کپتان کو لگ پتہ جائے گا
عمران خان کرکٹر تھے تو ان جیسا اسٹائلش کرکٹر کوئی اور نہیں تھا۔ اپنی شرٹ یا ٹی شرٹ کا کالر اوپر ...
عمران خان کرکٹر تھے تو ان جیسا اسٹائلش کرکٹر کوئی اور نہیں تھا۔ اپنی شرٹ یا ٹی شرٹ کا کالر اوپر کر کے فیلڈ کرتے تو دنیا بھر میں ان کے مداح جن میں اکثریت صنف نازک کی ہوتی تھی بے تابی سے اپنے ہیرو کو دیکھا کرتی۔ ایچی سن کالج کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان عمران ٹیسٹ کرکٹ کے میدانوں میں اترا تو ایک ایوریج کھلاڑی تھا۔ نہ بولنگ میں جان اور نہ بیٹنگ میں مہارت، فیلڈر تو بالکل واجبی۔ وقت بدلا اور ایک ایوریج کھلاڑی دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں سے ایک بن گیا۔
آسٹریلیا کے خلاف سیریز جو 1976-77ء میں کھیلی گئی تھی اس کے دوسرے ٹیسٹ میں سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں پہلی اننگز میں 6 آؤٹ کر کے مخالف بیٹسمینوں کو بتا دیا کہ اب ان کا سامنا ایک خطرناک فاسٹ بولر سے ہے۔ اسی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بھی خان نے 6 وکٹیں لیں اور میچ میں 12 وکٹیں حاصل کرنے پر مین آف دی میچ قرار پائے۔ اس سیریز میں مشتاق محمد کپتان تھے۔ سیریز کا پہلا ٹیسٹ جو ایڈیلیڈ میں کھیلا گیا، ڈرا ہوا تھا اور میلبورن کے دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا 348 رنز سے جیت گیا تھا۔
عمران پہلے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صرف ایک وکٹ لے سکے اور میلبورن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 5 آؤٹ کیے لیکن ان کی بولنگ زیادہ متاثر کن نہیں تھی۔ میلبورن ٹیسٹ ہارنے کے بعد مشتاق محمد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ٹیم اگلا ٹیسٹ جیتے گی۔ مشاق محمد نے عمران خان کی شکل میں ایک خطرناک بولر دریافت کر لیا تھا اور یہی ہوا کہ آخری ٹیسٹ میں جیت کر وہ سیریز برابر کرنے میں کامیاب رہے۔ یہاں سے کرکٹر عمران خان کے بطور کھلاڑی عروج کا آغاز ہوتا ہے۔ خان کو بڑا کرکٹر بننے میں 6 سال لگے۔
مقبول سیاسی لیڈر بنتے بنتے انھوں نے 17 سال لے لیے۔ انھوں نے تین دن پہلے ایک جلسے میں بھی کہا کہ وہ 17 سال سے 11 مئی کے میچ کا انتظار کر رہے ہیں۔ کرکٹ میں انھوں نے معراج 21، 22سال بعد اس وقت پائی جب 1992ء میں میلبورن کرکٹ گراؤنڈ (آسٹریلیا) میں پاکستان کے لیے عالمی کپ جیتا۔ کرکٹ میں انھوں نے 1971ء میں انگلینڈ کے خلاف صرف 18 سال کی عمر میں ڈیبیو کیا۔ ان کا آغاز اتنا برا تھا کہ انھیں تین سال کے لیے باہر بٹھا دیا گیا۔ سیاست میں بھی ان کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ وہ سیاست میں آئے اور پھر کنارہ کش ہو گئے۔
سیاسی کیریئر بھی چند سال کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع کیا۔ قومی ٹیم کے کپتان وہ 1985ء میں بنے اور 1992ء میں عالمی کپ جیتنے سے پہلے انھوں نے پہلی بار انگلینڈ اور انڈیا کو ان کے گھر میں ٹیسٹ سیریز ہرا کر نئی تاریخ رقم کی۔ اس دوران ویسٹ انڈیز کے ساتھ تین ٹیسٹ سیریز ڈرا کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ اس دور کی ویسٹ انڈیز سے سیریز ڈرا کرنا بھی بڑا کارنامہ ہوتا تھا۔ میلبورن کرکٹ گراؤنڈ ان کے لیے اس لحاظ سے لکی رہی کہ انھوں نے کیریئر میں پہلی بار 5 وکٹیں بھی اسی میدان میں لیں اور پھر ورلڈ کپ کے فاتح بھی یہیں بنے۔
عمران زبردست کرکٹر اور شاندار آل راؤنڈر تھے۔ وہ کامیاب کپتان ہونے کے ساتھ ساتھ ڈکٹیٹر بھی تھے۔ ایک ایسے کپتان جو پی سی بی (اس وقت کی بی سی سی پی) کے سربراہ کو خاطر میں لاتے تھے، سلیکشن کمیٹی کا لحاظ کرتے تھے نہ منیجر اور کوچ کی سنتے تھے۔ کہتے ہیں ایک بار قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پریکٹس جاری تھی اوپر سلیکشن کمیٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ کمیٹی نے ٹیم فائنل کر کے کھلاڑیوں کے نام ایک کاغذ پر لکھے اور گراؤنڈ میں عمران خان کو بھجوا دیے۔
کپتان نے سولہ رکنی ٹیم پر ایک نظر ڈالی اور کاغذ پھاڑ دیا۔ جو شخص یہ کاغذ لے کر ان کے پاس آیا تھا اس سے کہا جاؤ سلیکشن کمیٹی کو بتا دو ٹیم میں نے کھلانی ہے اس لیے وہ میری مشاورت کے بغیر ناموں کا اعلان نہیں کر سکتے۔ سلیکشن کمیٹی کو مجبوراً ان کی مشاورت کے بعد ٹیم کا دوبارہ اعلان کرنا پڑا۔ ڈکٹیٹر شپ کی ایک مثال یہ ہے کہ ہر طرف سے تنقید کے باوجود وہ منصور اختر کو مسلسل کھلاتے رہے۔ انھیں منصور اختر میں بڑا ٹیلنٹ دکھائی دیتا تھا مگر وہ کپتان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بیٹنگ میں کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے۔
تھوڑے دن ہوتے ہیں میں نے کسی سے پوچھا تحریک انصاف کا منصور اختر کون ہے تو اس نے مجھے برجستہ جواب دیا، عائلہ ملک۔ خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ سچائی یہ ہے کہ خان نے بطور کپتان بلاشرکت غیرے حکمرانی کی ہے۔ ان کی کپتانی میں کھلاڑی ڈسپلن توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سکندر بخت نے صرف ایک شاٹ ان کی مرضی کے خلاف کھیل دی تو ان کا کیریئر ختم ہو گیا۔ سلیم ملک نے آسٹریلیا میں ایک ون ڈے اننگز میں 69 رنز بنائے مگر غیر ذمے دارانہ اسٹروک کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے تو کپتان نے اگلے میچ میں سزا کے طور پر انھیں باہر بٹھا دیا۔
تین دن بعد الیکشن ہیں۔ کپتان اس وقت اپنے سیاسی کیرئیر کے عروج پر ہے۔ مقابلہ بڑا سخت ہے۔ ن لیگ کی مقبولیت بھی زبردست ہے۔ مبصرین ن لیگ کو متوقع فاتح قرار دیتے ہیں۔ حقیقت سے پھر تصوراتی دنیا میں واپس چلتے ہیں۔ گیارہ مئی کے میچ کا فیصلہ اگر عمران کے حق میں آ گیا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ ن لیگ اور دوسری جماعتوں سے معذرت کے ساتھ تصور کرتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت بن گئی اور عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم چونکہ چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اس لیے اسے اپنی حکومتی ٹیم کا کپتان کہا جا سکتا ہے۔
عمران جب حکومتی ٹیم کے کپتان بن جائیں گے تو کیا ہو گا؟ وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے۔ حکومتی ٹیم کے کپتان بن گئے تو کیا وہ اپنی من مانی کر سکیں گے؟ کرکٹ میں چند لوگوں پر حکمرانی کرنے کی ضرورت تھی مگر حکومتی ''کارخانہ'' بہت بڑا ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا پاکستان کی خارجہ پالیسی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر بنانے اور چلانے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی ایوان صدر میں آصف علی زرداری موجود ہیں جن کے ہاتھوں حلف لینا پڑے گا۔ ویسے اب عمران یہ نہیں کہتے کہ وہ جیت گئے تو صدر زرداری سے حلف نہیں لیں گے۔ ممکن ہے انھیں زمینی حقائق کی سمجھ آ گئی ہو۔ متحرک اور آزاد عدلیہ بھی اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔ بیورو کریسی بڑوں بڑوں کو تگنی کا ناچ نچانے میں ماہر ہے۔
سب سے بڑی مشکل اپنے اور اتحادی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو کنٹرول کرنے میں پیش آئے گی۔ کپتان نے اعلان کر رکھا ہے کہ ان کی کابینہ صرف 17رکنی ہو گی۔ کسی ایم این اے کو فنڈملے گا نہ نوکریوں کا کوٹہ۔ اب آپ ہی بتائیں جب حکومت سازی کے لیے 172 ارکان درکار ہیں تو پھر صرف 17 ارکان کو وزیر بنا کر کوئی وزیر اعظم حکومت کیسے چلا سکتا ہے؟ ویسے تو 'ہنوز دلی دور است' لیکن عمران اگر واقعی ''کپتان'' بن گئے تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کرکٹ کی کپتانی آسان تھی، سیاسی حکومت کی کپتانی بہت مشکل ہو گی۔ یعنی کپتان بنے تو لگ پتہ جائے گا۔