لاہور لاہور ہے
بگاڑ اس انتہا کو پہنچ گیا کہ شہری اداروں نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور لاہور جیسے شہر کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا گیا۔
میں ان دنوں جب اپنے گھر کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ لاہور یاد آتا ہے جہاں میں کبھی برسوں پہلے آیا تھا اور پھر اس شہر میں ایسی دلکشی نظر آئی کہ اسی کا ہو کر رہ گیا ۔ یہ وہی لاہور تھا جسے دیکھ کر کسی نے کہا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ کوئی آج کے لاہور کو دیکھے تو کیا کہے۔یہی کہ جو لاہور میں رہے وہ پیدا ہی کیوں ہوا تھا ۔
لاہور کی سڑکوں پر دوبار جھاڑو دیا جاتا تھا، ایک صبح منہ اندھیرے دوسرے سہ پہر کو۔ مجھے یاد ہے کہ سہ پہر کے وقت شہری مال روڈ پر آنے سے گریز کرتے تھے کہ اس وقت وہاں جھاڑو کی وجہ سے گرد اڑ رہی ہوتی تھی۔لاہور کے چوکوں اور خاص خاص سڑکوں پر پانی کا چھڑکائو بھی ہوا کرتا تھا۔ کوئی گلبرگ نہیں تھا کوئی ڈیفنس نہیں تھا لیکن جو بھی لاہور تھا وہ آج کے گلبرگ اور ڈیفنس سے زیادہ صاف تھا۔ اس وقت کوئی ایل ڈی اے اور اس کا واسا نہیں تھا صرف میونسپل کارپوریشن تھی جس کا سینٹری انسپکٹر خاکروبوں کی تنخواہیں نہیں کھاتا تھا ۔
ان سے جھاڑو دلواتا تھا ۔مال روڈ سمیت شہر کی ہرسڑک پر ٹانگے چلتے تھے اور گھوڑے ظاہر ہے کہ لید بھی سڑک پر کرتے تھے لیکن سڑکوں کی دو وقت کی صفائی گندگی کا احساس نہیں ہونے دیتی تھی لیکن پھر یہ ہوا کہ ہمارے اس شہر کی آبادی بڑھنے لگی ،نئی بستیاں تعمیر ہونے لگیں شہر ہر سمت پھیلتا گیا، ساتھ ہی شہر کے انتظامات بھی بڑھتے گئے ، نئے نئے شہری محکمے قائم ہونے لگے مگر کار کردگی اسی نسبت سے گھٹتی چلی گئی۔
پہلے حکمران لاہور کو پیرس بناتے تھے، ہمارے سابقہ حکمران جو کہ دس برس تک مسلسل حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے، انھوں نے بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح لاہور کو پیرس بنانے کے بلند و بانگ دعوے کیے۔ وہ اس لاہور کے باسی تھے بلکہ پرانے شہر میں ان کا بچپن گزرا تھا ، اس لیے وہ لاہور کو بھی بہت قریب سے جانتے تھے ۔ پیرس اور لاہور کا موازنہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کیونکہ دونوں شہر ان کے دیکھے بھالے ہیں، ایک میں وہ مقیم ہیں اور دوسرا خوشبوئوں کا شہرامیر لوگوں کا یورپ میں پسندیدہ ترین مقام ہے۔ اس لیے وہ اپنے شہر کو بھی پیرس جیسا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ اپنے شہر کوپیرس جیسا بنایا جا سکے۔
لوگوں نے ہمیشہ میاں صاحبان سے محبت کی ہے اور خاص طور پر لاہور تو میاں نواز شریف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن میاں صاحبان پہلے تو پرانے شہر کو خدا حافظ کہہ کر لاہور کی جدید آبادی ماڈل ٹائون منتقل ہو گئے اور بعد میں لاہور کی ایک نواحی بستی رائے ونڈ میں ایک وسیع و عریض قطع اراضی حاصل کر کے وہاں مقیم ہو گئے اور اس نئی بستی کا نام بھارت میں موجود اپنے پرانے گائوں جاتی عمرہ سے موسوم کر دیا۔اس بستی کو اگر پیرس والے دیکھ لیں تو انھیںاپنے شہر پر شرم آنے لگے۔
میں لاہور کے ایک پوش علاقے میں رہتا ہوں لیکن جب بھی لاہور میں بارش ہوتی ہے تو اپنے پوش علاقے والے گھر سے نکل نہیں پاتا، بارش کا پانی میری راہیں مسدود کر دیتا ہے اور میں اپنے پنجرے میں قید ہو جاتا ہوں ۔ میاںشہباز شریف نے لاہور کی ترقی کے بہت دعوے کیے بلکہ وہ آج کل دوسرے صوبوں کے لوگوں کو لاہور کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں اور لاہور کو دیکھنے کی دعوت بھی دیتے ہیں جسے دوسرے صوبے کے عوام حقیقت میں نہ سہی ٹیلیویژن کے ذریعے ہی دیکھ لیتے ہیں ۔
لاہور میں برسنے والے حالیہ بارش کے بعد جب اوسان بحال ہوئے تو دوسرے دن یہ ممکن ہو سکا کہ میں گھر سے باہر نکل سکوں کیونکہ سڑکوں کے پانی سے گاڑی کی خرابی کا اندیشہ تھا اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ لاہور کی بارش زدہ سڑکوں کا شکار بن جائوں ۔ لطیفہ مشہور ہوا ہے کہ حالیہ بارش کے بعد پیرس دھل گیا اور اندر سے اصلی لاہور نکل آیا ہے۔
بات لاہور کو پیرس بنانے سے شروع کی تھی ہم چونکہ ایک طویل عرصہ تک محکوم رہے، اس لیے ہمارے اندر سے ابھی تک آقا اور رعایا والے جراثیم ختم نہیں ہو پارہے، اس لیے ہم اپنے پرانے آقائوں کی نقالی کی ناکام کوشش کرتے ہیں، نسل در نسل غلامی ہمارے اندر سے مشکل سے ہی ختم ہوگی۔ شہباز شریف کا لاہور ان کی طویل حکمرانی کے باجود بھی وہ شہر نہیں بن سکا جس میں شہری سکون سے رہ سکیں اور ان کو شہری زندگی کی تمام سہولتیں دستیاب ہوں ۔
دس برسوں میں تو اتنا کچھ بدلا جا سکتا ہے کہ شہر کی شکل ہی بدل جائے اور لوگ اپنے ہی شہرکو پہچاننے سے انکاری ہوں مگر ہماری یہ بدقسمتی رہی کہ دس برسوں میں ہم نے ترقی کی جانب سفر تو کیا لیکن پیرس تو کجا لاہور کو پرانا لاہور بنانے سے بھی قاصر رہے، وہی لاہور جس کی صفائی کی مثالیں دی جاتی تھیں اور ہندوستان میں ہر نیافیشن اسی شہر سے قبولیت کی سندپاتا تھا ۔ ہم نے بطور قوم اس قدر نالائق ہو چکے ہیں کہ لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ بھی ایک ترک کمپنی کو دے رکھا ہے ۔ یعنی ہماری انتظامی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ ہم شہر کی صفائی ہی خود سے نہیں کرا پا رہے۔
بگاڑ اس انتہا کو پہنچ گیا کہ شہری اداروں نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور لاہور جیسے شہر کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا گیا ۔ ہماری سابق لاہوری وزیر اعلیٰ اس شہر کو پیرس بنانے کا خیالی دعویٰ کرتے رہے ۔ اگر میں کسی دن اپنے گھر کے باہر نکلا تو لاہور کو پیرس بنانے کا نیا وعدہ نئے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ضرور سنوں گا ۔ میرے خیال میں لاہور کو لاہورہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔