مذہبی جماعتیں اور نیا جمہوری ڈھانچہ
قومی سیاسی جماعتوں کے بجائے انتہاپسند مذہبی جماعتوں اورنام نہاد آزاد امیدواروں کو ووٹ دینے کے کتنے بڑے نقصانات ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے امیدواران کی جو فہرستیں شایع کی ہیں، ان میں مذہبی جماعتوں کے امیدواروں اور آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں انتخابی اصلاحات کے خلاف اسلام آباد کے دروازے پر کئی دن تک دھرنا دینے کے ساتھ وجود میں آنے والی نئی مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے امیدواروں کی تعداد پرانی مذہبی اور دیگر جماعتوں سے زیادہ ہے۔ لبیک نے صرف پنجاب میں پیپلز پارٹی سے زیادہ امیدوار نامزد کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی اس فہرست کے مطابق ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن نے رجسٹر نہیں کیا تو یہ جماعت اﷲ اکبر تحریک کے نام سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ لبیک پاکستان سے منحرف ہونے والا گروہ تحریک لبیک اسلام کے نام سے انتخابی میدان میں ہے۔ پنجاب کے انتخابات پر تحقیق کرنے والے ایک صحافی نے لکھا ہے کہ مذہبی جماعت کے امیدواروں کی تعداد بڑھنے کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کا مقبولیت کھونا ہے۔
روایتی مذہبی جماعتیں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان، جو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے حصہ لے رہی ہیں، انتخاب کی دوڑ میں پیچھے رہ گئی ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے منحرف چوہدری نثار علی خان سمیت 166 آزاد امیدوار جیپ کے نشان پر قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
مختلف انتخابی پول کرنے والی کمپنیوں کے جاری کردہ سروے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ مقبولیت کے اعتبار سے سب سے آگے ہے، مگر مسلم لیگ ن سخت مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے قائد میاں نواز شریف سزا پاچکے ہیں اور ساری زندگی کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں۔ ان کے قریبی معاونین نیب کی حراست میں ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف مسلسل نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کئی درجن امیدواروں نے ماضی کی طرح مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لینے سے انکار کردیا ہے اور بہت سے تحریک انصاف میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ کو تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا ہے اور کچھ تحریک انصاف سے ٹکٹ نہ ملنے کی بنیاد پر جیپ کے نشان پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ملتان سے مسلم لیگ ن کے ایک امیدوار نے گزشتہ ہفتے ٹی وی رپورٹروں کے سامنے الزام لگایا تھا کہ ان پر مسلم لیگ سے وابستگی ختم کرنے کے لیے سخت دباؤ ہے۔ ایک حساس ایجنسی کے اہلکاروں نے ان پر تشدد کیا ہے اور ان کے گودام پر چھاپے مارے۔ اس کے بعد اس امیدوار نے وضاحت کی کہ محکمہ زراعت کے اہلکاروں نے اس پر تشدد کیا تھا اور یہ غلط فہمی دور ہوگئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں متوقع انتخابی نتائج کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کامیاب ہوگی اور اس بات کا امکان ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کی طرح پھر کوئی سنجرانی وزیراعظم منتخب نہ ہوجائے۔
مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کی تعداد کا بڑھنا موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کے تشخص کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی نائن الیون کی دہشت گردی کا سانحہ ہوا۔ اس سے پہلے طالبان حکومت نے افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ طالبان حکومت کا براہِ راست نشانہ خواتین اور غیر مسلم تھے۔ پاکستان اور سعودی عرب دو ممالک تھے جنھوں نے طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستان نے طالبان حکومت کی ہر ممکن مدد کی تھی مگر نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد پاکستان امریکا اور اتحادی ممالک کے ساتھ شامل ہوگیا۔
یوں پاکستان کی مدد سے حامد کرزئی افغانستان کے صدر بنے، مگر امریکا مسلسل الزام لگاتا رہا کہ کالعدم تنظیمیں پاکستان میں متحرک ہیں۔ مذہبی دہشت گردوں نے پشاور اور کوئٹہ سے لے کر کراچی میں خودکش حملے کیے۔ حکومت نے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اپنا بیانیہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ زرداری حکومت نے مدارس میں اصلاحات کا پروگرام شروع کیا۔ اسی طرح جدید تعلیمی اداروں میں مذہبی انتہاپسندوں کی جڑوں کے خاتمے کے لیے مختلف پروگرام تیار ہوئے۔ برسر اقتدار حکومتوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ پاکستان میں غیر ریاستی کردار (Non-state Actors) موجود ہیں۔
سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد ایک کمزور حکومتی ڈھانچہ وجود میں آئے گا اور کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے 5جولائی کی مناسبت سے کراچی میں زیبسٹ میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس خدشہ کی تصدیق کی کہ انتخابات کے بعد کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور مذہبی جماعتیں اور آزاد امیدوار نئی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کریں گے۔ انھوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ کمزور پارلیمنٹ کے ذریعے 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 18ویں ترمیم کے خاتمے سے ملک ایک دفعہ پھر یکم مارچ 1971 کی جگہ پر پہنچ جائے گا۔
کئی مبصرین اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ ایک کمزور ڈھانچہ کے قیام کے لیے سارا بوجھ ''محکمہ زراعت'' کے اہلکاروں پر آجائے گا۔ عمران خان یہ سوچ رہے ہیں کہ کسی بھی طرح اقتدار کی مسند پر بیٹھ جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا، اسی بناء پر وہ میاں نواز شریف کی سزا پر خدا کا شکر ادا کررہے ہیں، مگر یہ محسوس نہیں کررہے کہ انتخابات کے نتیجے میں کمزور ڈھانچہ وجود میں آئے گا۔
پاکستان کے بین الاقوامی اداروں سے روابط پر نظر رکھنے والے اساتذ ہ کا کہنا ہے کہ ایک کمزور جمہوری ڈھانچہ میں اگر انتہاپسند مذہبی تنظیموں اور ان آزاد امیدواروں کو جو انتہاپسندانہ رجحانات کے حامل ہیں، کا کردار بڑھ گیا تو مستقبل کی حکومت کے لیے بین الاقوامی اداروں خاص طور پر پیرس میں قائم بین الاقوامی تنظیم کے 5 نکات پر عملدرآمد مشکل ہوجائے گا، جس کے نتیجے میں مستقبل میں سخت معاشی پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں۔
یہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ جن افراد پر مذہبی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں ان کے خلاف فوری کارروائی کرے اور عوام کو بین الاقوامی اداروں کے تحفظات ختم کرنے کے اقدامات نہ کرنے کے نتیجہ میں ممکنہ صورتحال پر اعتماد میں لے۔ عوام خود فیصلہ کریں کہ قومی سیاسی جماعتوں کے بجائے انتہاپسند مذہبی جماعتوں اور نام نہاد آزاد امیدواروں کو ووٹ دینے کے کتنے بڑے نقصانات ہوں گے۔