخر کیا کیا؟
پنجاب کے نوجوانوں نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے اپنے علاقے میں تعلیمی، معاشی اور صحت کی سہولیات فراہم نہ کرنے پر زبردست احتجاج کیا اور ان کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ شاہ محمود قریشی جیسے جہاں دیدہ سیاستدان اور ایوان میں کسی بھی پارٹی کی نمایندگی کرتے ہوئے موجود رہنے والے ملتان کی اہم شخصیت ہونے کے باوجود ناراض عوام نے انھیں بھی گھیر لیا اور جواب طلب کیے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو بھی عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔
قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو سکھر کے عوام نے راستے میں روک کر پوچھا آپ نے ہمیں روزگار دینے کے وعدے پر ووٹ لیے تھے ہمارے بچے پڑھ لکھ کر بھی روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ غرض یہ کہ پارٹی سربراہوں، وزرا اور ایم پی ایز و ایم این ایز کو کارکنان کی جانب سے غیر منصفانہ ٹکٹ تقسیم کرنے اور نامناسب رویوں پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر امید کی جاسکتی ہے کہ عوامی انقلاب کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور صدیوں پرانے خواب کو تعبیر ملنے کے امکانات روشن ہوئے تو ہیں۔