انتہا پسند قوتوں کی کامیاب چال
یہ گزشتہ مارچ کی بات ہے جب انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ طالبان کی دھمکی سامنے آئی جس۔۔۔
یہ گزشتہ مارچ کی بات ہے جب انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ طالبان کی دھمکی سامنے آئی جس میں انھوں نے پاکستانی عوام کو خبردار کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے جلسوں میں شرکت نہ کریں۔ میں نے اُسی وقت اپنے کالم میں ذکر کر دیا تھا کہ وہ تمام جمہوریت دشمن قوتیں جو اس نظام کو اس لیے پسند نہیں کرتیں کہ اس میں ایک غریب ان پڑھ کا بھی ووٹ ''پڑھے لکھے'' کے برابر ہے۔ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں یہ عوام شدت پسندوں کی پسندیدہ مذہبی پارٹیوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں نہیں لاتے بلکہ ان پارٹیوں کو اقتدار میں لانا پسند کرتے ہیں جو اپنے آپ کو لبرل ترقی پسند اور سیکولر کہلاتی ہیں۔
پچھلے 65 سال سے اس مسئلے کا حل ہی نہیں نکل رہا تھا کیوں کہ عوام باز ہی نہیں آتے تو اس مسئلے کا یہ انوکھا شاندار اور تیر بہدف حل یہ سوچا گیا کہ ایسی تمام پارٹیوں کو بموں اور بندوق کے زور پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے ۔ اسی بات کو ہمارے ایڈیٹر ایاز خان صاحب اپنے کالم میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ طالبان ترجمان کے مطابق مسلم لیگ ن، تحریک انصاف جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے لیے ''عام معافی'' ہے۔ جب کہ دیگر جماعتوں کو ''جمہوریت'' کا راگ الاپنے کی سزا ضرور ملے گی۔ کالعدم تحریک طالبان کا مؤقف ہے کہ جمہوریت کفر کا نظام ہے۔ جن چار ''کافر جماعتوں'' کو استثنیٰ ملا ہے وہ فی الحال خدا کا شکر ادا کریں گی کیوں کہ انھیں بھی وقتی ریلیف دے دیا گیا ہے۔''
عجیب اور حیرت انگیز صورت حال یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کی انتخابی سرگرمیاں پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں کہیں نظر نہیں آ رہیں اور تو اور پیپلز پارٹی اپنے ہوم گرائونڈ سندھ میں ایک بھی جلسہ نہیں کر سکی ہے۔ ووٹ ڈالنے میں صرف 6 دن باقی رہ گئے ہیں۔ طالبان نے بم دھماکوں کے ذریعے تین اہم سیاسی جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بڑی کامیابی سے روک دیا ہے۔ خطرات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی منظر عام پر نہیں آئے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر نواز شریف اور عمران خان کے بغیر ان کی پارٹیاں انتخابات لڑیں۔ 27 دسمبر 2008ء کو بے نظیر کا قتل ہوا۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی اپنی قائد کے بغیر لڑی۔ زرداری صاحب اس لیے محفوظ ہیں کہ وہ ایوان صدر میں ہیں۔ ویسے بھی ان پر انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پابندی لگ چکی ہے۔ اگر ان پر پابندی نہ لگتی تو وہ انتخابی جلسوں سے خطاب بھی کرتے اور بھٹو دشمن قوتوں کا آسان ٹارگٹ ہوجاتے ۔ انتخابی جلسوں اور رابطہ عوام مہم میں ہی سیاسی لیڈروں کو آسانی سے شکار کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد قوتیں ان انتخابات میں تو پورے بھٹو فیملی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں۔ یعنی ایک ہی دفعہ پوری بھٹو فیملی کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یعنی وہی منظر ہو کہ:
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے۔
اب مقامی اور گلوبل اسٹیبلشمنٹ کا مرزا یارکون ہے؟ سب جانتے ہیں۔ اس دفعہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ دو مرزے یار ہیں۔ ایک کی حمایت میں تو اکانومسٹ اور فنانشل ٹائمز بھی آ گئے ہیں۔ کیا پاکستان کی اور عالمی میڈیا کو نظر نہیں آ رہا کہ جس میں تین بڑی جماعتیں انتخابی مہم نہ چلا سکیں اس کی کیا ساکھ ہو گی۔ کیا ان انتخابات کو آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کہا جا سکے گا۔ کیا یہ انتخابات شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ اس طرح کے انتخابات ملک کے خلاف سازش کہیں جس کا نتیجہ ہم ماضی میں پاکستان ٹوٹنے کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ ابھی سے یہ باتیں شروع ہو گئی ہیں کہ ان انتخابات کی کیا ساکھ ہو گی جس میں ایک حکمت عملی کے تحت طالبان کے ذریعے انتخابی مہم چلانے سے روک دیا گیا ہے۔ موجودہ صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سے روشن خیال اور ترقی پسند قوتوں کو انتخابات سے باہر رکھنے کا آغاز ہو گیا ہے۔ آخر کار وہ سازش کامیاب ہو گئی جس کے لیے طویل عرصے سے کوششیں جاری تھیں۔
پیپلز پارٹی ہو یا اے این پی یا ایم کیو ایم یہ تینوں مذہبی انتہا پسندی کو لگام ڈالنے میں ناکام رہیں یا زیادہ سچی بات یہ ہے کہ نادیدہ قوتوں نے اس معاملے میں انھیں کامیاب ہی نہیں ہونے دیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی قوتیں آج بھی وہی ہیں جو ماضی میں آمریت کا دست و بازو تھیں۔ ماضی میں جن قوتوں کو آمریت نے جنم دیا آج انھی قوتوں کو جمہوریت کا ٹھیکیدار بنا دیا گیا ہے۔
اگلے سال امریکا ایک سمجھوتے کے تحت افغانستان میں طالبان حکومت قائم کرنے جا رہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا پہلے ہی سے پاکستانی طالبان کے قبضے میں ہے۔ ایک خاموش سمجھوتے کے تحت پنجاب میں مصنوعی امن قائم کر دیا گیا ہے لیکن یہاں پر بھی کسی بھی وقت جب ضرورت پڑے گی طالبان حامیوں کا قبضہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ جو پاکستان کے ہر ادارے میں مؤثر طور پر موجود ہیں۔ پچھلے 32 سال سے ہم ایک خاص ''فیز'' سے گزر رہے ہیں۔ اس طویل عرصے میں سوویت یونین کے خاتمے سمیت بظاہر بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ یہ تمام وہ تبدیلیاں تھیں جس کے نتیجے میں اس خطے پر امریکی قبضہ ہو گیا سوائے ایران کے۔ اسی پس منظر میں سامراجی ایجنڈا آج بھی پوری قوت سے روبہ عمل ہے۔ اگر ہم اس چیز کو پیش نظر نہیں رکھیں گے تو ہم پاکستان میں جو تبدیلی آنے والی ہے اس کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ امریکی اسپانسرڈ عرب بہار نے مصر اور دوسرے ملکوں کے بعد پاکستان کا رخ کر لیا ہے۔
اب اس کے نشانے پر پاکستان ہے۔ پاکستان اس کے ایجنڈے کا لازمی اور انتہائی ضروری جزو ہے۔ جس طرح امریکا نے ماڈریت مذہبی قوتوں کو مشرق وسطیٰ میں اقتدار دے کر القاعدہ کا ان ملکوں پر قبضہ نہیں ہونے دیا اسی طرح کا ''باریک کام'' پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے نزدیک اس وقت بلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندوں کا کیسے مقابلہ کیا جائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف اور عمران خان مذہبی جماعتوں کا متبادل بن سکتے ہیں؟ ان کے حمایت یافتہ لوگ ایک خاص معنوں میں مذہبی ضرور ہیں لیکن شدت پسندی سے دور۔ انھیں اعتدال پسند بھی کہا جاسکتا ہے۔ جو بات سمجھنے کی ہے کہ امریکا پاکستان میں مشرق وسطیٰ کی طرح مذہبی طبقے کو اقتدار میں لانے کے لیے مددگار معاون نہیں بن رہا۔ کیونکہ اسی صورت میں پاکستان پر القاعدہ کا قبضہ یقینی ہو جاتا۔ اگر یہ دو جماعتیں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اقتدار میں آئیں تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا جن کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔ یعنی امریکا ہمیشہ کی طرح مذہب کا ہتھیار استعمال کر کے ان دو جماعتوں کے ذریعے جو موڈریٹ ہیں اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنے دشمنوں کا خاتمہ کرے گا بلکہ آخر کار طالبان کو بھی اپنے دشمن ایران کے مقابل لاکھڑا کرے گا۔ اس پس منظر میں ہمارے دانشوروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں روشن خیالی اور ترقی پسندی کا مستقبل کیا ہے؟
٭ آنے والے الیکشن کے نتائج انتہائی غیر متوقع ہوں گے۔
سیل فون:۔0346-4527997