قومی آبی پالیسی
این ڈبلیو پی کے ذریعے صوبوں کو آبی وسائل کی تعمیر و ترقی اور انتظامی امور سے متعلق بااختیار کیا گیا۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز( پی سی آر ڈبلیو آر) نے 1990ء میں یہ تنبیہ کردی تھی کہ ملک میںپانی کی دستیابی ''واٹر اسٹریس لائن'' کی سطح پر آگئی ہے، یہ 2005ء سے قبل کی بات ہے جب یہ سطح ''واٹر سیکیورٹی لائن'' تک پہنچ گئی اوراب صورت حال یہ ہے کہ 2025ء تک ملک میں پانی کی عدم دستیابی کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر(برفانی تودے) موجود ہیں، لیکن اس کے باجود پاکستان کا شمار پانی کی دستیابی سے متعلق دباؤ کا شکار دنیا کے 36ممالک میں ہوتا ہے۔
صاف نظر آتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کی طلب رسد سے کئی گنا زیادہ بڑھ جائے گی۔ تیزی سے ختم ہوتے آبی ذخائر کے تحفظ کے لیے اقدامات نہ ہونے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ آبادی کی بڑے پیمانے پر شہری علاقوں میں منتقلی جیسے عوامل پانی کی دستیابی پر مزید اثر انداز ہورہے ہیں۔ مستقبل قریب میں ہمیں خشک سالی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ 1947ء میں فی کس پانی کی دستیابی 5000کیوبک میٹر سے کم ہو کر آج صرف 1000کیوبک میٹر تک آچکی ہے۔
ڈیموں کی تعمیر ہو، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہو یا آبی ذخائر کی گنجائش میں اضافے کے اقدامات ہوں، کوئی حکومت مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی نظر نہیں آتی۔ صوبوں میں باہمی عدم اعتمادی کو ختم کرنے کے لیے آبی وسائل کی تقسیم سے متعلق قومی آبی پالیسی(این ڈبلیو پی) کے سلسلے میں کاوشیں ہوتیں تو شاید ہم اس بحران سے سات برس دور ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں پر اس کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
ہمیں سرتاج عزیز کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے 24اپریل 2018ء کو پاکستان کی پہلی متفقہ نیشنل واٹر پالیسی بنوائی۔ اس پالیسی میں آبی وسائل کی حفاظت، ذخائر کی تعمیر، تقسیم اور زیر زمین پانی کے معیار سے متعلق امور کو شامل کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے ڈیموں کی تعیمیر اور صوبوں میں پانی کی تقسیم کو مطلوبہ اہمیت بھی دی گئی۔ این ڈبلیو پی کے ذریعے صوبوں کو آبی وسائل کی تعمیر و ترقی اور انتظامی امور سے متعلق بااختیار کیا گیا۔
اس پالیسی میں آبی ذخائر سے متعلق کئی اہم امور کو زیر بحث لایا گیا بالخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں کے آبی ذخائر پر ہونے والے اثرات کو خصوصی توجہ دی گئی۔ اگر کسی سال برسات کی معمول کی اوسط سے زیادہ بارش ہوتی ہے اور اگلے برس اس میں کمی واقعہ ہوتی ہے، ایسی صورت میں یہی ایک راستہ ہے کہ اضافی بارشوں والے برس کا اضافی پانی اس طرح محفوظ کیا جائے کہ جس برس خشک سالی کی صورت حال پیش آجائے تو یہ پانی استعمال میں لایا جائے۔
اس وقت ایک قومی سطح کے ماسٹر پلان کی ضرورت ہے، جس میں پانی کے ذخائر، سیلاب، خشک سالی کے شکار علاقوں، شہری علاقوں کے لیے پانی اور نرخوں کا تعین، موجودہ ذخائر کی عمر بڑھانے کے لیے چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر اور ملک کے موجودہ انفرااسٹرکچر بحالی اور ری ماڈلنگ جیسے امور کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ محدود آبی وسائل میں اضافے اور مستقبل میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے آبی امور سے متعلق تمام سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
زمینی پانی کے لیے ایسے ضابطہ ساز ادارے ہونے چاہیے جو تیز رفتاری سے قواعد کے اطلاق کا نظام وضع کریں جس کے نتیجے میں پائیداری، شفافیت، بہتر کارکردگی، تحفظ اور آسان رسائی یقینی ہو۔ ہر صوبے میں بنائی گئی ''گراؤنڈ واٹر اتھارٹی'' پانی کے لیے ترقی اور استعمال کے معیارات وضع کرے اور ان پر عمل درآمد کروائے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اس بات پر شدید خفگی کا اظہار کیا گیا ہے کہ 1960ء کی دہائی میں منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سے ملک میں کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ رواں برس مارچ میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے صرف دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی منظوری دی جس کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 625 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس کی رقوم مقامی ذرایع سے حاصل کی جائیں گی۔
سرتاج عزیز کی کوششوں سے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایگزیکیٹو کمیٹی برائے قومی اقتصادی کونسل (ای سی این ای سی ) سے توثیق کے لیے مہمند ڈیم ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ کے لیے 303ارب روپے کی منظوری دی۔ پاکستان ہر سال 2کروڑ 10لاکھ ایکڑ فٹ(ایم اے ایف) پانی سمندر میں ڈالتا ہے، اس پانی سے منگلا ڈیم کے حجم کے تین ذخائر بھرے جاسکتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم سے پاکستان کی آبی ضروریات پوری کی جاسکتی تھیں لیکن یہ معاملہ اس قدر سیاسی اور متنازعہ ہوچکا ہے کہ اس کی تعمیر قریباً ناممکن ہوچکی ہے۔
سندھ زرعی یونیورسٹی جام شورو کے ڈاکٹر سہیل نئی واٹر پالیسی سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ پالیسی خوراک اور پائیدار زراعت کے ایس ڈی جی ایسز کے لیے میں مطلوب بنیادی اقدامات کو زیر بحث نہیں لاتی۔ اس پاٗٗلیسی میں ڈیٹا ناقص ہے۔ دیہی آبی ضروریات اس میں موجود ہی نہیں۔ دوسری جانب سندھ آبادکار بورڈ کے نمایندے سید ندیم کا کہنا ہے کہ ''اس دستاویز میں پانی کے بہاؤ، زیر زمین پانی کے اخراج، شہری، زرعی اور صنعتی استعمال سے متعلق معلومات شامل نہیں۔ لیکن مجموعی طور پر حکومت نے قابل تعریف کام کیا ہے۔''
نیشنل واٹر پالیسی میں تمام ماہرین اور شرکا نے فوری طور پر خوراک ، توانائی اور پانی سے متعلق حالیہ اور آیندہ خدشات پر توجہ دینے کے لیے زور دیا ہے۔ اس میں انتہائی اہم امور کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پانی کی اقتصادی ترجیحات کی بنیاد پر تقسیم، ماحولیات آبی طاسوں کے ماحول کا تحفظ، زراعت اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس کے اثرات، پینے کے پانی اور نکاسی آب، ہائیڈرو پاؤر، زمینی پانی، آبی حقوق و فرائض وغیرہ جیسے اہم نکات اس میں شامل ہیں۔
سرحدوں کے مابین پانی کی تقسیم سے متعلق قومی آبی پالیسی کی شق 9میں یک طرفہ اقدام کے لیے چار نکات پر زور دیا گیا ہے، جن میں کوئی بھی پیشرفت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستانی اور بھارتی حکومتیں سندھ طاس سے متعلق باہمی تعاون کے لیے مذاکرات نہیں کرتی اور سندھ طاس معاہدے سے بڑھ کر فیصلے نہیں کرتیں۔
بین السرحدی آبی تنازعات کی محقق اور تجزیہ کار گوری نوکلر اوک کے مطابق ''نیشنل واٹر پالیسی میں پاکستان کے آبی شعبے کے کئی اہم معاملات پر بات کی گئی ہے، لیکن اس میں بین السرحدی آبی تعاون کو مطلوبہ اہمیت نہیں دی گئی۔ میٹھے پانی کے لیے پاکستان کا 78 فی صد انحصار اس پانی پر ہے جو اس کی سرحد کے باہر سے آتا ہے۔
244ارب کیوبک میٹر یا 90فی صد پانی اس کے حریف مشرقی پڑوسی ملک بھارت سے آتا ہے۔ پانی سے متعلق جب پاکستان کا تقریباً مکمل انحصار ہی ایک پڑوسی پر ہے تو واٹر پالیسی میں بین السرحدی آبی تعاون کو مزید اہمیت دی جانی چاہیے تھی۔'' بھارت کی جانب سے بڑے پیمانے پر پانی چھوڑنے اور روکنے سے متعلق پاکستان کی شکایات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور ان پر چارہ جوئی بھی کی جانی چاہیے۔
ہماری سیاسی جماعتوں نے گزشتہ دہائیوں میں اپنے سیاسی اور صوبائی مفادات کی خاطر اس سنگین مسئلے سے صرف نظر کیا جب کہ بھارت نے دو قدم آگے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں ڈیم تعمیر کیے اور پاکستان کے حصے کا پانی بھی روک لیا۔ ہم آج بھی اس گمبھیر حقیقت سے نظریں چرا رہیں کہ پانی کی عدم دستیابی کے ''روزِ قیامت'' اب صرف سات برس ہی باقی رہ گئے ہیں۔ قومی آبی پالیسی تشکیل دی جاسکی، اب اس پر پورے خلوص سے عمل درآمد حکومت کی ذمے داری ہے ورنہ مشترکہ محنت کی یہ عظیم مثال بے ثمر ہی رہے گی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)