سندھ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کی 25 نشستیں جیتنے کی واضح پوزیشن میں

10جماعتی اتحاد کی پوزیشن بعض حلقوں میں مضبوط، کئی سیٹوں پر غیرمتوقع نتائج سامنے آنے کا امکان۔۔۔


Junaid Khanzada May 05, 2013
10جماعتی اتحاد کی پوزیشن بعض حلقوں میں مضبوط، کئی سیٹوں پر غیرمتوقع نتائج سامنے آنے کا امکان۔ فوٹو: فائل

بزرگ سیاست داں اپنے تجربے کی روشنی میں کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست کا صرف ایک ہی اصول ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں سیاست کا کوئی اصول نہیں ہوتا اور یوں پاکستان کی سیاست پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ اسی اصول کے گرد گھومتی ہے اور یوں تمام سیاسی جماعتیں اور سیاست داں اگر یہ کہیں وہ اصولوں کی سیاست کرتے ہیں تو یقیناً درست کہتے ہیں اور اس اصول کی ایک نہیں درجنوں مثالیں گیارہ مئی کو ہونے والے الیکشن کے سلسلے میں ملک بھر میں نظر آئیں گی اور سندھ میں بھی ایسی کئی مثالیں قائم ہوئی ہیں۔

اگر نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے سندھ میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی، قومی اسمبلی کی61 نشستوں میں سے کم سے کم 25 نشستیں جیتنے کی واضع پوزیشن میں ہے۔ اگر ہم سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا جائزہ لیں تو حیدرآباد ضلع میں قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست 221 پر پیپلز پارٹی نے گذشتہ دو الیکشن جیتنے والے سید امیر علی شاہ جاموٹ کو ہی پارٹی ٹکٹ دے دیا، جس کی وجہ سے ان کی اس نشست کو جیتنے کی ہیٹ ٹرک ہونے کی توقع ہے، لیکن اس بار یہاں سے متحدہ قومی موومنٹ نے نہایت مضبوط امیدوار غازی صلاح الدین کو میدان میں اتار دیا ہے، جب کہ یہاں سے سندھ میں قائم ہونے والے دس جماعتی اتحاد جس میں مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، جمعیت علماء پاکستان، سنی تحریک، نیشنل پیپلز پارٹی، سندھ ترقی پسند، قومی عوامی تحریک اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی شامل ہیں کی جانب سے سندھ ترقی پسند پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر رجب میمن اور تحریک تحفظ پاکستان کے ڈاکٹر دیدار علی امیدوار ہیں، لیکن اس نشست پر اصل مقابلہ سید امیر علی شاہ جاموٹ اور ایم کیو ایم کے غازی صلاح الدین کے مابین ہو گا۔

حیدرآباد سے شہر کی نشست پر ایم کیو ایم کے سید وسیم حسین اور دس جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدوار جے یو پی کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کے درمیان ہی میدان لگے گا۔ صاحبزادہ زبیر 2002 میں یہ نشست جیت چکے ہیں۔ اس وقت وہ صرف ایم ایم اے کے مشترکہ امیدوار تھے، لیکن اس بار انہیں اس نشست پر ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلزپارٹی سمیت سندھ کی تین قوم پرست جماعتوں کی بھی حمایت حاصل ہے، جن کا یو سی سولہ اور تالاب نمبر تین میں اچھا ووٹ بینک ہے۔ تاہم، اس نشست پر پیپلزپارٹی کے امیدوار صغیر احمد قریشی، سنی تحریک کے رضوان قریشی، متحدہ دینی محاذ کے ایڈووکیٹ بلال احمد راجپوت، آزاد امیدوار میر حیدر علی خان تالپور اور مسلم لیگی راہ نما صاحبزادہ شبیر حسن انصاری جو آزاد حیثیت میں کھڑے ہیں، صاحبزادہ زبیر کا ووٹ کاٹ سکتے ہیں۔

اس لیے اس نشست پر زیادہ امیدواروں کے کھڑے رہنے کا نقصان صاحبزادہ زبیر کو ہوگا، یوں ایم کیو ایم جو 2002 میں اس نشست پر صاحبزادہ زبیر کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکی ہے وہ مسلسل اُس وقت سے اس نشست پر کام رہی ہے یوں اس نشست پر متحدہ کے امیدوار سید وسیم حسین کے جیتنے کے واضع امکانات ہیں، جب کہ این اے 219 میں متحدہ کے ڈپٹی کنونیئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، نہایت آسانی سے تیسری بار بھی جیت جائیں گے اور ان کا یہاں دور دور تک کسی سے بھی مقابلہ نہیں ہے۔ وہ 1990اور1997میں یہاں سے جیت چکے ہیں، گو کہ یہاں بھی جماعت اسلامی کے امیر، شیخ شوکت علی دس جماعتی اتحاد کے امیدوار ہیں۔ ان کے سامنے پی پی پی کے امیدوار علی محمد سہتو بھی ہیں۔ حیدرآباد سے متصل این اے 222 ٹنڈو محمد خان میں پی پی پی کے سید نوید قمر کے مقابلے میں فنکشنل مسلم لیگ کے پیر سجاد جان سرہندی جو کہ دس جماعتی اتحاد کے امیدوار بھی ہیں، کے درمیان مقابلہ ہے۔

گذشتہ پانچ سال کے دوران سید نوید قمر، پی پی پی کے ان چند وفاقی وزراء میں سے ہیں جو مسلسل اپنے حلقے میں پائے گئے۔ مسلسل دیہی علاقے میں ترقیاتی کام کرائے جانے کے باعث یہاں سے ان کی جیتنے کی امیدیں زیادہ روشن ہیں۔ ضلع بدین میں بھی قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر پیپلز پارٹی میدان مار لے گی۔ یہاں سے این اے 225 سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور این اے 224 سے سردار کمال خان چانگ پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اسپیکر قومی اسمبلی کی حیثیت سے اور جب بھی انہیں قائم مقام صدر پاکستان بننے کا موقع ملا انھوں نے ہمیشہ اپنے حلقۂ انتخاب کا رخ کیا اور انھوں نے پورے ضلع کے لیے ترقیاتی کام کرائے۔ یوں 2010 سے 2012 تک سمندری طوفان، سیلاب، طوفانی بارشوں کے بعد ہر بار عوام نے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو اپنے درمیان پایا اس لیے امکان ہے وہ اپنے مخالف مسلم لیگ فنکشنل کی بی بی یاسمین شاہ کو آرام سے شکست دے دیں گی، جب کہ پیپلزپارٹی نے اس بار ماتلی سے دو بار منتخب ہونے والے غلام علی نظامانی کے بجائے سابق ضلع ناظم سردار کمال خان چانگ کو ٹکٹ دیا ہے، جن کا مقابلہ فنکشنل لیگ کے علی اصغر ہالیپوٹہ کر رہے ہیں۔

بدین سے متصل ضلع ٹھٹھہ میں شیرازی برادران نے پی پی پی میں شامل ہو کر صرف ایک ماہ کے اندر ہی اس وقت بے وفائی کر دی جب پیپلز پارٹی نے شیرازیوں کے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے اپنے سنیئر راہ نماؤں کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیے اور وہاں سے شیرازیوں کو ٹکٹ دے دیے جس کے بعد ملکانی برادران سے ملاقات کے بعد اچانک چار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کی تقریب میں عزت نہ دیے جانے کے معاملے پر شیرازی برادران نے پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی۔ پیپلزپارٹی نے شیرازیوں نے اپنے نہایت اہم راہ نما اویس مظفر جو صدر پاکستان کے رضاعی بھائی بھی ہیں کو میدان میں اتارا ہے، جو ٹھٹھہ کی چھوٹے سے چھوٹے گاؤں جاکر عوام کو یک جا کرنے میں مصروف ہیں اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہوگئے ہیں کیونکہ جن علاقوں میں پہلے شیرازی اور ملکانیوں کے علاوہ پی پی پی کے جھنڈے نہیں لگ سکتے تھے، وہاں اب پی پی پی کے جھنڈے نہ صرف لہرا رہے ہیں، بلکہ ان علاقوں میں پی پی پی کا خاموش ووٹر، اویس مظفر کی کوششوں سے جاگ کر سڑک پر نکل آیا ہے۔

این اے 237 پر شیرازی و ملکانی اتحاد کے امیدوار سید ریاض حسین شاہ شیرازی کے سامنے پی پی پی کے سابق صوبائی وزیر صادق علی میمن کھڑے ہیں تو وہیں سے مسلم لیگ نون و دس جماعتی اتحاد کی مشترکہ امیدوار ماروی میمن بھی امیدوار ہیں جو خالصتاً شیرازی اور مالکانی اتحاد کے ووٹ کاٹ رہی ہیں۔ یوں اس نشست سے صادق میمن جیت سکتے ہیں، جب کہ این اے 238 پر پیپلز پارٹی نے اپنا امیدوار شیرازی برادران کے ایاز شاہ شیرازی کو نامزد کر دیا تھا جو دغا دے گئے تو پی پی پی نے پیپلز مسلم لیگ کے رمیزالدین میمن کو پارٹی جوائن کراکے پارٹی ٹکٹ دے دیا۔ ایسے میں ایم کیو ایم نے سجاول سے تعلق رکھنے والی سید فہیمدہ شاہ بخاری کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا ہے، ان کی پُرجوش انتخابی مہم سے شیرازیوں کے ووٹ کم ہو سکتے ہیں، جس سے فائدہ پیپلز پارٹی کے رمیز الدین کو پہنچ سکتا ہے۔

ضلع جامشورو پیپلزپارٹی کی محفوظ ترین قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے ایک ہے۔ یہاں این اے 231 پر آصف زرداری کے دوست ملک اسد سکندر پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں، جن کے سامنے اس بار ایم کیو ایم نے علاقے کی نہایت بااثر شخصیت پیر زمان شاہ جیلانی کو پارٹی ٹکٹ دے دیا ہے، جب کہ دس جماعتی اتحاد کی جانب سے سندھ کے معمر سیاست داں سائیں جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ یہاں سے دس جماعتی اتحاد کے امیدوار ہیں۔ امکان ہے کوہستان بیلٹ میں اکثریت کی بنیاد پر ملک اسد سکندر یہاں سے جیت جائیں گے۔ ضلع مٹیاری میں این اے 218 پر پی پی پی کے مخدوم امین فہیم، اپنی انتخابی تاریخ کا سب سے مشکل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ این اے 218 یا پھر مٹیاری سے 1970 سے پی پی پی جیتی آئی ہے۔ 1988 سے 2008 تک مخدوم امین فہیم نے دو بار یہاں سے جیت کی ہیٹ ٹرک کی ہے۔ اب ایک بار پھر یہاں مخدوم مخالف اتحاد بن گیا ہے۔

اس بار یہاں کی میمن برادری بھی فنکشنل لیگ کے ساتھ جاملی ہے، جس کی وجہ سے دس جماعتی اتحاد کے امیدوار عبدالرزاق میمن المعروف عبدالغفور میمن نہایت مضبوط حیثیت اختیار کرگئے۔ ضلع ٹنڈو الہیار کی این اے 223 پر پیپلزپارٹی کے عبدالستار بچانی کی پوزیشن اس لیے مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ نون کی امیدوار ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کو دس جماعتی اتحاد کی سپورٹ حاصل ہے اور ان کی انتخابی مہم کے لیے میاں نوازشریف بھی ٹنڈوالہیار پہنچے تھے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم نے اپنا امیدوار ساجد وہاب خانزادہ کو بٹھانے سے انکار کردیا ہے۔ ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کو پی پی پی نے جنرل سیٹ سے اور ان کے بھائی ڈاکٹر عرفان گل مگسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست دینے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی نے اچانک رائے ونڈ پہنچ کر مسلم لیگ نون جوائن کرلی جس کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔ اب ٹنڈوالہیار شہر جس کا ووٹ بینک، ایم کیو ایم کے پاس ہے نے اپنے امیدوار کم سے کم مسلم لیگ نون کے امیدوار کے حق میں نہ بٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا نقصان ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کو ہو گا۔

ضلع میرپورخاص ہے کی این اے 226 پر ایک بار پھر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں مقابلہ ہے۔ یہاں سے 1990 میں ایم کیو ایم کے انیس احمد خان ایڈووکیٹ نے میدان مارا تھا، جس کے بعد سے مسلسل پیپلز پارٹی یہاں سے جیتی آ رہی ہے۔ اس بار ایم کیو ایم کے امیدوار شبیر احمد قائم خانی ہیں اور پی پی پی کے پیر آفتاب شاہ جیلانی کے چھوٹے بھائی سید شفقت حسین شاہ جیلانی مدمقابل ہیں۔ فنکشنل لیگ کے امیدوار سید قربان علی شاہ ہیں جنہیں دس جماعتی اتحاد کی سپورٹ حاصل ہے۔ اگر متحدہ قومی موومنٹ، میرپورخاص شہر سے اپنے ووٹ مکمل انداز میں کاسٹ کروانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر اس سیٹ پر 1990 کی داستان دہرائی جا سکتی ہے، ورنہ ایک بار پھر یہ سیٹ پی پی پی آرام سے جیت لے گی۔

این اے 227 پر آصف علی زرداری کے بہنوئی اور فریال تالپور کے شوہر میر منور تالپور پی پی پی کے امیدوار ہیں، جن کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کے سید عنایت علی شاہ کھڑے ہیں۔ پیپلز مسلم لیگ کے ارباب غلام رحیم کے صاحبزادے ارباب عنایت اﷲ بھی میدان میں ہیں۔ امکان ہے کہ یہ نشست میر منور تالپور جیت جائیں گے۔ ضلع عمرکوٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی راہنما مخدوم شاہ محمود قریشی جو غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا ہیں نے پی پی پی کے امیدوار نواب یوسف تالپور کو مشکل سے دوچار کر دیا ہے، کیوں کہ پی پی پی کے راہ نما رانا ہمیر سنگھ پی پی پی چھوڑگئے، جب کہ ہندو برادری کے امیدوار لال مالھی نے تحریک انصاف جوائن کرلی اور لال مالھی صوبائی نشست پر امیدوار بن گئے، جبکہ اس نشست پر فنکشنل لیگ اور پیپلز مسلم لیگ نے بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کردی ہے۔

ضلع تھرپارکر کی این اے 229 اور این اے 230 پر پیپلز مسلم لیگ کے ارباب غلام رحیم اور ان کے نامزد امیدوار جیتتے آ رہے ہیں۔ اس بار این اے 229 پر ارباب غلام رحیم نے اپنے بھانجے ارباب توگاچی فواد رضا کو کھڑا کیا ہے، جو امکان ہے کہ پی پی پی کے فقیر شیر محمد بلالانی کو شکست دے دیں گے، جب کہ این اے 230 پر ارباب غلام رحیم نے اپنے امیدوار غلام حیدر سمیجو کو مخدوم شاہ محمود قریشی کے حق میں بٹھادیا ہے، جس کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی کے این اے 230 سے جیتنے کے امکانات روشن ہیں، جہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار پیر نور محمد شاہ جیلانی ہیں۔

ضلع سانگھڑ میں قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں، جن میں سے دو فنکشنل لیگ اور ایک نشست پیپلزپارٹی جیتتی آئی ہے۔ اس بار فنکشنل لیگ نے اپنے مرکزی راہ نما اور موجودہ پیر صاحب پگارہ کے بھائی صدر الدین شاہ راشدی المعروف یونس سائیں کو این اے 235 پر ٹکٹ دے دیا ہے۔ پی پی پی کی شازیہ مری ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ کھپرو اور جام نواز علی کی اس نشست پر ممکنہ طور پر صدر الدین شاہ راشدی، شازیہ مری کو شکست دے دیں گے کیوںکہ کھپرو فنکشنل لیگ کا مضبوط گڑھ ہے اور جام نواز علی کا جام خاندان فنکشنل لیگ میں شامل ہے۔ این اے 234 پر فنکشنل مسلم لیگ نے پیر بخش جونیجو کو کھڑا کیا ہے، جن کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے فدا حسین ڈیرو سے ہے۔ یہ فنکشنل لیگ کا محفوظ حلقہ ہے۔ سانگھڑ میں اصل مقابلہ این اے 236پر ہوتا ہے۔ اس حلقے میں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کی حمایت یا مخالفت امیدوار کی کام یابی یا ناکامی کا سبب بنے گی۔ اس نشست پر فنکشنل مسلم لیگ کے امیدوار ملک امام الدین شوقین ہیں، جن کا مقابلہ پی پی پی کے امیدوار روشن الدین جونیجو سے ہے، جب کہ اس حلقہ سے ایم کیو ایم کے محمد ایوب شیخ اور جماعت اسلامی کے مشتاق عادل بھی میدان میں ہیں۔ ایم کیو ایم ماضی میں سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو شکست دلانے کا سبب بن چکی ہے اور اب بھی یہ حلقہ اہم حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔

ضلع بینظیر آباد آتا صدر آصف زرداری کا اپنا شہر ہے اور یہاں این اے 213 سے ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور این اے 214 سے سید غلام مصطفی شاہ کی جیت کا امکان ہے۔ این اے 213 میں عذرا پیجوہو کا مقابلہ حال ہی میں پی پی پی چھوڑ کر ایم کیو ایم جوائن کرنے والے عنایت علی رند سے ہی ہو گا ، جب کہ این اے 214 پر اس بار پی پی پی کے غلام مصطفی شاہ کے مد مقابل کوئی مضبوط شخصیت نہیں ہے، دس جماعتی اتحاد کی جانب سے جمیعت علماء اسلام کے امیدوار مولانا عبدالرزاق پرھیاڑ کو متفقہ امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔

یہ تو احوال تھا زریں سندھ کا اگر اپر سندھ کی کا انتخابی جائزہ لیں تو وہاں بھی پیپلزپارٹی اکیلی ہی دس جماعتی اتحاد کے ساتھ مقابلہ کرتی نظر آتی ہے۔ شہید بینظیر بھٹو کے شہر لاڑکانہ کی این اے 204 پر نشست پر بھٹو خاندان کے کسی فرد کو ٹکٹ دینے کے بجائے سابق وزیرقانون سندھ محمد ایاز سومرو کو پارٹی ٹکٹ دے دیا ہے جن کے مقابلے میں پی پی پی شہید بھٹو گروپ کے چئیرپرسن غنویٰ بھٹو اور فنکشنل لیگ کی مہتاب اکبر راشدی ہیں۔ مہتاب اکبر راشدی کو دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔

یہ نشست ہمیشہ سے پی پی پی کے پاس رہی ہے، اس لیے توقع ہے کہ یہاں سے ایاز سومرو منتخب ہو جائیں گے ۔ این اے 205 لاڑکانہ سے ایک بار پھر نظیر احمد بگھیو کو ٹکٹ دیا گیا ہے، جن کا مقابلہ مسلم لیگ فنکشنل سرفراز علی بگھیو اور پی پی پی ش ب کے رجب علی کر رہے ہیں۔ این اے 206 پر بھی پی پی پی کی طرف سے میر عامر علی خان مگسی کو دوبارہ ٹکٹ جاری کردیا گیا ہے۔ این اے 207 پی پی پی کی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا حلقہ انتخاب تھا، ان کی شہادت کے بعد فریال تالپور بلامقابلہ منتخب ہو گئی تھیں اور اس بار وہ پارٹی ٹکٹ پر اسی حلقے سے کھڑی ہیں۔ ان کے مقابلے میں پی پی پی شہید بھٹو کی چیئرپرسن غنوی بھٹو اور جمعیت علماء اسلام ف کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور سابق سینٹیر ڈاکٹر خالد محمود سومرو ہیں جنہیں دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔ یہ نشست شروع سے پی پی پی کی نشست رہی ہے، اس لیے توقع ہے کہ فریال تالپور یہاں سے منتخب ہو جائیں گی۔

اگر سکھر کی نشست این اے 198شروع سے ہی پی پی پی کا گڑھ رہی ہے اور یہاں سے نعمان اسلام شیخ پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ دس جماعتی اتحاد کے امیدوار جے یو آئی ف کے آغا سید ایوب شاہ اور ایم کیو ایم کے منور چوہان کر رہے ہیں۔ این اے 199پر ایک بار پھر سید خورشید شاہ لڑ رہے ہیں، جن کے سامنے فنکشنل لیگ کے عنایت اﷲ برڑو ہیں، توقع ہے کہ سکھر کی دونوں نشستیں پی پی پی کی جھولی میں جائیں گی۔ ضلع نوشہروفیروز میں پی پی پی کے راہ نما پارٹی چھوڑ رہے ہیں میاں نواز شریف نے نوشہروفیروز کا دورہ کیا تو پارٹی کے سابق ایم این اے سید ظفر شاہ اپنے بھائی کے ساتھ پارٹی چھوڑ گئے پھر پارٹی کے ایک اور اہم راہ نما سید آفتاب حسین بھی مسلم لیگ فنکشنل میں چلے گئے پھر پارٹی کارکنان نے بھی بڑی تعداد میں مختلف پارٹیاں جوائن کی ہیں۔ اس لیے توقع ہے کہ اس بار نوشہرو فیروز کی دونوں سیٹوں پر پیپلزپارٹی کے امیدوار کام یاب نہیں ہوں گے۔ این اے211 این پی پی کی محفوظ نشست ہے، یہاں سے پہلے غلام مصطفی جتوئی منتخب ہوا کرتے تھے، جس کے بعد یہ نشست ان کے صاحبزادہ غلام مرتضی جتوئی نے حاصل کرلی اور وہ منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔

اب ان کے سامنے پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بیہن بھی لڑ رہے ہیں، جب کہ این اے 212 پر صورت حال ذرا دل چسپ ہے، جہاں پی پی پی چھوڑ کر مسلم لیگ نون میں جانے والے سید ظفرعلی شاہ کھڑے ہیں، تو وہیں این پی پی کے عاقب جتوئی اور پی پی پی کے سید اصغر علی شاہ میدان میں ہیں۔ ضلع گھوٹکی کو قبائل کا شہر کہا جاتا ہے، لیکن پی پی پی نے ضلع کے قبائلی سرداروں کو پارٹی میں شامل کرالیا ہے۔ مہر اور لوند قبائل ایک ساتھ ایک پارٹی کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں، اس لیے یہاں ماضی کی طرح بڑے الیکشن کی توقع نہیں ہے۔ این اے 200 پر پیپلزپارٹی نے میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کے بجائے خالد لوند کو پارٹی ٹکٹ دے دیا تو ان کے مقابلے کے لیے میاں مٹھو آزاد امیدوار کی حیثیت سے اتر آئے ہیں۔ اسی طرح این اے 201 پر علی گوہر مہر پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ فنکشنل لیگ کے بابر لوند اور نون لیگ کے عطاء اﷲ شاہ کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ گھوٹکی سے پیپلزپارٹی دونوں نشستیں نکال لے گی۔ n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔