حقیقت خرافات میں کھو گئی

نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نادیدہ قوت بشریٰ بی بی کی ’’روحانیت‘‘ہے یا کسی درپردہ مادہ پرست کی مادیت کی روحانی شکل۔



پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ نعرہ جو لگایا گیا وہ یہ تھا ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ'' اس کی تعبیر و تشریح ہماری قیادت نے خود کی تھی۔

حصول پاکستان کے فوراً بعد ہی ہمارے سیاسی رہنماؤں نے ہمارے بزرگوں کی تعبیرات کی غلط تشریح کرکے انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ قائداعظم کے فرمودات کی غلط تعبیر و تشریح کی گئی، پھر علامہ اقبال کی باری آئی تو ان کو سیکولر بنادیا گیا، ان کی خودی کا تصور جس کے لیے انھوں نے ایمان کو شرط اول قرار دیا تھا سیکولر تصور بنا ڈالا گیا، جب ان دونوں زعما کی اچھی طرح ریڑھ مار لی گئی تو پھر اسلام کی باری آئی۔

فرقوں کے اعتبار سے تو 72 فرقے اور 72 تعبیرات کا الزام مذہبی لیڈرشپ پر باآسانی عائد کیا جاسکتا ہے مگر ہوا یہ کہ خود اسلام کو بھی سیکولر بنانے کی کوشش کی گئی اور گلابی اسلام، سرخ اسلام اور زیادہ سرخ اسلام پیش کیا جانے لگا، جو سیاسی جماعتوں کے مقاصد کی تعبیرات کے لیے ضروری تھا۔

اس صورتحال میں مذہبی جماعتیں نہ صرف یہ کہ دفاعی پوزیشن میں آگئیں بلکہ بعض صورتوں میں محض بے کار اور غیر موثر ہوکر رہ گئیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس ملک کی تقریباً 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہو وہاں اسلام کے نام لیوا سانس روک کر اور اپنا گلا خود گھونٹ کر زندگی گزار رہے ہوں۔

اسلام کی متعدد اقسام کے ذمے دار تو خود ہمارے مذہبی علما اور مذہبی جماعتیں ہیں مگر ''غیر اسلامی اسلام'' کا وجود ہماری سیاسی جماعتوں کی دین ہے۔ ہم بڑی دیدہ دلیری سے وہ تمام کام کر رہے ہیں جو اسلام میں ممنوعات ہیں، ہماری اجتماعی زندگی میں اسلام سے زیادہ غیر اسلام کا دخل ہے اور ہمارے مذہبی حلقوں میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اﷲ لگتی بات یہ ہے کہ بے چاری یہ جماعتیں جانتی ہیں کہ اب عوامی زندگی پر ان کی گرفت برائے نام رہ گئی ہے اور ان کے فرمودات کو لوگ اگلے وقتوں کی باتیں قرار دے کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے ٹی وی چینل بھارتی اداکاروں کی ذاتی اور فنی سرگرمیوں، ان کی سال گرہوں اور ان کی فلموں کی تفصیل اس طرح نشر کرتے ہوں جیسے وہ ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ اور ہمارے لیے بڑی قابل فخر باتیں ہوں۔

اس پس منظر میں ہمارے موجودہ انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اب پھر مذہبی جماعتیں ایک بندھن میں بندھ کر سامنے آرہی ہیں مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ سہروردی صاحب کا یہ قول جو انھوں نے اپنے مخالفین کے لیے کہا تھا کہ ''صفر + صفر = صفر'' بڑا حقیقت پسندانہ تھا۔

ہمارے سیاسی افق پر ایک نئی جماعت ابھری تھی۔ لوگوں نے اس سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں اور بظاہر وہ عدل کے قیام کے لیے کافی مستعد نظر آتی تھی ہم جیسے بہت لوگوں نے اس سے بڑی اچھی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ اس کی اٹھان بھی ایسی ہی تھی مگر دھیرے دھیرے اس کی کمزوریاں نمایاں ہونے لگیں۔

اس کی سیاسی کمزوریوں کا ایک بڑا سبب اس کے لیڈر کی ذاتی زندگی رہی۔ اب جو انھوں نے تیسری شادی کی اس میں قباحت تو کچھ بھی نہیں تھی مگر شادی کو روحانیت کا نتیجہ قرار دیا گیا اور وہ میاں بیوی جب عمرے کو گئے تو عمران خان صاحب کچھ دور تک برہنہ پا چلے۔ شاید ان کو بتایا گیا ہو کہ امام مالک مدینہ میں ایسا ہی کیا کرتے تھے مگر وہ اپنے اندر کے مطالبے پر یہ کرتے اور عمران خان کسی کے کہنے پر۔ کسی کے سکھانے پر نیک عمل کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن ان کی اہلیہ جو ان کی روحانی پیشوا بھی ہیں، انھیں یہ آداب سکھاتی رہتی ہیں، مگر قلب کی وہ گرمی، وہ نرمی، وہ تڑپ جو اصل روحانیت ہے وہ سکھانے سے پیدا نہیں ہوتی۔

اب چند روز قبل ہی ایک منظر ٹی وی پر بھی دکھایا گیا اور سوشل میڈیا پر بھی عام ہے کہ عمران خان اپنی اہلیہ کے ساتھ بابا فرید گنج شکر کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی چوکھٹ پر اہلیہ کے ساتھ سجدہ ریز ہوئے، ایک دوسری ویڈیو میں وہ مزار کے اندرونی حصے میں برگ ہائے گلاب کے قالین پر بیٹھ کر جھک کر دعا فرماتے رہے۔

اس سلسلے میں اگر ہم کچھ کہیں تو لوگ کہیں گے یہ فتوے باز ہے۔ حالانکہ ہم مفتی ہیں ہی نہیں اور فتویٰ دینے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ہم اسے یوں سوچتے ہیں کہ ایک شخص وزارت عظمیٰ کے حصول کی اس قدر شدید خواہش رکھتا ہے کہ اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ وہ اس اعلیٰ منصب پر فائز ہوگیا تو دوران منصب اور بعدہ اس پر مزید برقرار رکھنے کے لیے کیا کچھ نہ کرسکے گا اور اگر چنگیزی روح اس میں بیدار ہوگئی تو۔۔۔۔؟

اب تک تو یہ نواز شریف کی خام خیالی نظر آتی تھی مگر اب یہ بات اتنی واضح ہوچکی ہے کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی امپائر ہے جس کی انگلی کے بل بوتے پر عمران خان سرگرم ہیں اور اس نادیدہ قوت ہی کے بل بوتے پر سب کچھ ہو رہا ہے۔

نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نادیدہ قوت بشریٰ بی بی کی ''روحانیت''ہے یا کسی درپردہ مادہ پرست کی مادیت کی روحانی شکل۔

اﷲ ہمیں اور ہماری قوم کو نفس اور انفاس کے شرور سے بچائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں