کشمیر کا قصائی
مودی حکومت کو تو شرم آنی چاہیے کہ خود اس کے اپنے ملک کے دانشور اسے کشمیر کا قصائی کا خطاب دے رہے ہیں۔
بھارت کشمیریوں کو آزادی سے محروم رکھنے کے لیے ان پر وہ ظلم و ستم ڈھا رہا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چنگیز خان، ہلاکو، ہٹلر اور مسولینی کے عوام پر ظلم و ستم کے واقعات دل دہلا دینے والے تھے مگر مودی نے تو ان سب کو مات دے دی ہے۔
روسی حکومت نے بھی وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ان پر بربریت کی حد کردی تھی، مگر وہ مظالم بھی کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے کم تھے۔ کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کی داستانیں ویسے تو پوری دنیا کے اخبارات میں شایع ہوتی رہتی ہیں مگر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے 2009 میں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کی مکمل اور بھیانک تصویر کشی کی تھی، اس نے کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ اور مذبح خانہ قرار دیا تھا۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے (UNHRC)کے سربراہ زید بن رعدالحسین کی جانب سے بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں حالیہ جاری نسل کشی پر ایک مفصل رپورٹ شایع کی گئی ہے، اس رپورٹ کی اشاعت پر بھارتی حکومت سخت سیخ پا ہے اور اس نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کرکے اپنی ہٹ دھرمی کا پھر مظاہرہ کیا ہے۔ یہ رپورٹ کشمیر میں جاری شہریوں کی شہادت، تشدد اور انسانیت سوز واقعات، خواتین کی بے حرمتی، آزادی پسند رہنماؤں کی پھانسیوں، اسیروں سے بھری جیلیں اور ان میں قید کشمیریوں پر ظلم کی انتہا پھر پیلیٹ گنوں سے آنکھوں کی بینائی چھیننے جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
بھارتی حکومت نے اس رپورٹ کو یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ ایک فرد کی بھارت کے خلاف متعصبانہ کارروائی ہے، یعنی وہ اس حقیقت پر مبنی چشم کشا رپورٹ کے تیار کردہ زید بن رعدالحسین کو ایک متعصب شخص قرار دے رہی ہے، جب کہ انھیں عالمی سطح پر ایک غیر متعصب اور حقیقت پسندانہ رویہ رکھنے والے اقوام متحدہ کا عالیٰ افسر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک صاف گو اور انسانیت سے محبت کرنے والے شخص ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کی تمام قومیں اور مذہب قابل احترام ہیں۔ انھوں نے بعض بڑے اور بااثر ممالک کے خلاف وہاں ہونے والی حقوق انسانی کی پامالیوں کے سلسلے میں رپورٹیں جاری کرائی ہیں مگر چونکہ وہ ایک غیر جانبدار اور حقیقت پسند شخص ہیں چنانچہ ان کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی نہیں بول سکا ہے۔
بھارت دراصل ایک روایتی ہٹ دھرم ملک ہے جو شروع سے ہی ہوس ملک گیری کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ کشمیر ہی کیا حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، گوا اور مناودر پر بزور طاقت قبضہ کرچکا ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس کے عوام بھارت سے اس کے غاصبانہ رویے کی وجہ سے سخت نفرت کرتے ہیں، وہ بھارت کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے پاکستان کو اپنی منزل بنانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک زید بن رعد کا تعلق ہے ان کی نیک نامی اور انصاف پسندی سے بی بی سی بھی مرعوب ہے، اس نے اپنی ویب سائٹ پر ان کی رپورٹ شایع کی ہے جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔
رپورٹ کے اجرا کے بعد دنیا کے تمام ہی انصاف پسند لوگ بھارت کی مذمت کر رہے ہیں، کشمیر میں ظلم و ستم کی کارروائیوں کو روکنے کی توقع کر رہے ہیں مگر بھارت نے اس رپورٹ کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔ مغربی ممالک یقیناً بھارت کو اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے کے لیے مجبور کرسکتے ہیں مگر وہ بھارت سے اپنے مفادات کے حصول کے چکر میں کشمیریوں پر اس کے مظالم سے دیدہ دانستہ چشم پوشی کر رہے ہیں۔
زید بن رعد کی جاری کردہ رپورٹ 49 صفحات پر مشتمل ہے، اس کا لب لباب یہ ہے کہ بھارت کو کشمیریوں پر ظلم کرنے سے روکا جائے اور اس سلسلے میں ایک عالمی کمیشن تشکیل دیا جائے جو بالآخر بھارت کو کشمیریوں کو آزادی دینے پر مائل کرے۔ بھارت نے زید بن رعد کی رپورٹ کو تو رد کر ہی دیا ہے، ساتھ ہی ان کی ذات پر بھی حملہ کیا ہے اور انھیں ایک کٹر جہادی مسلمان قرار دے رہا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے ان کی انصاف پسندی، غیر جانبداری اور حق گوئی کی پوری دنیا معترف ہے وہ ایک نڈر اور بے باک انسان ہیں، انھوں نے بعض معاملات میں خود اپنے ملک اردن پر تنقید کی ہے۔
زید کا تعلق اردن کے شاہی خاندان سے ہے۔ وہ اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ انھوں نے جانس ہوپ کنز یونیورسٹی سے بی اے کیا اور کیمبرج یونیورسٹی سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ انھوں نے جون 2014 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تھا، ٹھیک اسی وقت بھارت میں نریندر مودی نے عام انتخابات میں مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔
اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی ویب سائٹ پر زید بن رعد کے بارے میں دی گئی معلومات کے مطابق انھیں ان کے ملک میں 1989 میں ریگستانی پولیس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ وہ یہاں 1994 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ ان کی سب سے پہلی نوکری تھی جو فرائض کی ادائیگی کے اعتبار سے مثالی ثابت ہوئی تھی۔ ان کی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر انھیں حکومت اردن کی جانب سے 2010 سے 2014 تک اقوام متحدہ میں اپنا نمایندہ مقرر کیا گیا تھا۔ اسی سال وہ سلامتی کونسل کے صدر مقرر ہوئے۔
آپ کی تقرری کو دنیا بھر کی حقوق انسانی کی تنظیموں نے خوش آیند قرار دیا تھا۔ اس وقت کانگو اور لائبیریا میں حکومتوں اور باغیوں کے درمیان زبردست جنگ جاری تھی آپ نے دونوں ممالک سے متعلق کمیٹیوں کی سربراہی کی اور حق و انصاف پر مبنی فیصلے کیے۔ آپ نے سلامتی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے مغربی اور ایشیائی ممالک کے درمیان تفاوت کو ختم کرکے اچھے تعلقات کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے دنیا کی تمام مظلوم اور بے گھر قوموں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے مسائل کو حل کرنے میں اپنی بساط سے زیادہ بھاگ دوڑ کی ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کے بارے میں رپورٹ جاری کرنے سے پہلے بھی بھارت کی بعض زیادتیوں پر اس کی سرزنش کرچکے ہیں۔
انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر مودی کی ان کے خلاف پالیسی پر بھی سخت تنقید کی تھی۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مودی سرکار نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ ان کا رویہ غیر مناسب ہے جس پر اقوام متحدہ کو ضرور غور و فکر کرنا چاہیے، مگر زید نے روہنگیا مسلمانوں سے چشم پوشی اختیار کرنے پر بنگلہ دیش حکومت کی بھی مذمت کی تھی۔ انھوں نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برما پر معاشی پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔ وہ حقیقتاً ایک کھلے ذہن، صلح پسند خصلت اور امن کے شیدائی ہیں۔ وہ دنیا کی کسی بھی قوم کو پریشانی میں نہیں دیکھنا چاہتے۔
دنیا کی حقوق انسانی کی سب سے بڑی تنظیمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹ واچ ان کی کارکردگی کی معترف ہیں۔ ہیومن رائٹ واچ کے سربراہ کینتھ رتھ ان کے خاص مداح ہیں۔ زید کے اچھے ریکارڈ کی وجہ سے وہ ان کے آیندہ بھی اقوام متحدہ کی خدمات جاری رکھنے کی حامی ہیں۔ انھوں نے مختلف ممالک میں بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف کھل کر آواز بلند کی ہے، جس کا مثبت ردعمل آیا ہے اور اب زیادتیوں کے واقعات میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
آپ نے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کو بھی نہیں بخشا اور ان کی بے اعتدالیوں پر انھیں سخت ڈانٹ پلائی تھی، ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ شام کی تباہی میں ملوث ممالک پر بھی سخت تنقید کرتے رہتے ہیں۔ آپ اقوام متحدہ کے سابق سربراہ بان کی مون کے پانچ بہترین صلاح کاروں میں سے ایک تھے۔ ایسے اچھے اور صاف ستھرا ریکارڈ رکھنے والے شخص کو بھارت متعصب قرار دے رہا ہے مگر صرف اس لیے کہ انھوں نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی کشمیریوں پر ظلم و ستم کی پول کھول دی ہے اور اس کے خلاف کمیشن بنانے کا مشورہ دیا ہے۔
مودی حکومت کو تو شرم آنی چاہیے کہ خود اس کے اپنے ملک کے دانشور اسے کشمیر کا قصائی کا خطاب دے رہے ہیں، ساتھ ہی اسے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مشورہ دے رہے ہیں ان لوگوں میں ارون دھتی رائے بھی شامل ہے جن پر بی جے پی کے غنڈے ان کے کشمیریوں سے ہمدردانہ رویے رکھنے پر ان پر کئی مرتبہ قاتلانہ حملہ کرچکے ہیں۔ کاش کہ مودی عقل سے کام لیں اور گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کی لاج رکھ لیں۔