کراچی کے سیاسی منظر میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں

2008 کے انتخابات کے بعد وفاق اور صوبے میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی حکومت قائم ہوئی تھی...


Iqbal Khursheed May 06, 2013
2008 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 20 میں سے 17نشستوں پر ایم کیوایم نے کام یابی حاصل کی تھی۔ فوٹو: فائل

کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 20 ہے، جو ملکی سیاست میں اِس کی اہمیت کا بین ثبوت ہیں۔ اِسی طرح 42 صوبائی نشستیں اس شہر کی صوبائی حکومتوں کے قیام میں حیثیت کا بھی تعین کرتی ہیں۔

ملک کے دیگر حصوں کے برعکس یہاں شخصی نہیں، بلکہ جماعتی سیاست ہوتی ہے۔ ووٹرز سیاسی جماعتوں کے نام پر ووٹ دیتے ہیں۔ کسی شخص کی انفرادی، مالی یا خاندانی حیثیت ووٹرز کی توجہ کا مرکز نہیں ہوتی۔ اِس زوایے سے کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں طاقت اور اہمیت ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو حاصل رہی۔

2008 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 20 میں سے 17نشستوں پر ایم کیوایم نے کام یابی حاصل کی تھی، اور تین نشستیں پیپلزپارٹی کے حصے میں آئی تھیں۔ صوبائی اسمبلی کی 42 میں سے 34 نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدواروں کا پلہ بھاری رہا۔ پیپلزپارٹی نے 6، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے 2 نشستیں حاصل کیں۔بلاشبہہ یہ تین جماعتیں، خصوصاً ایم کیو ایم، حالیہ انتخابی دنگل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، مگر یہ بھی یاد رہے کہ جماعت اسلامی نے گذشتہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، اور شہر کے کئی حلقوں میں جماعت کا ووٹ بینک موجود ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی منظر میں آمد کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ گو پنجاب اور خیبر پختون خوا کے شہری علاقوں کے برعکس یہ جماعت سندھ کے مرکزی شہر میں زیادہ متحرک نظر نہیں آئی، مگر اُس کی مقبولیت، کسی نہ کسی سطح پر، چند حلقوں میں ووٹ تقسیم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

2008 کے انتخابات کے بعد وفاق اور صوبے میں پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ حکومت نے پانچ برس ضرور پورے کئی، مگر اس دوران کئی نشیب و فراز آئے، جس سے کراچی کے عوام براہ راست متاثر ہوئے۔ امن و امان کے بگاڑ نے کاروبار زندگی کو شدید نقصان پہنچایا۔ زندگی بُجھ سی گئی، اور کراچی کو ''دنیا کا خطرناک ترین شہر'' کہا جانے لگا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت میں رہنے والے جماعتوں کی مقبولیت کو گذشتہ پانچ برس میں خاصا نقصان پہنچا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک دُرست ہے، مگر کیا یہ عوامل انتخابی عمل پر اثرانداز ہوں گے؟ اِس بابت حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ کیوں کہ اِس وقت اصل مسئلہ بدامنی ہے، جس نے پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کر دیا ہے۔

ایک نظر سیاسی جماعتوں پر!

اگر سیاسی جماعتوں کی حیثیت اور قوت کا موضوع زیر بحث آئے، تو بلاشبہہ کراچی میں ایم کیو ایم کو مضبوط ترین قرار دیا جاسکتا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی بیش تر نشستوں پر کام یاب ٹھہرے گی۔ گو چند مبصرین حتمی رائے دینے سے قبل حلقہ بندیوں سے متعلق عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں، جماعت اسلامی کی شرکت اور تحریک انصاف کی مقبولیت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، مگر شاید یہ عوامل ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو بہت زیادہ متاثر نہ کریں۔ اور اگر ایسا ہوا، تو یہ ایک ''اپ سیٹ'' ہوگا۔

جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے، اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اِس کی مقبولیت کمی آئی ہے۔ شاید اندرون سندھ اِس کا ووٹ بینک کل کی طرح آج بھی مضبوط ہو، مگر کراچی میں گذشتہ انتخابات والی کارکردگی دہرانے کے لیے اِسے کڑا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بیش تر مبصرین کا تو یہی خیال ہے کہ پیپلزپارٹی شاید ایسا کرنے میں ناکام رہے، مگر چند کی آرا مختلف ہے۔ کیا پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی چھے نشستوں کو بچانے میں کام یاب رہے گی؟ اِس سوال کا جواب فقط چھے روز دُور ہے۔

این اے پی نے گذشتہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کی تھیں، مگر اِس بار اِن نشستوں کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پشتون آبادیوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف کی گرفت اور عمران خان کی مقبولیت ووٹرز کے فیصلے کی تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔ دس جماعتی اتحاد میں شامل جو پارٹی کراچی میں اپنا اثر رکھتی ہے، وہ جماعت اسلامی ہے۔ یہ جماعت اِس بار بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی کے برعکس اِسے اُس سطح کے سیکیورٹی خطرات کا بھی سامنا نہیں، تاہم بدامنی کے باعث اس کی سیاسی سرگرمیوں بھی محدود ہیں۔ یہ جماعت کیا کمال دکھاتی ہے، اِس کا فیصلہ 11 مئی کو ہوگا۔ تحریک انصاف گذشتہ دو برس میں تیزی سے ابھری ہے۔ گذشتہ سال مزار قائد پر اِس نے ایک بڑا اور کام یاب جلسہ کیا۔ گو تحریک انصاف کے کارکنان سوشل میڈیا پر متحرک ہیں، ان کا جذبہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، مگر شاید پارٹی کے سربراہ عمران خان نے کراچی پر اُس طرح توجہ نہیں دی، جس طرح اور جس سطح پر اُنھوں نے پنجاب اور خیبرپختون خوا میں کام کیا۔ اِس کے باوجود اِسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کسی حیران کن کام یابی کی تو توقع نہیں، مگر اِس کے حق میں پڑنے والے ووٹ، ووٹوں کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے کسی پارٹی کو نقصان اور کسی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

جمیعت علمائے اسلام ف، ایم کیو ایم (حقیقی) اور سنی تحریک بھی انتخابی میدان میں اتر رہی ہیں۔ چند علاقوں میں مذکورہ جماعتیں ضرور اثر رکھتی ہوں گی، مگر وہ مقابلے کی اصل دوڑ میں شامل نہیں۔ ہاں، جمیعت علمائے اسلام ف کا چند حلقوں میں ووٹ بینک موجود ہے۔

حلقے، جہاں گھمسان کا رن پڑنے کے امکانات ہیں

ویسے تو کراچی کے تمام حلقوں میں کانٹے کے مقابلے کے دعوے کیے جارہے ہیں، مگر اِس کی توقع نہیں۔ بیش تر نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدواروں کی کام یابی کے امکانات روشن ہیں، مگر چند حلقے ایسے ضرور ہیں، جو مبصرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا حلقہ این اے 250 ہے۔ یہ حلقہ پرویز مشرف کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی توجہ کا مرکز بن گیا تھا کہ سابق صدر یہاں سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اُن کے مقابلے میں عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی میدان میں اتر آئیں، جس نے اِس کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا۔ خیر، اب پُلوں کے نیچے سے خاصا پانی بہہ چکا ہے۔ پرویز مشرف کے کاغذات رد کیے جاچکے ہیں، فوزیہ صدیقی بھی پیچھے ہٹ گئی ہیں، مگر اب بھی یہاں سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ڈیفینس۔ کلفٹن کی نشست کہلانے والے اس حلقے میں ماضی میں بھی سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کبھی ایم کیو ایم نے کام یابی حاصل کیا، تو کبھی جماعت اسلامی فاتح ٹھہری۔ 2008 کے انتخابات میں خوش بخت شجاعت نے یہاں سے کام یابی حاصل کی، مگر اُن کے اور پیپلزپارٹی کے امیدوار، مرزا اختیار بیگ کے درمیان چند ہزار ووٹوں کا فرق تھا۔

اِس مرتبہ جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی بھی اِس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہاں کام یابی حاصل کرنے کے ہر امیدوار کو پورا زور لگانا پڑے گا۔ کراچی کے دیگر حلقوں کے مقابلے میں تحریک انصاف یہاں مضبوط ہے، مگر ایم کیو ایم مخالف ووٹ کی تقسیم کے پیش نظر متحدہ کے نام زد کردہ امیدوار کی فتح کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ اِس حلقے کے جائزے سے دس جماعتی اتحاد کے اختلافات بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے نعمت اﷲ خان کو دست بردار کرنے سے انکار کر دیا ہے، جن کے خلاف دس جماعتی اتحاد میں شامل فنکشنل لیگ کے کامران ٹیسوری الیکشن لڑ رہے ہیں۔

مانند این اے 249 میں بھی گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ 2008 میں ڈاکٹر فاروق ستار نے یہاں سے کام یابی حاصل کی تھی۔ کراچی کا تجارتی مرکز سمجھا جانے والا یہ علاقہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث گذشتہ برسوں میں خاصا متاثر ہوا۔ اس مرتبہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالعزیز میمن کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی امید ہے۔

این اے 239 میں پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل، جمیعت علمائے اسلام کے قاری فخر الحسن اور ایم کیو ایم کے سلمان مجاہد بلوچ کے درمیان بھی سخت مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 240 بھی مبصرین کی توجہ کا مرکز ہے، جہاں سے حصہ لینے والے امیدواروں کو ایک دوسرے کو شکست دینے کے علاوہ بدامنی کے عفریت کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا۔

این اے 241 سے ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری، دس جماعتی اتحاد کے متفقہ امیدوار، محمد لئیق خان، تحریک انصاف کے ڈاکٹر سید احمد آفریدی، اے این پی کے سید کرم درویش اور پیپلز پارٹی کے علی احمد سمت 18 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ یہاں اصل مقابلہ ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوگا ہے۔

پیپلز پارٹی کی آبائی نشست کہلانے والے این اے 248 میں ایم کیو ایم کے نبیل گبول، پیپلز پارٹی کے شاہ جہاں بلوچ، پی پی شہید کی غنویٰ بھٹو اور جے یو آئی کے مولانا شیریں محمد کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ایم کیو ایم کے پرچم تلے الیکشن لڑنے والے نبیل گبول کی موجودگی کے باعث مبصرین اس حلقے میں خصوصی دل چسپی لے رہے ہیں، کیوں کہ گذشتہ ایک برس میں یہاں کے سیاسی منظر میں خاصی تبدیلیاں آئی ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ پی پی پی نے کالعدم امن کمیٹی کی سفارش پر مقامی لوگوں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

این اے 255 پر2002 میں ایم کیو ایم (حقیقی) نے کام یابی حاصل کی تھی، مگر اس بار مبصرین ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی درمیان مقابلے کی توقع کر رہے ہیں۔ یہاں سے انتخاب لڑنے والوں میں ایم کیو ایم کے آصف حسنین، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے آفاق احمد، پیپلز پارٹی کے جاوید شیخ، تحریک انصاف کے خالد محمود اور جماعت اسلامی کے عبدالجمیل خان نمایاں ہیں۔

این اے 251 پر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ این اے 253 پر ایم کیو ایم اور دس جماعتی اتحاد میں مقابلہ ہوگا۔ اسی طرح جماعت اور ایم کیو ایم کا ٹکرائو این اے 245 پر بھی دل چسپ صورت حال پیدا کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں