پاکی داماں کی حکایت
اب صورت احوال یہ ہے کہ ایک کا کچا چٹھا دوسرا کھول رہا ہے۔ دوسرے کا کچا چٹھا کوئی تیسرا آ کر کھولنے لگتا ہے۔
NEW DEHLI:
چھوڑیں اس قصے کو کہ ان دنوں ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ کچھ شعر و شاعری کی بات کریں۔ کچھ قصہ کہانیوں کی' کچھ داستانوں حکایتوںکی۔ دیکھئے کیا کمال کا شعر یاد آیا ہے؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
شعر پڑھتے پڑھتے ہم چونکے۔ پھر حیران ہوئے ہم نے تو آج کے قصوں قضیوں سے بیزار ہو کر شاعری کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی مگر یہ شعر تو پھر ہمیں آج کے قصوں قضیوں کی طرف دھکیل رہا ہے۔ پھر ہم نے سوچا کہ چلو یہ نہ سہی کوئی اور اچھا سا شعر یاد کرتے ہیں۔ مگر جو بھی شعر یاد آیا تو ہم یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ ہر شعر کا پانی پاکستان کے آج کے نشیب میں مر رہا ہے۔ پاکستان کا آج کا سب سے بڑا نشیب تو آج کی سیاست ہے۔ عجب ہے کہ محفلوں میں جو ذکر بھی چھڑتا ہے ہر پھر کر پانی اسی نشیب میں مرتا نظر آتا ہے۔
ہماری سیاست کے اور مسائل بھی تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یاروں کو احساس ہوا کہ ان سارے مسائل کی جڑ کرپشن ہے۔ اور کرپشن کی حکایت اتنی طویل ہوئی کہ باقی سارے ذکر اذکار پس منظر میں چلے گئے۔ تب پردہ غیب سے ایک ہیرو نمودار ہوا اور اس نے سارا زور بیان حریفوں کے کرپشن پر صرف کر ڈالا۔ اس کے پروانوں نے اس مضمون کو اس طرح اچھالا کہ اب واقعی ایسا ہیرو نمودار ہوا ہے جس کا دامن صاف ہے۔ کرپشن کا کوئی داغ اس کے دامن پر نہیں ہے۔ وہی کرپشن سے ہمیں نجات دلائے گا۔
شاید اسی یورش سے زچ ہو کر کرپشن زدوں میں سے کسی دل جلے نے یہ شعر پڑھا ہو گا اور اسی کے ساتھ جانے کہاں کہاں سے کھود کھود کر اتنا کچھ اگل ڈالا کہ وہ دامن جو کل تک بے داغ نظر آتا تھا داغ دار نظر آنے لگا۔ پھر جو جو اس دعوے کے ساتھ میدان میں اترا کہ کرپشن کے شناوروں سے نمٹنا ہے۔ جو جو اس رزم گاہ میں اترا اس نے کرپشن کے شناوروں کو بری طرح للکارا مگر وہ جو شاعر نے ایک پتے کی بات کہی تھی اسے پلے میں باندھنا بھول گیا۔ وہی بات جس کا ابھی ذکر ہوا تھا؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ' ذرا بند قبا دیکھ
اور اب صورت احوال یہ ہے کہ ایک کا کچا چٹھا دوسرا کھول رہا ہے۔ دوسرے کا کچا چٹھا کوئی تیسرا آ کر کھولنے لگتا ہے۔ اور جنہوں نے ان سے آس لگائی تھی وہ ششدر ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہاں تو حمام میں سب ہی ننگے ہیںع
اب کسے رہنما کرے کوئی
اس فضا میں ہمیں ایک بھولا بسرا مصرعہ یاد آیا ع
یہاں پگڑی اچھلتی ہے' اسے میخانہ کہتے ہیں
اور ہم حیران و پریشان کہ ہم نے تو بقول ایک صاحب ایمان کے پاکستان کے نام مسجد بنائی تھی، بن گیا مے خانہ۔ سو اب نقشہ اس دیار کا یہ ہے کہ جس طرف نظر دوڑائو یہی نظر آئے گا کہ پگڑیاں اچھل رہی ہیں' جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ تیرا گریبان میرے ہاتھوں چاک۔ میرا گریبان تیرے ہاتھوں تار تار۔ قومی اسمبلیوں میں تو تکار کا شور ہے۔ توتکار سے بات بڑھ کر لپاڈگی تک پہنچ جائے تو یہ ایسی دور کی بات نہیں ہے۔ اور ٹی وی چینلوں پر ہونے والے بحث مباحثے۔ سمجھ لو کہ یہ نقار خانے ہیں۔ کوئی کسی کی نہیں سن رہا۔ سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں۔ کوئی سمجھدار یہاں آ کر پھنس گیا ہے تو اس کی آواز کو طوطی کی آواز سمجھو۔
ہمارے ایک دوست ہیں جو انگریزی اور اردو دونوں ہی کے معاملے میں زبان کی صحت اور بیان کی شائستگی پر بہت زور دیتے ہیں۔ ایک نوجوان نے ان سے پوچھا کہ میں اپنی انگریزی کیسے improve کروں۔ بولے کہ بی بی سی سنا کرو۔ ایک دوسرے نوجوان کو انھوں نے خبردار کیا کہ اپنے ٹی وی کے پروگرام کم دیکھا کرو۔ ورنہ تمہاری اردو بھی تیتر بٹیر ہو جائے گی۔
ارے ہاں لیجیے ابھی ذکر یہ تھا کہ ان حالات میں ہمیں اگر کوئی شعر بھی یاد آتا ہے تو وہ بھی ہمارے آج کے قصوں قضیوں کی تفسیر کرتا نظر آتا ہے۔ ہمارے یہاں شاعری کا چلن ہمیشہ سے زیادہ رہا ہے۔ بات بات پر ہم شعر پڑھتے ہیں۔ قصہ کہانیوں کا حوالہ کم کم آتا ہے۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں بعض بیانات میں علی بابا چالیس چور کا حوالہ بار بار آ رہا ہے۔ چالیس چوروں سے تو خیر ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ خواہ وہ آج کے ہوں یا الف لیلہ کے زمانے کے۔
مگر علی بابا کے متعلق ہمیں کتنی بار یہ خیال آیا کہ یہ اکتالیسواں چور کب سے بن گیا۔ کہانی میں تو وہ غریب لکڑ ہارا ہے۔ ہاں ایک دفعہ اس کے ساتھ یہ واقعہ گزرا کہ جنگل میں اپنے کام پر گیا ہوا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ کچھ گھڑ سوار گھوڑے دوڑاتے نمودار ہوئے۔ ایک غار کے قریب آ کر رکے۔ آواز لگائی۔ کھل جا سم سم۔ دیکھا کہ وہاں ایک بڑا سا پھاٹک ہے۔ اس آواز کے ساتھ ہی پھاٹک کھلا اور وہ اندر چلے گئے۔ کتنی دیر بعد اندر سے وہی آواز۔ کھل جا سم سم۔ بس فوراً ہی پھاٹک کھلا۔
وہ گھڑ سوار نکلے اور یہ جا وہ جا۔ وہ حیران ہو کر دیکھتا رہا۔ ساتھ میں گنتا رہا کہ یہ کتنے ہیں۔ تعداد میں وہ چالیس تھے۔ سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی چالیس چور ہیں جن کی شہرت اس نے سن رکھی تھی۔ اسے کیا سوجھی کہ اپنے گدھے وہیں درخت کے نیچے چھوڑ پھاٹک کے پاس جا کر چلایا کہ کھل جا سم سم۔ پھاٹک فوراً ہی کھل گیا۔ اندر جا کر حق دق رہ گیا کہ یاں اتنی دولت بکھری پڑی ہے۔ اور کچھ تو بن نہ آیا۔ اپنی پگڑی اتار کر اس نے اس میں اشرفیاں اکٹھی کر کے باندھ لیں۔
مفت ہاتھ آئی دولت چھپا نہیں کرتی۔ تو یہ دولت بھی چھپی نہیں رہی۔ بات نکل گئی اور چالیس چوروں کو بھی پتہ چل گیا کہ کس بھیدی نے ہمارا بھید پا لیا ہے۔ وہ اس کی جان کے دشمن ہو گئے۔
کہانی لمبی ہے۔ ہمارا مقصود تو صرف اتنا تھا کہ ہمارے یہاں جو قصے قضیے چل رہے ہیں ان میں الجھ کر علی بابا کسی صورت بدنام نہ ہو جائے۔ تو بس بتانا یہ تھا کہ علی بابا نے چالیس چوروں کے خزانے میں سے اشرفیوں کی ایک ڈھیری تو ضرور اٹھائی تھی۔ مگر چوروں میں شامل نہیں ہوا۔ رہا وہی علی بابا کا علی بابا۔ مطلب یہ کہ علی بابا ہمارے لینے میں نہ دینے میں۔ اشرفیاں کیا اس نے تو یہاں کے چوروں کی دولت سے ایک پائی بھی نہیں چرائی ہے۔ تو اس کو کیوں بدنام کیا جائے۔