بندے کو حلیمہ بن جانا چاہیے
یقین کریں، زندگی میں بہت سی فکریں اور پریشانیاں اس سے کم ہو گئی ہیں۔
'' اماں میسی نے ورلڈ کلاس فٹ بال سے استعفی دے دیا ہے!! '' بیٹے نے اداس بھرے لہجے میں ماں کو بتایا-
'' میسی کون ہے؟ '' ماں نے حیرت سے اسے دیکھا-...''مشہور فٹ بالر ہے اماں ... آپ اتنا بھی نہیں جانتیں !! '' بیٹے نے چڑ کر کہا-
'' مجھے تو فٹ بال کا بھی نہیں پتا تھا بیٹا... تم نے ہی کچھ عرصے سے دلچسپی سے میچ دیکھنا شروع کیے ہیں تومجھے علم ہوا ہے- یاد ہے کہ جب پہلی بار زبردستی تم نے مجھے اپنے ساتھ آدھی رات کو فٹ بال کا میچ دیکھنے کے لیے بٹھایا تھا تو میں کتنی ہی دیرسوچتی رہی کہ میچ شروع کب ہو گا کیونکہ بڑی سی گیند تو میدان میں تھی، پندرہ بیس لوگ غصے سے اسے ٹھڈے بھی مار رہے تھے اور آپس میں بھڑ رہے تھے مگر مجھے تو اس بلے کی تلاش تھی جس سے میچ شروع ہونا تھا!!''
'' آپ تو بہت ہی سیدھی ہیں اماں !! ''۔... ''ویسے میں اگر ٹیڑھی ہوتی تو بھی میں کیا کر لیتی، میسی کھیلے یا نہ کھیلے مجھے اس سے کیا- کیا اس سے میری زندگی اور اس کے معمولات میں کوئی فرق پڑتا ہے؟ ''
'' بھئی سیٹھ صاحب کی ملازمہ ان کے ڈرائیور کے ساتھ بھاگ گئی ہے!!'' صاحب خانہ شام کو گھر لوٹے تو اپنی طرف سے بڑی گرما گرم خبر بیگم کو سنائی-
'' تو؟؟ '' بیگم نے ابرو اچکا کر سوال کیا-
'' تو... پریشانی کی بات ہے، تم سے شئیر کر لی!!'' انھوںنے کھسیا کر کہا-...'' آپ کو کیوں پریشانی ہے؟ '' سوچ کر رہ گئیں کہ کیا وہ ڈرائیور کے بجائے ان کے ساتھ بھاگتی-...'' بھئی کتنی بدنامی کی بات ہے اور اوپر سے ان کے گھر میں دو دو ملازموں کا مسئلہ ہو گیا ہے !!'' انھوںنے اصل مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی-
'' تو ان کا مسئلہ ہے... آپ دن بھر گھر سے غائب رہتے ہیں ، اپنے گھر کے مسائل سے بے نیاز اور دوسروں کے غم میں دبلے ہوتے ہوئے- کون کس کے ساتھ آنکھ مٹکا کر رہا ہے... کون کس کو چھوڑ رہا ہے، کون کس کے ساتھ بھاگا ہے، کس کے ہاں لڑائی ہوئی ہے، کس کی صلح!!! کس کا رشتہ ہو رہا ہے اور کس کا ٹوٹ رہا ہے، سوائے اس طرح کی بے مقصد لگائی بجھائی اور دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کے آپ کو کچھ اور سوجھتا ہے؟ ''
''تم جیسی گھامڑ عورت سے تو بات کرنا ہی فضول ہے جسے علم ہی نہیں کہ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور کوئی فرد معاشرے سے کٹ کر اپنی جداگانہ پہچان نہیں بنا سکتا! '' وہ اس گھامڑ عورت کے پاس سے اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے، میسی کی ریٹائرمنٹ کا غم مناتا ہوا ان کا بیٹا باپ کی طرف دیکھ کر قیافہ لگانے لگا کہ انھیں کیا ہوا ہے-
'' کیا خیال ہے بیٹا، اقتدار کو چاہیے نا کہ وہ اپنے بیٹے کا رشتہ یاسر کی بیٹی سے کر لے؟ '' فون پر اماں نے اس سے سوال کیا-
'' کون اقتدار اماں ؟ '' اس نے ذہن پر زور دے کر سوال کیا-...'' ارے اپنی فرح کی بھابی کا بہنوئی نہیں ہے جو!! '' اماں نے وضاحت کی-
'' فرح؟ '' اس نے ذہن پر زور دیا، '' آپ کی ہمسائی؟ ''۔'' نہیں بھئی میری ساہیوال والی خالہ کی بہو!! '' ۔'' اوہ اچھا... انھوںنے رابطہ کیا ہے آپ سے اپنے بیٹے کے رشتے کے بارے میں یا یاسر نے؟''۔ '' وہ مجھ سے کیوں رابطہ کریں گے بیٹا، میں کوئی وچولن ہوں جو لوگوں کے رشتے کرواتی ہوں؟ '' اماں نے ناگواری سے کہا- دوسروںکے کہے بغیر ان کے بچوں کے رشتے کی فکر میں مبتلا ہونا اور رشتہ کروانے کا کہا جائے تو بندہ وچولن بن جاتا ہے- وہ سوچ کر رہ گئی، اماں سے ایسی بات کہنا آ بیل مجھے مار کہنے کے مترادف تھا-
'' لیکن اماں ہمیں کیا فکر پڑی ہے کہ ہم آپ کی ساہیوال والی خالہ کی بہو فرح کی بھابی کی بہن کے بیٹے کے رشتے کے بارے میں اتنے پریشان ہوں ؟ ''
'' اپنوں ہی کے بارے میں پریشان ہوا جاتا ہے نا بیٹا!! ''۔'' اماں آپ کے پانچ بچے تھے جو آپ نے پال پوس کر، لکھا پڑھا کر بیاہ دیے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں، ان کے بچوں کے بارے میں بھی فکر کرنے کی آپ کو ضرورت نہیں!! '' اس نے لہجے میں نرمی پیدا کر کے ماں سے کہا-
'' تو تمہارے کہنے کا مقصد ہے کہ میرا تم لوگوں کے بچوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے؟ '' اماں کو تو غصہ آ گیا-...'' ایسا ہر گز نہیں ہے... آپ ان بچوں سے پیار کریں، ان سے پیار وصولیں، ان کے ساتھ وقت بتائیں مگر ان کی فکروں میں مت گھلیں، اس کے لیے ان سب کے والدین کافی ہیں!! '' اماں نے الوداعی کلمات کہہ کر فون بند کیا- صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ انھیں اپنی بیٹی کی سوچ پسند نہیں آئی-
سارے کام نمٹائے، بیٹے اور شوہر سے بحث کے بعد اپنی ماں سے بھی خفگی مول کر اپنی ساس کے پاس دودھ لے کر گئی- انھوں نے غٹا غٹ گلاس خالی کیا اور اپنی ٹانگیں لمبی کیں، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ بہو بیٹھ کر ان کی ٹانگیں دبائے- اس نے خاموشی سے ان کے پاؤں کی طرف بیٹھ کر ان کی ٹانگیں اپنی گود میں رکھ لیں اور ہولے ہولے مساج کرنے لگی-
'' اپنی فیروزہ بیچاری کی نند آئی ہوئی ہے اس کے ہاں ، لگ بھگ پندرہ دن ہو گئے ہیں ، دو بچے بھی ساتھ ہیں اور فیروزہ کا کام کر کر کے حشر ہو گیا ہے!! '' انھوں نے بات بڑھائی- ابھی چند دن پہلے ہی ان کی اپنی بیٹی ان کے ہاں چار بچوں کے ساتھ دو ماہ کی چھٹیاں گزار کر واپس گئی تھی- ان کی طرف سے اپنی بہو کو خاص تاکید تھی کہ ان کی بیٹی کے ہوتے ہوئے کسی بات پر اس کے ماتھے پر بل بھی نہ آئے! اب فیروزہ چونکہ بہن کی بیٹی تھی اور بیاہ کر بڑی سسرال میں گئی تھی تو اس کی طرف سے دل میں درد اٹھا تھا-
'' مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں خالہ جان ... آپ نے ہی توکہا تھا کہ بیٹیاں جب میکے آتی ہیں تو ان کے ساتھ رحمت کے فرشتے آتے ہیں، ہم نے تو سنا تھا کہ ہر مہمان کے ساتھ گھر میں رحمت آتی ہے مگر آپ کے خیال میں بیٹیوںکے ساتھ کچھ اضافی... ''
'' ذرا ڈھنگ سے ٹانگ دباؤ بیٹا!! '' انھوںنے دانت پیس کر کہا ، ''د ھیان جانے کہاں ہے تمہارا! ''
'' آپ فیروزہ کے گھر کے بارے میں فکر مند نہ ہوں ، نہ اس کے بارے میں پریشان ہونے سے اس کا کوئی فائدہ ہے - اس مسئلے میں ہم اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے- ان کے گھر کا معاملہ ہے جیسے چاہیں وہ نمٹائیں، ہمارے لیے ہمارا اپنا گھر اور اس کے مسائل اہم ہونا چاہئیں خالہ جان !! ''
'' کچھ کر نہیں سکتے تو اس بے چاری کے لیے پریشان ہونا بھی چھوڑ دیں کیا؟ '' انھوں نے اس کی گود سے ٹانگ کھینچی، یہ اس بات کا اظہار تھا کہ انھیں مزید مساج کی ضرورت نہیں رہی-'' ہمیں صرف ان باتوں پر پریشان ہونا چاہیے جن سے ہمیں کوئی مسئلہ ہو رہا ہو، یا ہمارے پاس کوئی حل ہو- یوں دنیا میں ہر کس و ناکس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہیں گے تو جی لیے پھر تو!! '' اس نے انھیں سمجھانا چاہا-
'' بندہ تو تمہارے جیسا ہونا چاہیے بھئی حلیمہ! اپنے حال میں مست، نہ کسی کے جینے سے فرق پڑتا ہے تمہیں نہ مرنے سے، جو بھی بات کرو تمہارا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے- بھئی ہر بات ہم کسی غرض سے ہی تو نہیں کرتے... کاش دنیا کا ہر بندہ تمہارے جیسا ہو جائے ، اپنے ہی خول میں بند، اپنی ہی دنیا میں مست!! ''
میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ بندے کو حلیمہ بن جانا چاہیے... سو میں نے whatsapp پر آنے والے ہر اس پیغام کو بغیر پڑھے delete کرنا شروع کر دیا ہے جس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے، یقین کریں ، زندگی میں بہت سی فکریں اور پریشانیاں اس سے کم ہو گئی ہیں!!