نیب ایک بار پھر حرکت میں
نیب کے حکام اور عملہ مخلص ہیں اور انھیں احتسابی عمل کو مؤثر بنانے کا موقع بھی ملے گا۔
قومی احتساب بیورو 16نومبر 1999کو قائم کیا گیا۔ اسی دوران احتساب آرڈیننس کے تحت ملزمان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اسپیشل انویسٹی گیٹنگ ونگز(ایس آئی ڈبلیوز)کی تشکیل ہوئی۔ احتساب آرڈیننس کے تحت چاروں صوبوں میں ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ڈائریکٹرز کو کسی بھی معاملے میں تحقیق /تفتیش اور نیب ریفرنس فائل کرنے کے لیے تفتیشی افسران اور متعلقہ عملے کی براہ راست معاونت کا پابند کیا گیا۔ کور نیب سیل علاقائی بیوروز(ریجنل اکاؤنٹیبلیٹی بیوروز) میں تبدیل ہوگئے اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق انھیں ریجنل احتساب بیورو بنا دیا گیا۔
علاقائی سطح پر قائم ہونے والے ان بیوروز کی کمان افواج کے بہترین افسران کو سونپی گئی، پشاور میں فضائی، راولپنڈی میں نیوی اور کراچی ، لاہور اور کوئٹہ میں آرمی کے افسران ان عہدوں پر تعینات کیے گئے۔ جب کہ متوسط اور نچلی سطح کے عملے کے لیے مختلف شعبوں سے متعلق گریڈ 17سے 20تک کے افسران کا انتخاب کیا گیا۔ 2004میں نیب نے اپنے قواعد (ٹی سی ایس) جاری کرکے اپنے لیے افسران کے عملے و انتخاب کا علیحدہ مستقل طریقہ کار بنالیا۔
2008میں افواج کے تمام حاضر سروس افسران کو نیب سے واپس اپنے اداروں میں بھیج دیا گیااور نیب نے اپنے قواعد کے مطابق سرکاری شعبے سے اپنے وضع کردہ قواعد کے مطابق بھرتیاں کیں۔ بڑی تعداد میں سیاست دان ، بینکاروں کی چشم پوشی اور سیاسی پشت پناہی کے بل پر، بینکوں کی نادہندگی میں ملوث رہے ہیں۔ اسی طرح ملک میں کوآپریٹیو سطح کے فراڈ سامنے آتے رہے ، عوام کی بڑی تعداد جن کے جھانسے میں آئی۔نیب کے پہلے چیئرمین دیانت دار اور باوقار لیفٹیننٹ جنرل امجد تھے۔ اپنے ابتدائی دور میں نیب کرپشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا، بیورو کو مالی بدعنوانی کرنے والوں کو غیر معینہ مدت تک زیرحراست رکھنے کا اختیار حاصل تھا اور عدالت بھی اس میں مداخلت نہیں کرسکتی تھی۔
بدقسمتی سے جنرل امجد نے اس ادارے کے لیے اپنے جن پرانے دوستوں کا انتخاب کیا، انھوں نے جلد ہی اپنی جیبیں بھرنے کی راہیں تلاش کرلیں۔یہ افسران چوں کہ مشرف کی طرز زندگی سے زیادہ مماثلت رکھتے تھے، اسی لیے جلد ہی نیب کے دیانت دار اور مخلص افسران کو اپنے راستے سے ہٹانے میں کام یاب ہوئے۔ اس کی بڑی مثال ڈی ڈی جی میجر جنرل عنایت اﷲ خان (جو ڈی جی امجد کے نائب تھے) جن کا تبادلہ کردیا گیا۔ مشرف کے اقتدار کو طول دینے کا ذاتی ایجنڈا پورا کرنے والے یہ افسران جوابدہی سے مستثنٰی ٹھہرے اور بعد میں بھی ان کا احتساب نہیں ہوا۔
کوآپریٹیو ہاؤسنگ اسکیم، بینک نادہندگی اور میگا کرپشن کے کیسز کو دباؤ کا حربہ بنا کر پارٹیاں بدلوانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ چوں کہ اسپیشل انویسٹی گیشن ونگ کیسز کی تیاری کرتا تھا اور نیب کی نگرانی بھی اسی کا کام تھا۔ ایس آئی ڈبلیو کے براہ راست اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مشرف نے سیاسی مفاد کے لیے بیورو کا استعمال کیا۔ اکثر ملزمان کو ق لیگ کی حکومت تشکیل دینے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ جیسے ہی جنرل امجد کو معلوم ہوا کہ جن افسران پر انھوں نے اعتماد کیا تھا، وہی نیب کو مشرف کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں، اس باوقار افسر نے فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
المیہ یہ ہے کہ ایس آئی ڈبلیو نے ماضی میں جن افراد کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات کی تھیں آج وہ اہم فیصلہ ساز عہدوں پر براجمان ہیں۔ ایف آئی اے میں وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کا وسیع تجربہ رکھنے والے انتہائی ماہر تفتیش کار ہیں، نیب کو اثاثوں کا پتا لگانے اور بینک نادہندگی کے کیسز اور متعلقہ سرگرمیوں کے لیے ان ماہر افسروں کی خدمات تک بھی رسائی مل گئی۔ ایف آئی اے نے مفرور ملزمان تک پہنچنے میں بھی نیب کی مدد کی۔
مشرف کی ''جمہوری'' کابینہ کے کم از کم 20ارکان ایسے تھے جن کے نام نیب مقدمات کی وجہ سے ای سی ایل میں شامل تھے۔یوں مشرف این آر او کے نفاذ تک بہ آسانی برسراقتدار رہے۔ جب مشرف 2004میں مسلم لیگ ق کے منتخب ارکان کو دباؤ میں لا کر حکومت قائم کرنے میں کام یاب رہے تو نیب نے 1999سے 2004 کے مابین خصوصی ونگز کے ذریعے جن مقدمات کی تفتیش شروع کی تھی انھیں روک دیا گیا۔ جنرل امجد کے بعد لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول ڈی جی نیب بنے، وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے جس کے انعام میں انھیں پنجاب کا گورنر بنایا گیا۔
یہاں انھوں نے انتخابات میں مشرف کے قدم جمانے کی خاطر ق لیگ کے لیے ''الیکٹ ایبلز'' کا اہتمام کیا۔ مشرف حکومت نے نیب کو اپنی مرضی سے چلانا شروع کردیا۔ نیب کی رہی سہی اثر اندازی کو وزیر خزانہ(بعدازاں وزیراعظم) شوکت عزیز نے ختم کیا ، اسٹاک ایکسچینج اور مالیاتی اداروں کو اس دلیل کی بنا پر نیب کے دائرے سے باہر نکال دیا کہ احتساب مالیاتی اداروں اور اس کے نتیجے میں معیشت کو متاثر کرتا ہے۔
کیا امریکا میں بھی ایسا ہی ہوا جہاں مائیکل ملکن جیسے بڑے اسٹاک ہولڈر کو جیل میں ڈال دیا گیا؟ اتفاق ہے کہ اس وقت بعض افراد کے خیراتی کاموں کا احتساب کیا جا رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکا کے ٹاپ اسٹاک ہولڈر مائیکل ملکن کئی سماجی تنظیموں کی مدد سے ایک بڑی رقم خیراتی کاموں میں خرچ کرتا تھا،2004میں ''فورچون میگزین''نے اس کے خیراتی کاموں کے سبب سرورق پر اس کی تصویر شایع کی تھی۔ پھر بھی اسے جیل جانا پڑا۔
اسٹاک بروکرز میں شامل جرائم پیشہ افراد بھی جیل جائیں گے یا ان کی منزل وزیراعظم ہاؤس ہوگی؟ اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کی جانب سے مختلف سرکولر جاری ہوئے، اس میں سرکولر 29بھی تھا جس میں قرضے معاف کروانے کی اجازت دی گئی۔ اس کے باعث قومی خزانے کو غیر معمولی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جنرل مشرف نے بہ رضا و رغبت اسٹاک مارکیٹ میں چال بازیوں کی اجازت دی۔ آج اسٹاک ایکسچینج کے ''موٹے بِلّے''اربوں روپے خیرات کرتے ہیں،ان سب نے متوسط طبقے کے کروڑوں سے اسٹاک ایکسچینج میں جعل سازی کرکے اربوں روپے کمائے۔
ایس آئی ڈبلیو کے زیر تفتیش مقدمات میں عثمان فاروقی کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ فاروقی کو پیپلز پارٹی نے پاکستان اسٹیلز کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ سپلائرز اور کنٹریکٹرز کے ساتھ مل کر اس ادارے کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا۔ پاکستان اسٹیل مل تباہ ہوگئی۔ فاروقی پاکستان اسٹیل کو ملکی معیشت کے لیے بلیک ہول بنانے کا ذمے دار ہے۔ نیب سندھ نے اسٹیل ملز سے متعلق تقریباً بیس معاملات کی تحقیقات کیں، ان میں سے درجن سے زائد تحقیقات اور ریفرینسز استغاثے اور مقدمات کے مرحلے تک پہنچے۔ فاروقی کو ایک ریفرنس میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ پھر اس نے ہائی کورٹ سے ضمانت کروا لی۔
لیفٹیننٹ جنرل منیر حفیظ سب سے طویل عرصہ چیئرمین نیب رہے، پہلے وردی میں اور بعدازاں قواعد کے مطابق 22ویں گریڈ کے افسر کے طور پر اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دور میں پہلی مرتبہ نیب کا چیئرمین مفادات کے تصادم میں ملوث ہوا، انھوں نے اپنے لیے کوٹے اور کاروباری مفادات حاصل کیے اور مقدمات شروع، ختم اور مؤخر کرنے کے سلسلے میں حکومت کو اثر انداز ہونے دیا( پی آئی اے میں اپنے دوستوں کو بھی فائدہ پہنچایا)۔
اس طرز عمل سے نہ صرف نیب کا امیج تباہ ہوگیا بلکہ بیورو کے اندر بے چینی پھیل گئی۔ ان کے بعد آنے والے لیفٹیننٹ جنرل عزیز نے نیب کے سیاسی استعمال پر شدید ناراضی کا اظہار کیا، کچھ عرصے بعد وہ ایک برس کی طویل چھٹیوں پر چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔ اس کے بعد مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس(این آر او) جاری کرکے کرپشن کو قانونی قرار دینے کی تاریخ رقم کی اور نیب محض مذاق بن کر رہ گیا۔
جس زمانے میں زرداری صدر بنے، نیب کا غیر مؤثر ہونا قابل فہم ہے۔ کئی معاملات عدالت میں لائے گئے لیکن ''شواہد نہ ہونے''کے باعث خارج کردیے گئے۔
قمرالزمان چوہدری نے کسی حد تک نیب کی ساکھ بحال کی۔ آج سپریم کورٹ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہی ہے، نیب کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال پورے اعتماد کے ساتھ اس ادارے کی کارکردگی بحال کرکے اسے ابتدائی دور کے چند برسوں کی طرح مؤثر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
نیب کے حکام اور عملہ مخلص ہیں اور انھیں احتسابی عمل کو مؤثر بنانے کا موقع بھی ملے گا ، کیوں نہ نیب کے بدعنوان سابق حکام کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔ نیب کی خود احتسابی سے ادارے کے وقار اور اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوگا اور ایسے اقدامات کرپشن کے خلاف نیب موثر ادارہ بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے، یہی اس کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)