مشکلیں اتنی پڑیں… کہ آساں ہوگئیں

مسلم لیگ آج اپنی کارکردگی کی وجہ سے خان صاحب کے لیے ایک مشکل ترین حریف بنی ہوئی ہے۔


Dr Mansoor Norani July 11, 2018
[email protected]

پاکستان مسلم لیگ (ن) اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین حالات سے دوچار ہے۔ یہ حالات اس کے اپنے اندر کے لوگوں کی سازشوںسے نہیں پیدا ہوئے ہیں بلکہ باہر کی کچھ ان قوتوں کی جانب سے پیدا کیے گئے ہیں جنھوں نے اس ملک میں کبھی جمہوریت کو مضبوط اور طاقتورہونے ہی نہیں دیا۔

وطن عزیز میں جب کبھی یہ احساس پروان چڑھنے لگتا ہے کہ جمہوریت اب تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے لگی ہے اور کوئی سیاسی پارٹی یا اس کا سربراہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں مقبول اور توانا ہونے لگا ہے، یہ قوتیں اپنی پوری قوت اور توانائی کے ساتھ اس کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس بار میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ 2013 کے الیکشن کے بعد جب میاں صاحب نے عنان حکومت سنبھالی، تو ملک کے حالات کتنے تشویش ناک تھے یہ ہم سب کو پتہ ہے۔

ملک میں ایک بحران کی سی کیفیت تھی۔ دہشتگردی نے لوگوں کا جینا حرام کرکے رکھ دیا تھا۔ کب کہیں بم دھماکا ہو جائے یا کوئی خودکش حملہ ہو جائے کسی کو پتہ نہیں تھا۔ ہر طرف دہشت اور خوف کا عالم تھا۔ کوئی غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری پر تیار نہ تھا۔ خود اپنے لوگ یہاںسے سرمایہ نکال کر بنگلہ دیش یا کسی دوسرے ملک لے جانے لگے تھے۔ بجلی اور توانائی کا بحران پہلے سے موجود صنعتوں کی بندش کا باعث بن رہا تھا۔ اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری نے کراچی کو بھی جہنم بنا کر رکھ دیا تھا۔

ایسے مشکل حالات میں میاں صاحب نے اپنی کارکردگی اور حکمت عملی سے سب سے پہلے ملک میں دہشتگردی پر قابو پایا اور کراچی میں جہاں ہر طرف موت کے سائے منڈلا رہے تھے رینجرز کی مدد سے میاں صاحب نے اس شہر کو بھی ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنا ڈالا۔ پاکستان ریلوے جو پرویز مشرف اور زرداری کے دور میں اس قدر تباہ و برباد کردی گئی تھی کہ ہر کوئی اس میں سفر سے گریزاں تھا، سعد رفیق نے بڑی جانفشانی سے اسے بہتر کرنے کی ذمے داری قبول کی اور سرخرو بھی ہوئے۔

توانائی اور بجلی کے بحران کو بھی میاں صاحب نے بڑی حد تک حل کرنے کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ بیرونی اور خارجی محاذ پر بھی اپنے غیر ملکی دشمنوں سے انھوں نے بڑی ہوشیاری سے مقابلہ کیا اور پانچ برس تک ان کے ناجائز اور غیر منطقی مطالبوں کا بڑے احسن طریقوں سے جواب دیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیں دہشتگردوں کی معاونت کے الزام میں گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں ڈالنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہی وہ سب کامیابیاں تھیں جن کی بدولت یہ کہا جانے لگا تھا کہ میاں صاحب کو اب کوئی اگلا الیکشن جیتنے سے روک نہیں سکتا، کیونکہ کس نے ملک کو بہتر طریقے سے چلایا ہے اور کس نے محض الزام تراشیاں کی ہیں۔ تمام ملکی اور غیر ملکی سروے اور اعدادوشمار یہی عندیہ دے رہے تھے کہ 2018 کا الیکشن میاں صاحب باآسانی جیت جائیں گے۔ مگر ان کی یہی کامیابی ہمارے کچھ لوگوں کو ہضم نہیں ہوپائی اور انھوں نے تہیہ کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے میاں صاحب کو اگلا الیکشن جیتنے نہیں دینا۔

یہ خواہش صرف ان کے سیاسی حریفوں کی ہی نہیں تھی بلکہ اس ملک پر ہمیشہ سے حکومت کرنے والی درپردہ قوتوں کی بھی تھی۔ وہ قطعاً یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی بھی شخص عوام کی تائید و حمایت سے اس قدر مضبوط اور توانا ہوجائے کہ پھر وہ ہمارے قابو میں بھی نہ رہے۔ لہٰذا طے یہ کیا گیا کہ نواز شریف کو نہ صرف اقتدار سے بے دخل کردیا جائے بلکہ اسے مستقبل میں آنے والے نئے جمہوری حکمرانوں کے لیے بھی نشانِ عبرت بنادیا جائے۔

اس مقصد سے اسکرپٹ تیار کرنے والوں نے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے مطابق کئی پلان تجویز کیے۔ پہلے پلان کے تحت میاں صاحب کو ایک ایسے بھونڈے الزام میں قبل از وقت محروم اقتدار کردیا کہ جس کا دفاع کرنا خود الزام لگانے والوں کے لیے بھی مشکل ہوگیا۔ دوسری کوشش کے تحت احتساب عدالت کے ذریعے انتہائی مختصر مدت میں ایسے فیصلے کروانا مقصود تھا جس کے ذریعے میاں صاحب کو تمام عمر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینا تھا۔

تیسرے آپشن کے تحت مسلم لیگ (ن) میں اتنی دراڑیں ڈالنا تھیں کہ وہ اپنا وجود ہی قائم نہ رکھ سکے، مگر اس میں بری طرح ناکامی کے بعد اب آنے والے الیکشن کو ''انجینئرڈ الیکشن'' بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی کے ایما پر اب چھوٹے چھوٹے گروپس بنائے جارہے ہیں، جنھیں جتوا کر ایک ایسا وزیراعظم لایا جائے گا جس کی تمام ڈوریں کسی خفیہ ہائی کمان کے ہاتھوں میں ہی ہوں گی۔

یہ سارا منظرنامہ اس قدر واضح ہوچکا ہے کہ زرداری، جوکل تک اپنے فرزند عظیم بلاول بھٹو کو وزیراعظم دیکھ رہے تھے، اب کسی غیر معروف شخص یا سنجرانی ماڈل کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے میں گرچہ خود ان کا کردار اور تعاون بھی شامل تھا، لیکن وہ اب ساری گیم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کو نیچا دکھانے کے لیے انھوں نے سینیٹ کے الیکشن میں نادیدہ قوتوں کا آلہ کار بننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی، لیکن وہ اب اس گیم میں مزید حصہ بننے کو شاید اس لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اب جان چکے ہیں کہ نتیجتاً انھیں کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ انھیں تو اب اپنے صوبے کی حکومت بھی ہاتھوں سے جاتی دکھائی دینے لگی ہے۔ جی ڈی اے بن جانے کے بعد انھیں بھی اب یہ خوف کھانے لگا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ سندھ صوبے میں دس سال سے کوئی کام نہ کرنے کا خمیازہ عوام کی حمایت سے محرومی کی شکل میں مل جائے۔

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اب تک کامیابی کی وجہ اس کی کارکردگی نہیں بلکہ بھٹو کے نام سے وہاں کے لوگوں کی محبت اور کسی کا اس کے مقابلے میں نہ ہونا تھا۔ لیکن لوگوں میں اب سیاسی شعور بیدار ہونے لگا ہے۔ وہ جب اپنے صوبے کا مقابلہ ملک کے باقی صوبوں کے ترقیاتی کاموں سے کرتے ہیں تو انھیں احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے الیکشن میں اب بھٹو کارڈ بھی الیکشن جیت جانے کی ضمانت نہیں دے رہا۔

پاکستان بھر کے باقی صوبوں میں بھی لوگ اب کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس نے بھی اپنے لوگوں کی خوشحالی کے لیے تھوڑا بہت کام کیا ہے، وہی اگلے الیکشن میں کامیاب و سرخرو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام خفیہ ہتھکنڈوں اور حربوں کے باوجود لوگ مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ مسلم لیگ (ن) نے اگر اپنے عوام کی خدمت نہیں کی ہوتی تو اسے الیکشن سے باہر کرنا کوئی اتنا مشکل اور دشوار نہ ہوتا، پھر سازشیوں کو اتنے جتن بھی نہیں کرنا پڑتے۔ جس طرح 2013ء میں پاکستان پیپلزپارٹی ملک کے تینوں صوبوں سے فارغ ہوگئی تھی، اسی طرح کا حال آج مسلم لیگ (ن) کا بھی ہوتا۔

مسلم لیگ آج اپنی کارکردگی کی وجہ سے خان صاحب کے لیے ایک مشکل ترین حریف بنی ہوئی ہے۔ ان کے وزیراعظم بن جانے میں اگر کوئی دیوار حائل ہے تو وہ صرف مسلم لیگ کی پانچ سالہ کارکردگی ہی ہے، جس کے ہوتے ہوئے ان کا وزیراعظم بن جانا ایک ''خواب پریشاں'' ہی رہے گا۔ وہ لاکھ جتن کرلیں، نادیدہ قوتوں کے ساتھ مل کر کتنی ہی سازشیں کرلیں، میاں صاحب کے ووٹ بینک کو وہ زک نہیں پہنچاسکتے۔ بلکہ ایسے تمام ہتھکنڈوں سے ان کی مقبولیت مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بزدل اور ڈرپوک لوگ قوم کے لیڈر نہیں بن سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔