ادب کے یہ نئے میلے کیا کہتے ہیں

کون کہتا ہے کہ اب ادب نہیں پڑھا جاتا۔ میڈیا کا زمانہ ہے۔ لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں کتاب نہیں پڑھتے۔۔۔


Intezar Hussain May 05, 2013
[email protected]

LONDON: کون کہتا ہے کہ اب ادب نہیں پڑھا جاتا۔ میڈیا کا زمانہ ہے۔ لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں۔کتاب نہیں پڑھتے، اور یہ کس نے اڑائی ہے کہ اردو کا ادیب اب پس منظر میں چلا گیا ہے۔ وہ دور گزر گیا جب خلیل خاں اردو میں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ دھوم افسانے میں منٹو کی تھی، ناول میں قرۃ العین حیدر کی تھی، اب اردو ادب کا بازار ٹھنڈا ہے۔

یہ جو دانشور قسم کی مخلوق ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر محاکمے کرتی ہے اور مستقبل کے متعلق پیشگوئیاں کرتی ہے کبھی،کبھی اسے اپنی دانشوروی کے خول سے باہر نکل کر دیکھنا چاہیے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔

باہر اس وقت بیشک بہت شور ہے۔ سیاستدانوں نے الیکشن لڑنے والوں نے اور ان سب سے بڑھ کر خون خرابہ کرنے والوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور عمل بھی چل رہا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں کراچی، لاہور میں، اسلام آباد میں کتنے لٹریچر فیسٹیول ہوئے اور کتنے کتابی میلے لگے ہیں اور ان میں کتنی خلقت ٹوٹی ہے۔ ابھی ہم اسلام آباد کے لٹریچر فیسٹیول کی بہار دیکھ کر لوٹے ہیں۔ ادھر سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی خلقت امنڈی ہوئی تھی۔ طلبا ان سے بڑھ کر طالبات۔ جو بھی ایسے لکھنے والے وہاں تھے جن کے نام اور کام سے ہم آپ آشنا ہیں ان پر نوخیز مخلوق کی یلغار تھی اور خالی آٹو گراف کے لیے نہیں بلکہ ابھی ہال میں بیٹھ کر انھوں نے ان کے درشن کیے، ان کی باتیں سنیں، ان کے کام پر کسی ہمعصر کا تبصرہ سنا اور پلک چھپک کتابوں کے ان اسٹالوں کی طرف گئے جو باہر قطار اندر قطار نظر آ رہے تھے۔ وہاں سے کوئی ایک نہیں بلکہ اپنے محبوب مصنف کی دو دو تین تین بلکہ چار چار کتابیں خریدیں اور اب ان پر امنڈی ہوئی ہیں، کہ ان کتابوں پر اپنے دستخط کیجیے۔

ہاں لیجیے یہ جو ہم نے ان لکھنے والوں کے ساتھ سیشن کا ذکر کیا اس کا بھی احوال سن لیجیے۔ ایک ہی وقت میں کئی کئی ہالز میں سیشن جاری ہیں۔ انگریزی میں لکھنے والوں کے الگ، اردو میں لکھنے والوں کے الگ اور اردو کا معاملہ یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہال میں ہمارا ایک پسندیدہ ادیب رواں ہے۔ دوسرے ہال میں دوسرا پسندیدہ ادیب رواں ہے۔ سو مداحین کا ایک قدم اس ہال میں دوسرا قدم دوسرے ہال میں اور دونوں ایوانوں میں سامعین قطار اندر قطار بیٹھے ہیں۔ کتنے مداحین کو بیٹھنے کے لیے کرسی میسر نہیں آئی تو وہ دائیں بائیں اور عقب میں کھڑے ہیں اور کس یکسوئی اور استعجاب سے سن رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح و شام ٹی وی دیکھتے ہیں۔ بولنے والوں کو بھی سنتے ہیں اور بولنے والیوں کو بھی۔ مگر یہاں جو زہرہ نگاہ باتیں کر رہی ہیں بھلا ایسی گفتگو انھوں نے کبھی کسی چینل پر سنی تھی۔ ایسی گفتگو کو کہتے ہیں کہ منہ سے پھول جھڑ رہے تھے۔

لو اس پر ایک اور بی بی کی طرف ہمارا دھیان چلا گیا۔ برابر کے ایوان میں زبان کے مسئلہ پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے زبان کے ایک محقق کی حیثیت سے کچھ باتیں کیں۔ وہ اپنی جگہ بامعنی تھیں۔ مگر اس کے بعد شروع ہو گئیں عارفہ سیدہ۔ لیجیے منہ سے پھول جھڑنے لگے۔ پھلجھڑیاں چھوٹنے لگیں۔

نطق کو سو ناز ہیں تیرے لب گفتار پر

اور لیجیے تیسرا نام بھی سن لیجیے۔ ارے ہم تو سال کے سال برس کی آخری شام علی آڈیٹوریم میں جا کر انھیں سنتے ہیں۔ یعنی کہ ضیاء محی الدین کو اردو کو صحیح لب و لہجہ کے ساتھ سننا چاہتے تو ان سے سنتے۔ اردو ادب کے آج کے قارئین تو اب صرف اس اردو کو جانتے ہیں جس نے پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائی میں نئی شاعری اور نئے افسانے میں اپنی بہار دکھائی تھی۔ مگر ضیاء محی الدین راشد اور فیض کو سناتے سناتے پیچھے چلے جاتے ہیں اور ایسے لکھنے والوں خاص طور پر نثر نگاروں کو ٹٹول کر لاتے ہیں جو عام قارئین کی نظروں سے مدت ہوئی اوجھل ہو چکے ہیں اور ان کی زبان و بیان کو کس خوبی سے آشکار کرتے ہیں کہ سامعین کے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔

تو اردو زبان کے ایسے ساحر اور ایسی ساحرائیں موجود ہیں۔ پھر یار لوگ یہ دیکھ دیکھ کر کیوں کڑھتے ہیں کہ دیکھیے صاحب ٹی وی چینلوں پر اردو کی کیا گت بن رہی ہے۔ ان ساحروں ساحرائوں کے ریکارڈ بھرلو اور ان کے وسیلہ سے اردو زبان کا ذائقہ اپنے اندر اتار لو۔ ہر زبان کا اپنا ایک ذائقہ تو ہوتا ہے۔ ضیاء محی الدین اس جشن میں موجود تھے۔ ہم سننے سے رہ گئے مگر جس جس نے انھیں سنا وہ ان کے اردو لب و لہجہ کا کلمہ پڑھتا نکلا۔

ہماری یونیورسٹیوں میں اور اکیڈیمک اداروں میں ادبی سیمینار کا اہتمام کرنے والوں کو یہاں آ کر ذرا دیکھنا چاہیے اور سبق لینا چاہیے کہ ادبی تقاریب کس طرح ہونی چاہیئں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ شعر، افسانہ، ناول لکھنے والے غائب ہیں اور پروفیسر حضرات اپنے طویل و بسیط مقالے سنا رہے ہیں۔ صحیح ہے کہ ادب کے پروفیسروں، نقادوں، محققوں کا اپنا ایک مقام ہے۔ مگر ایسے موقعوں پر ادب کے قارئین اس صورت میں کھنچ کر آتے ہیں جب خود ادیب وہاں موجود ہو۔ اس وقت اس کا قاری اس سے اپنا ایک زندہ رشتہ محسوس کرتا ہے۔ اب یہاں عبداللہ حسین سنا رہے تھے کہ انھوں نے اپنا پہلا ناول جو ہٹ ہوا کس طرح لکھا۔ وہ مسودہ کن کن مراحل سے گزرا۔ کس طرح منظر عام پر آیا۔ خود لکھنے والا جب اس رنگ سے اپنے تجربے بیان کرتا ہے اور اپنی تخلیقی تگ و دو کو اجاگر کرتا ہے تو ادب کے قارئین اور خاص طور پر نوجوان قارئین کا اشتیاق کتنا بڑھ جاتا ہے۔

تو ان ادبی میلوں کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ خود شاعر کو اور ناول نگار کو افسانہ نگار کو اس طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ قارئین ہمعصر ادب سے اور اپنے عہد کے ادیب سے ایک زندہ رشتہ محسوس کرتے ہیں اور ایک بات اور۔ اس پر آشوب زمانے میں لوگ بھاگ بھاگ کر ایسے اجتماعات میں آتے ہیں۔ سیاستدانوں کے بیانات اور سیاسی جوڑ توڑ کو کہاں تک بھگتیں۔

تازہ ہوا میں بھی تو سانس لینے کو جی چاہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں