اظہار کی آزادی اور جبر کا گرداب
سیاسی بازی گری کے ترکش کے تیر صدیوں سے وہی پرانے چلے آ رہے ہیں۔
5 جولائی آئی اور گزر گئی۔ یہ تاریخ ہمیں ایک ایسے المناک سانحے کی یاد دلاتی ہے، جس نے ہماری زندگیاں بدل دیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے۔ 27 اکتوبر 1958ء میں ہماری بدبختیوں کا آغاز ہوا تھا اور پھر یہ داستان دراز ہوتی گئی، یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999ء کی تاریخ آگئی۔
2008ء میں ہم اس بات پر شاداں و فرحاں تھے کہ آمریت کے عذاب سے ہماری نجات ہوگئی ہے، لیکن 2008ء سے 2018ء تک آتے آتے ہمیں اندازہ ہوا کہ جمہوریت کے ساتھ تو زبردست کھیل کھیلا گیا، بہروپیے جمہوریت کے حقیقی نمائندوں کو بدعنوان اور خائن کہہ کر پیچھے دھکیل رہے تھے اور خود کو پاک اور صاف قرار دے کر جمہوریت سے کھیل رہے تھے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر رہے تھے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی تذلیل وتحقیر کو اپنا شعار سمجھتے تھے اور اصرار کر رہے تھے کہ جسے وہ جمہوریت کہہ رہے ہیں، وہی حقیقت ہے، اس کے سوا سب کچھ سراب ہے۔
اس کھیل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے یہ بھی لازم تھا کہ اخباروں اور ٹیلی وژن پروگراموں کے میزبانوں کی زبان بندی کر دی جائے۔ ہر شخص کے سر پر توہین کی تلوار لٹک رہی ہو اور ہر شخص خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت خیال کرتا ہو۔ تیسری دنیا کی حکومتوں اور صحافیوں اور ادیبوں کے درمیان سچ کو چھپانے اور اسے عیاں کرنے کا جو مقابلہ ہوتا ہے اس میں حکومتوں کے دونوں ہاتھوں میں لامحدود اختیارات کا گرز اور آمرانہ احکامات کی تلوار ہوتی ہے، جس کا چاہو سر کچل دو، جس کی چاہے گردن اڑا دو۔ اس کے مقابلے پر لکھنے والا ایک منحنی سا قلم ہاتھ میں لیے سچ لکھنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہتا ہے۔
بیسویں صدی میں آزادئ اظہار کا بہت شور رہا لیکن عین اسی زمانے میں اخباروں اور کتابوں کو جس جس طرح کچلا گیا، اس کا تذکرہ ہوتے رہنا چاہیے۔ ہم ایک نظر ایران پر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رضا شاہ اول کے زمانے میں آزادئ تحریر وہاں ایک ایسی چیز تھی جسے لوگ خواب میں بھی دیکھتے تو کانپ اٹھتے تھے۔ وہاں اخبارات اس لیے نہیں تھے کہ ملکی سیاسی اور سماجی حالات بیان کیے جائیں۔ ادب اس لیے نہیں تھا کہ اس کے ذریعے لوگوں تک سچ پہنچے۔ رضا شاہ اول کے دور کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ ایران کے لبرل لوگوں نے ڈرتے ہوئے جب اخبارات کو یا ادب کو احتجاج کا ذریعہ بنایا تو کتابیں ضبط کر لی گئیں، اخبار بند کر دیے گئے۔
صحافی اور ادیب قید کیے گئے، ان میں سے بعض کے منہ تانت سے سلوا دیے گئے اور کچھ کو رضا شاہ اول کے حکم سے ایک مینار میں زندہ چنوا دیا گیا۔ صادق ہدایت جدید ایرانی ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ اس کی کہانی ''بوف کور'' کا شمار جدید ایرانی ادب کی بڑی کہانیوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک قصائی کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں ظالم کا مسلسل ظلم اور اس ظلم کے تماشائیوں کی بے حسی کی حد تک پہنچی ہوئی بے بسی دکھائی گئی ہے۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس کہانی کی ایران میں اشاعت ناقابل تصور بات تھی، چنانچہ صادق ہدایت جب 1937ء میں ہندوستان آئے اور بمبئی میں کچھ دن ٹھہرے تو ان کی اس کہانی کا ایک حصہ کتابچے کی صورت میں بمبئی سے بہت محدود تعداد میں شائع ہوا، شاید 500 کی تعداد میں۔ صادق ہدایت کی مکمل کہانی ایران میں برسوں بعد شائع ہوئی اور اس کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
اصل مسئلہ چھپے ہوئے سچے حرف کا ہے۔ تیسری دنیا کے حکمرانوں اور بہ طور خاص آمروں اور ان کے سہولت کاروں کا یہ المیہ ہے کہ انھیں چھپے ہوئے سچے حرف سے خوف آتا ہے، خواہ وہ سچا حرف کسی اخبار میں چھپے یا کسی کہانی، کسی نظم، کسی گیت میں نظر آئے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ وہ ایران جس نے 1979ء میں شہنشاہیت کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکا تھا اور جس کے ادیبوں اور صحافیوں کو یقین تھا کہ اب ان کے خیالات کی اشاعت آزدانہ ہو سکے گی، اسی ملک میں متعدد ادیب اور دانشور قتل ہو چکے، اصلاح پسندوں کے تمام اخبارات بند کیے جا چکے اور ان کے مدیر، ان میں لکھنے والے بندی خانوں میں اس دن کا انتظار کر رہے ہیں، جب ان کے ملک پر آزادیٔ اظہار کا سورج واقعی طلوع ہو گا۔
ہماری سرحدوں کے ساتھ ہی وہ علاقہ ہے جو کبھی سوویت یونین کہلاتا تھا اور آج رشین یونین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس رشین یونین میں بھی صحافی اور ادیب اس بات پر اترائے ہوئے تھے کہ اب انھیں اپنی بات کہنے کی بہت حد تک آزادی ہے، اب وہ حکمرانوں پر تنقید کر سکتے ہیں، سماجی مسائل و معاملات پر کھل کر لکھ سکتے ہیں۔ پوتن حکومت کے آنے کے بعد ان کی یہ خوشیاں بھاپ بن کر اڑ گئیں اور اس وقت وہاں کے آزاد اخبارات اور ٹیلی وژن اسٹیشن حکومت کی گرفت میں ہیں۔ حکومت کی طرف سے اعلان کیا جا چکا ہے کہ مملکت کا ''نظریاتی تحفظ'' اس کا مسئلہ ہے اور وہ عوام تک پہنچنے والی تمام اطلاعات کو اپنی گرفت میں رکھے گی۔
یہ روسی حکومت طے کرے گی کہ عوام تک پہنچنے والی کون سی خبر ''خطرناک'' ہے اور کس خبر کی اشاعت مملکت کے ''نظریاتی تحفظ'' کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گورباچوف جو روس میں آزادئ تحریر کے بانی ہیں، انھوں نے اس صورت حال پر شدید احتجاج کیا اور صدر پوتن سے ملاقات کی کوشش کی، تاکہ انھیں آزادئ تحریر پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خطرناک نتائج سے آگاہ کرسکیں۔
بیسویں صدی میں تیسری دنیا کے کچھ ملک ایڈولف ہٹلر جیسے ''منتخب آمر'' کے ظلم و ستم سے دوچار ہوئے اور بیشتر ملکوں میں جرنیل منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آئے۔ غرض آمرانہ طرز حکمرانی کسی بھی راستے سے آئی ہو، اس نے سب سے پہلے آزادئ تحریر و تقریر پر پابندیاں لگائیں۔
آمریت پسند حکمران کی نفسیات کے بارے میں ایک مغربی دانشور کا کہنا ہے کہ وہ انسان کو ایک رذیل مخلوق خیال کرتا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ ہی اس کے دربار میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کے اردگرد کے ماحول کو آباد کرتے ہیں۔ دہشت زدہ سماج بہت عرصے تک فکر سے عاری اور انفعالیت سے پُر انداز میں برتاؤ کرتا رہتا ہے۔ اس سے اطاعت کرانے کے عیوض اسے صرف کھانا دینا کافی ہوتا ہے۔ محض تھوڑی سی تفریح مل جائے تو خوش رہتا ہے۔
سیاسی بازی گری کے ترکش کے تیر صدیوں سے وہی پرانے چلے آ رہے ہیں۔ اسی لیے ہمیں سیاست کے میدان میں نوآموز لوگ بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں جنھیں یقین ہوتا ہے کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھ آ جائے تو وہ آسانی سے حکمرانی کر لیں گے۔ مگر اس کے باوجود بڑے حیران کن واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں۔ دیکھیے، آپ کے سامنے ایک ہجوم ہے جسے کھانا اور تفریح میسر ہے لیکن اس نے اطاعت جاری رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب وہ جس شے کا مطالبہ کر رہا ہے وہ تفریح سے بڑھ کر ہے۔ اسے آزادی چاہیے، انصاف چاہیے۔
حکمران حیران رہ جاتا ہے۔ وہ انسان کو اس کے پورے وجود، اس کی پوری رعنائی میں دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ ایسا ہی انسان آخرکار اس کی حاکمیت کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، یہی اس کا دشمن ہے اور اسی کو ختم کرنے کے لیے حکمران اپنی پوری طاقت جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ حقارت سے پیش آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خود کو ان سے تسلیم کرانے کے لیے بھی پورا زور لگاتا ہے۔
قانونی طور پر ناجائز ہونے کے باوجود ... یا شاید اسی کے باعث ... وہ قانونی طور پر جائز ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ مریضانہ حد تک حساس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے اپنے کمتر ہونے کا بھی مسلسل احساس رہتا ہے، خواہ یہ احساس کتنی ہی گہرائی میں چھپا ہوا کیوں نہ ہو۔ اسی لیے وہ خود کو اور دوسروں کو یہ دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ اسے عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ خواہ یہ مقبولیت محض تصنع ہی کیوں نہ ہو، بڑی تسکین بخش ہوتی ہے۔ اگر یہ صرف ڈھونگ ہے تب بھی کیا حرج ہے؟ وہ کتنے ہی پاک اور پاکیزہ روپ میں آئے، اس کی دنیا میں اکثر چیزیں ڈھونگ ہی تو ہوتی ہیں۔
جبروستم کے زمانوں میں آزادئ تحریر کے لیے جو لڑائی پاکستان میں لڑی گئی اس میں ادیبوں کا حصہ بہت کم ہے۔ یہ لڑائی پاکستانی صحافیوں نے لڑی ہے، وہی ہر زمانے میں مطعون بھی ٹھہرے اور معتوب بھی رہے ہیں۔ حکمرانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہونے لگے تو اس کے آثار نظر آنے لگتے ہیں، پاکستانی صحافت کے افق پر بھی وہ آثار نمودار ہو رہے ہیں۔ مشکل صرف اتنی سی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت کیسا ہی معزز لبادہ اوڑھ کر آئے، اسے اب تک اس نکتے کی تفہیم نہیں ہو سکی کہ لوگوں کے صبر کو ایک حد سے زیادہ آزمانا نہیں چاہیے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے تو بڑی بڑی طاقتیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔