اپنا اپنا کردار

’’بے کار مباش کچھ کیا کر، نہیں تو پاجامہ ہی ادھیڑ کر سیا کر‘‘ اس مقولے میں اگر الفاظ آگے پیچھے ہوگئے ہوں تو ...


Naseem Anjum May 04, 2013
[email protected]

''بے کار مباش کچھ کیا کر، نہیں تو پاجامہ ہی ادھیڑ کر سیا کر'' اس مقولے میں اگر الفاظ آگے پیچھے ہوگئے ہوں تو معذرت خواہ ہوں، یہ بات ان لوگوں پر صادق آتی ہے جو وقت کی قدر نہیں کرتے اور اپنا قیمتی وقت برباد کرنے میں ذرا برابر دکھ محسوس نہیں کرتے ہیں، دن بھر پڑے گھر میں اونگھتے رہتے ہیں یا پھر دوست احباب کے ساتھ گلیوں، پنواڑی کی دکان، قہوہ خانے یا پٹھان کے ڈھابے پر بیٹھ کر چائے قہوہ پیتے، پان چباتے ہیں اور خوش گپیاں کرتے نہیں تھکتے، انھیں اس بات کا احساس ہرگز نہیں کہ گھر میں بیوی، بچوں یا والدین اور بہن بھائیوں کے لیے کھانے پینے کے لیے کچھ ہے کہ نہیں، وہ اپنی ہر طرح کی ذمے داری سے دستبردار ہوجاتے ہیں، ان کے اہل خانہ کو کتنی ہی مشقت کرنا پڑے ان کی بلا سے، بس انھیں تو تین وقت کا مزے دار اور گرم گرم کھانا چاہیے، نہ ملنے کی صورت میں خوب خوب جھگڑا کرتے ہیں، انھیں نہ دنیا کی شرم اور نہ دین کی۔

نکھٹو، کام چوروں کا خیال ہمیں اس وجہ سے آیا کہ ہماری نگاہ سے ایک خبر گزری تھی کہ اسلام آباد میں تبلیغی اجتماع میں دو لاکھ افراد کی شرکت، ہر سال یہ اجتماع ہوتا ہے۔ دین سے محبت کرنے اور اپنی عاقبت سنوارنے والے حضرات اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے سنبھالتے ہیں وہ اگر تبلیغ کے لیے دوسرے شہروں میں جاتے ہیں تو اپنے گھر والوں کے تمام امور انجام دے کر سفر کے لیے روانہ ہوتے ہیں، اپنے گھر کی کفالت بھی کرتے ہیں اور اپنے مسلمان اور پاکستانی بھائیوں کی امداد بھی کرنے کی کوشش میں زندگی کا ہر لمحہ دان کردیتے ہیں۔ کسی پر کوئی مصیبت آجائے، دکھ کی گھڑیوں میں ان کی شرکت لازمی ہوتی ہے۔ یہ اپنے وقت کا استعمال کرنا اچھی طرح جانتے ہیں ان کے برعکس وہ طبقہ بھی ہے جن کا ذکر ہم نے بالائی سطور میں کیا۔

بے شک اﷲ تعالیٰ بہت بڑا منصف ہے، اس نے اپنے بندوں کے لیے تمام فوائد اور قدرتی نعمتیں برابر کی عطا کی ہیں، 24 گھنٹے سب کے لیے ہیں اب وہ ان سے کس طرح استفادہ کرتے ہیں یہ ان کی عقل اور دانشوری پر ہے کہ انھیں اپنے وقت کی تقسیم اور اس کا مصرف کس طرح کرنا چاہیے؟

ایدھی اور چھیپا کے رضاکاروں کو ہی دیکھ لیجیے، اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بڑے بڑے سانحات کے مواقعوں پر زخمیوں کی امداد کرنے، انھیں اسپتال پہنچانے چند لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور بڑی ذمے داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، اس قسم کے حالات میں وہ دن اور رات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں، دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو اپنے آرام کی قطعی فکر نہیں ہوتی ہے، خود عبدالستار ایدھی اور ان کے اہل خانہ ہر طرح سے پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آنا عبادت سے کم نہیں، حالی کے اس شعر کے مطابق:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ آپس میں دکھ و غم کے موقع پر کام آئیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بے کار و بے روزگار لوگوں کو دہشت گرد اپنے شکنجے میں بہت آسانی سے جکڑ لیتے ہیں۔ کبھی کسی چیز کا لالچ دیتے ہیں تو کبھی مال و زر قدموں میں نچھاور کردیتے ہیں، انھیں تو ویسے بھی صرف اچھا کھانا ہی چاہیے ہوتا ہے، زندگی کا تو کوئی مقصد ہے ہی نہیں، ایسے لوگ دنیا میں آتے ہی کھانے پینے کے لیے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور مر کر چلے جاتے ہیں، یہ لوگ حقوق و فرائض سے اکثر غافل رہتے ہیں، اسی لیے اپنے گھر والوں کے لیے بے حد بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

بجائے ان کی امداد کریں اور والدین کی خدمت کریں وہ الٹا ہر لمحہ ہی اپنی خدمت و تعاون کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ تخریبی سرگرمیوں سے اگر وقت مل جاتا ہے تب وہ گھر کا رخ کرتے ہیں اور اپنے گھر کی قیمتی اشیاء کو بڑی آسانی سے اڑا لے جاتے ہیں اور گھر میں تشدد الگ کرتے ہیں۔ ان کے اہل خانہ ان سے عاجز آجاتے ہیں اور نجات کی دعائیں مانگتے ہیں اگر کبھی مارے جائیں تو اکثر لواحقین اس قدر تنگ آچکے ہوتے ہیں کہ وہ لاش بھی وصول کرنے نہیں آتے لہٰذا ایسے لوگوں کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا جاتا ہے۔

یہ ہے لمحہ بھر کی زندگی، جس میں انھوں نے مخلوق خدا پر ظلم و ستم ڈھائے اور ایک عبرتناک زندگی گزار کر جہنم کی سمت روانہ ہوگئے۔ آج کل اگر سفر کے لیے کسی بھی شاہراہ سے گزریں تو چھوٹے چھوٹے نوجوان، میرا مطلب ہے 15-16، 12-13 سالہ لڑکے موٹرسائیکلوں پر بیٹھے ہواؤں میں موٹرسائیکل کو لیے اڑا رہے ہیں، اکثر کرتب بھی دکھاتے جاتے ہیں، گاڑی کے سامنے سے زن سے نکل جاتے ہیں، حادثہ ہوتے ہوتے بچتا ہے۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ ان کے والدین کس قدر لاپرواہ ہیں، اپنے نوعمر بیٹوں کو کس قدر آزادی اس دور میں دی ہے، جس میں زندگی کی حفاظت کرنا ذاتی فرض بن گیا ہے۔ شاید یہ وہ لڑکے ہیں جو اپنے والدین کے نافرمان ہیں یا پھر والدین نے ہی اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتی ہے کہ وہ آج اس مقام پر پہنچ گئے، نہ پڑھنے لکھنے کی اور نہ مستقبل بنانے کی فکر ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جرائم میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کی وجہ ''صحبت بد'' ہے، اگر اپنی کسی سنگین غلطی کی بنا پر جیل میں پہنچ جائیں تب بے چارے والدین اپنے لاڈلے سے ملاقات کے لیے جیلوں کے چکر کاٹتے نہیں تھکتے، ان کو رہائی دلانے کے لیے نہ کہ اپنی جمع پونجی بلکہ گھر کی قیمتی اشیاء تک فروخت کردیتے ہیں اور تو اور اپنے سر چھپانے کی جگہ کو ہی فروخت کر ڈالتے ہیں اور خود فٹ پاتھ نما گھر میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

بات اتنی سی ہے، لیکن ہے بڑی اہم کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے شروع دنوں میں اپنا تن من داؤ پر لگا دیں، معمولی غذا کھالیں، محنت مزدوری کریں، لیکن اپنی اولاد پر توجہ دیں کہ ان کی اولین ذمے داری ہے۔

تبلیغی اجتماع پاکستان اور بیرونی پاکستان کے مختلف صوبوں، شہروں اور علاقوں میں ہوتے رہتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ بذریعہ میڈیا اسلامی تعلیم کو عام کیا جائے، الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ان کی اہم ترین ذمے داری ہے کہ دین کے طالب علموں کا مثبت رویہ ضرور سامنے لائیں تاکہ معاشرتی ناہمواری کا خاتمہ اگر نہ ہوسکے تو کم ازکم کمی ہی آجائے۔ کسی بھی کام کے لیے محنت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ اس بات سے بھی سب واقف ہیں کہ محنت ضرور رنگ لاتی ہے۔ سست اور نکھٹو لوگوں کی زندگی کس کام کی؟ بقول شاعر:

اپنے لیے تو جیتے ہیں سب اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

اب اسلام آباد میں اجتماع ہوا ہے اس کی کوریج بالکل اسی طرح چینلز پر آنی چاہیے جس طرح کرکٹ میچ دکھایا جاتا ہے، اصل میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بہت سے طریقے ہیں اور ان طریقوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے ہر شخص کو اپنا فرض ادا کرنا پڑے گا، کم ازکم چینل کے مالکان تو یہ کرسکتے ہیں، اگر وہ چاہیں کہ مسیحائی کا نور پھیلے اور کشت و خون، بربریت و ظلم کی آندھیاں تھم جائیں تو صاحب ثروت اور صاحب بصیرت اپنا اپنا کردار ادا کریں کہ یہ وقت کا، حالات کا تقاضا ہے، اس لیے کہ رات بڑھتی ہی جارہی ہے، تاریکی نے ہر شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس سے پہلے ہر شے اندھیرے میں ڈوب جائے اور انسان کو کچھ سجھائی نہ دے کہ کس راستے پر چلے اور کس کو چھوڑے؟ کون سی راہ منزل پر لے جائے گی اور کون سی دلدل میں اتار دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں