کراچی کو ’’وینس‘‘ بننے سے بچائیں
ہم سب کو بالعموم اور ارباب اقتدار و ارباب اختیار کو بالخصوص سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے۔
دنیا کے خوبصورت ترین سیاحتی مقامات کی فہرست تیار کی جائے تو اس میں فرانس اور اٹلی کے شہر سب سے پہلے نظرآئیں گے اور ان میں بھی فرانسیسی شہر ''پیرس'' اور اٹلی کا خوبصورت شہر ''وینس'' دنیا گھومنے کے شوقین لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں گے اور بنے ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پیرس اپنی ترقی، خوبصورتی اور منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے تمام عوامی منصوبوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔
اِسی طرح اطالوی شہر ''وینس'' کو اپنی قدرتی خوبصورتی، نہروں اور تالاب کی وجہ سے سیاحتی مقامات میں منفرد مقام حاصل ہے۔ چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ''وینس'' کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں سڑکیں برائے نام ہیں اور تمام جزائر کو ملانے کا ذریعہ بھی یہ نہریں اور جھیلیں ہی ہیں، جہاں آمدورفت صرف کشتیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اِسی لیے ''وینس'' کو جھیلوں اور تالابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے بنے شہروں کے مکینوں اور ترقی پذیر شہروں کے باسیوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ بارش جیسی نعمت کو وہ لوگ ''انجوائے'' کرتے ہیں، لیکن ہم لوگ اکثر اوقات صرف ''ہائے ہائے'' کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جب بھی عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو ارباب اقتدار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اپنے شہر کو ''پیرس'' بنادیں گے، یعنی اپنے علاقے کو اتنی ترقی دیں گے، عوام کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کریں گے کہ لوگ ہمارے شہر کا موازنہ ترقی یافتہ ملکوں سے کرنے لگیں گے۔ یہ سوچ ضرور ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایسا حقیقت میں ہوتا نہیں ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں سے بیشتر کا بدستور ترقی پذیر ہی رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کی خدمت کرنے والوں نے وعدے اور دعوے تو بہت کیے لیکن عملی طور پر عوام کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا، جس کی وجہ سے صحیح معنوں میں عوامی مسائل حل ہوتے اور ہر علاقے میں نمایاں مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملتیں۔ یہی المیہ ہمارے ملک کے بھی چھوٹے بڑے شہروں بشمول میگاسٹی کراچی اور لاہور کے ساتھ ہے۔ حال ہی میں لاہور کی طوفانی بارش کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
اس میں کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے نہ کسی پر تنقید، لیکن بارش کے بعد لاہوریوں نے جو کچھ بھگتا ہے، اس کا اندازہ دور بیٹھے کرنا ممکن نہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو تصاویر، خبریں اور وڈیوز سب نے دیکھیں، پڑھیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامی خدمت کے لیے بنائے اداروں، محکموں اور عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں نے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے ''ابر رحمت'' کو ہر ایک کے لیے ''زحمت'' بنادیا۔
اگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر کچھ گھنٹوں کی برسات کے بعد ہی گاڑیوں کی جگہ کشتیاں چلانے کی نوبت آجائے تو افسوس تو ہوتا ہے۔ سب شہر ہمارے ہیں، جن کا مجموعہ ہمارا پاکستان ہے۔ بڑے شہر دنیا میں ہماری پہچان بنتے ہیں تو یہ پہچان اچھے الفاظ اور مناظر سے ہونی چاہیے۔
اہم بات یہ ہے کہ بارشیں ہر سال ہوتی ہیں، ان کی شدت کا بھی کچھ نہ کچھ اندازہ سب کو ہوتا ہے لیکن ہر سال بارشوں کے بعد عوام کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے بھی نہیں ہیں اور حل بھی نہیں ہورہے۔ بڑے بڑے منصوبوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی توجہ سے کیا جائے تو صورتحال میں بہتری آسکتی ہے اور کسی بھی قدرتی آفت کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔
سیانے کہہ گئے ہیں کہ ''حالت امن میں حالت جنگ کی تیاری کرنی چاہیے'' کیونکہ جب جنگ شروع ہوجائے تو اس وقت صرف جنگ کرنی ہوتی ہے، تیاری کا موقع نہیں رہتا۔ گزشتہ ہفتے کی بارشوں کے بعد ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور کا جو حال ہوا ہے وہ ہر دردمند پاکستانی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر لاہور جیسے بڑے شہر جہاں متعدد میگا پروجیکٹس پر کام ہورہا ہو، اس کی مثالیں دی جاتی ہوں اور وہاں آبادی کا بڑا حصہ رہتا ہو، وہاں اگر چند گھنٹوں کی بارش تباہی مچا سکتی ہے تو چھوٹے بڑے شہروں کا تو اﷲ ہی حافظ ہے۔
میری ادنیٰ رائے میں تو لاہور کی بارش اور اس کے بعد کی حالت زار کے تناظر میں سندھ کی نگراں حکومت، کراچی کی بلدیاتی ٹیم اور دیگر متعلقہ اداروں کو کمر کَس لینی چاہیے اور ایسے انتظامات کرنے چاہئیں جن کی وجہ سے ممکنہ طور پر آنے والی بارشوں سے کراچی کے شہری لطف اندوز ہوں۔ گزشتہ سال کی بارش ابھی سب کو یاد ہے جب عیدالاضحیٰ کے موقع پر شدید بارشوں نے سیلابی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اس سے قبل بھی جب بھی شہر قائد میں ابر رحمت کھل کر برسا ہے تو انتظامی اداروں کی کارکردگی سامنے آئی ہے، عوام کو جن مصیبتوں، پریشانیوں اور مسائل کا سامنا رہا وہ کوئی نہیں بھولا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی بارشوں کی نوید سنائی جاتی ہے تو اہل کراچی خوش ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف خدشات میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔
کراچی کو بھی پیرس بنانے کے دعوے اور وعدے برسوں سے جاری ہیں، ہر جماعت کے رہنماؤں نے بہت فیاضی سے شہر کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے لیکن کراچی والوں کی تو خواہش ہے کہ کراچی کو ''پیرس'' بنانے کے بجائے کراچی ہی رہنے دیا جائے اور بارشوں سے بچاؤ کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کہ ہمارا کراچی ''وینس'' بننے سے بھی محفوظ رہے۔
سب کے علم میں ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، نالوں کی صفائی مکمل طور پر نہیں ہوئی، اس کے علاوہ سیوریج کی خراب لائنیں اور سڑکوں کی ابتر صورتحال، بجلی کے تاروں اور کھمبوں کی شکستہ حالت سب کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ گرین بس اور دیگر منصوبوں کی وجہ سے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام جاری ہے، بارش کی وجہ سے وہاں جو صورتحال ہوگی وہ ناقابل بیان ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ شہر کی موجودہ صورتحال چند دن میں تبدیل تو نہیں ہوسکتی لیکن اس کو کچھ نہ کچھ بہتر ضرور کیا جاسکتا ہے ورنہ چند گھنٹوں کی بارش بھی خدانخواستہ شہر کے باسیوں کے لیے بہت بڑی پریشانی اور مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ ناخوشگوار حالات سے بچنے کے لیے ابھی سے کچھ کرلیا جائے تو اچھا ہوگا۔ سمجھدار لوگ ہمیشہ اچھے وقتوں میں برے وقت سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔ اگر اس وقت بھی سب لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے رہے تو کہیں دیر نہ ہوجائے اور شہری یہ کہنے پر مجبور نہ ہوجائیں کہ
''پیرس'' بنارہے تھے مجھے اہل انتظام
یاروں نے میرے شہر کو ''وینس'' بنادیا
ہم سب کو بالعموم اور ارباب اقتدار و ارباب اختیار کو بالخصوص سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے ہوں گے اور اس مقصد کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ہمارا شہر ''وینس'' جیسا نظر نہ آئے۔ تصاویر اور وڈیوز میں وینس کے مناظر بہت دلکش اور پرکشش لگتے ہیں اور وہ ہیں بھی، کیونکہ وہاں کے لوگوں نے قدرت کے تحائف کو مزید خوبصورت بنادیا ہے۔ ہمارے کراچی کو وینس جیسا ترقی یافتہ ضرور بننا چاہیے لیکن ''وینس'' جیسا نظر نہیں آنا چاہیے جہاں ہر وقت کشتیوں کی ضرورت پڑے۔ لاہور میں کشتیاں چل چکیں، کوشش کرنی ہوگی کہ کراچی میں سڑکوں پر گاڑیاں ہی چلیں۔