محنت کشوں کی تاریخی جدوجہد

دور جدید کی دنیا کو بدلنے میں محکوم اور کچلے ہوئے عوام نے بڑی لمبی اور طویل جدوجہد کی ہے اور یہ جدوجہد تاحال۔۔۔


Manzoor Razi May 05, 2013

''تم ہمیں مار سکتے ہو لیکن ہماری تحریک کو نہیں مارسکتے۔'' (پیٹرسنز)

یہ وہ الفاظ تھے جو شکاگو میں پھانسی کے پھندے پر چڑھنے والے ایک رہنما نے ادا کیے۔ یوم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے اس روز دنیا بھر کے محنت کش اپنے ان جیالوں، سرفروشوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جلسے، جلوس، ریلیاں اور سیمینار منعقد کرکے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کو تیز کریں گے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق حاصل کریں گے۔ آج سے ٹھیک 127سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اوقات کار مقرر کرانے کے لیے شان دار اور بے مثال جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔

مظلوموں، غلاموں، محنت کرنے والوں کی یوں تو بڑی طویل اور صبر آزما جدوجہد سیکڑوں اور ہزاروں برسوں سے جاری ہے اور اب بھی جاری ہے۔ مگر جو کام شکاگو کے محنت کش کرگئے وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اس تحریک نے پہلی مرتبہ اوقات کار مقرر کرانے کے لیے تاریخی جدوجہد کی اور آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کرالیے گئے۔ اس سے قبل محنت کشوں کے کوئی اوقات کار نہ تھے ان سے مالکان 16 سے 18گھنٹے اور بعض اوقات 24گھنٹے کام لیا جاتا تھا ایسا بھی سننے اور پڑھنے میں آیا کہ کارخانوں میں تالہ لگاکر مزدوروں سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ گوکہ اس سے پہلے بھی محنت کش طبقہ جدوجہد کرتا رہا اور فرانس میں 1789 انقلاب آیا جسے پیرس کمیون کا نام دیا گیا یہ انقلاب فرانس کہاگیا۔

دور جدید کی دنیا کو بدلنے میں محکوم اور کچلے ہوئے عوام نے بڑی لمبی اور طویل جدوجہد کی ہے اور یہ جدوجہد تاحال جاری ہے۔ دنیا جب وجود میں آئی تو ایک اشتراکی معاشرہ تھا لوگ مل جل کر کام کرتے تھے شکار مل کرکرتے اور مل کر کھاتے پیتے اور سکون سے رہتے تھے، دنیا اس وقت طبقاتی نظام میں الجھی جب زمین پر موجود طاقت ور اور ظالم انسانوں نے غریب مظلوم اور کمزور انسانوں کو اپنا غلام بنالیا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تو پھر دنیا طبقات میں بٹ گئی۔ ظالم اور جابر حکمرانوں نے کمزوروں کو غلام بنالیا اور ان سے جبری مشقت لینے لگے۔ لیکن انسانی شعور آگے بڑھتا رہا۔ سائنس بھی ترقی کرنے لگی اور محنت کشوں نے بغاوتیں شروع کردیں ان کے کوئی اوقات کار نہ تھے 18ویں اور 19صدی میں مزدور طبقہ ابھرنا اور منظم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ یورپ کے بعض ترقی پسند دانشور، شاعر، ادیب، قلم کار، صحافی، محنت کشوں کو منظم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اشتراکیت کا نعرہ بلند ہورہا تھا۔

کارل مارکس اور اینگلز کے نظریات بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔کمیونسٹ لیگ بن گئی تھی اور ان کا منی فیسٹو آگیا تھا جب کہ سرمایہ دار صنعتکار مزدوروں کی انجمن سازی کے خلاف تھے یہ وہی وقت تھا جب شکاگو کے محنت کشوں نے بغاوت کردی اور یکم مئی کو مشہور زمانہ ہے (Hay)مارکیٹ کی جانب بڑھتے ہوئے نعرے لگارہے تھے کہ ''دنیا کے مزدورو! ایک ہوجاؤ'' پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہوگیا، ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کشوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کرکے مکمل ہڑتال کردی تھی وہ نعرے لگا رہے تھے کہ ظالم حاکمو! ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو۔ ہمارے اوقات کار مقرر کرو۔ ہم بھی انسان ہیں ہمارے ساتھ انصاف کرو، مگر ظالم حکمرانوں، مل مالکان، اور صنعتکاروں کو ان کا یہ اتحاد اور نعرے پسند نہ تھے۔ مگر مزدور طے کرچکے تھے کہ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہ ہوں گے ہم کام پر نہیں جائیں گے۔

انھوں نے اپنے مطالبے میں 24گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا کہ ہم 8گھنٹے کام کریں گے۔ 8گھنٹے آرام کریں گے۔ 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور تفریح میں گزاریں گے۔ حکمرانوں نے ان نہتے اور پرامن مزدوروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ شکاگو کی سڑکوں محنت کشوں کا خون بہنے لگا پھر بہتے خون میں سے ایک مزدور نے اپنے امن کے سفید پرچم کو لہو میں ڈبودیا ایک مزدور کی قمیض خون سے سرخ ہوگئی اور پھر زوردار آوازمیں نعرہ لگایا کہ آج کے بعد ہمارا یہ سرخ پرچم دنیا بھر کے محنت کشوں کا پرچم ہوگا۔ آخرکار حکمرانوں ، مل مالکوں، کارخانے داروں کو مزدوروں کے مطالبے ماننے پڑے اور 8گھنٹے اوقات کار مقرر ہوئے جب کہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی 12گھنٹے ،16گھنٹے کام لیا جارہا ہے۔

بڑے بڑے قومی اداروں کی نج کاری کی جارہی ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، واپڈا سمیت کئی اداروں کو کوڑیوں کے دام بیچا جارہا ہے۔ پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی سمیت 150سے زائد ادارے غیرملکیوں کو فروخت کردیے گئے ہیں حق ہڑتال پر پابندی ہے۔ پاکستان کے محنت کش تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں لسانی اور سیاسی، مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہے، ملک میں جاگیرداری نظام رائج ہے، اب الیکشن ہونے جارہے ہیں، وہ ہی لوگ، چہرے اور سیاست بدل کر جیت جائیں گے، ٹریڈ یونین تحریک دم توڑ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے محنت کش 18 اور 19ویں صدی میں جی رہے ہیں ملک میں بے روزگاری ہے، مہنگائی ہے، لوٹ مار ہے، قتل و غارت ہے ایسے میں ہمیں یکم مئی کے جفاکش یاد آرہے ہیں۔ یکم مئی کے شہداء کو سرخ سلام!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں