سنگل ڈبل اور ٹرپل نر گیست
ہم اس خطے پر ہر طرف سے بری نظروں کو منڈلاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
KARACHI:
کبھی کبھی تو ہم ڈر جاتے ہیں کہ ہمارے اس خطہ خاص میں اتنی ساری '' خوبیاں '' کیوں ہیں وہ تو اچھا ہے کہ ہمارے پاس آئینے کچھ خاص معیاری نہیں ہیں ورنہ ہم تو خود ہی اپنے آپ کو نظر لگا چکے ہوتے ۔ ایسا ہی '' خوبیوں ''سے مالا مال شخص کسی فلم میں دیکھا تھا ۔
جو ہر وقت یہی کہتا رہتا تھا کہ بھگوان تم نے مجھے اتنا سندر کیوں بنایا ۔اچھا ہے کہ اپنے حسن اور خوبیوں کا ہمیں احساس نہیں ہے، اچھا ہے کہ آئینے دو نمبری ہیں ورنہ ہم بھی اس شخص کی طرح پریشان اور چشم بد سے خو فزدہ رہتے ۔ یا ہو سکتا ہے کہ اس یونانی کی طرح ہمارا بھی حشر نشر ہو جاتا جس کا نام نازکس بتایا جاتا ہے، اس زمانے میں ہماری طرح یا تو آئینے ہوتے ہی نہیں ہوں گے یا دو نمبر کے ہوں گے کہ اسے اپنے بے پناہ حسن کا پتہ چلا جب وہ ایک دریا پر پانی پینے گیا ۔ پیاس کے باوجود جب پانی میں اپنا بے مثل و بے مثال حسن ملاحظہ کیا تو وہیں پر ''سٹل '' ہو گیا، پانی بھرا اوک بھی منہ تک لے جانا بھول گیا اور اپنے عکس کی طرف '' ٹک ٹک '' دیدم دم کشیدم '' ہو گیا ۔ دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور خود میری طرح ہزار دو ہزار جان سے عاشق ہو گیا اس خیال سے کہ پانی میں اس کا حسین وجمیل عکس نہ بگڑے اس نے پانی پینا بھی چھوڑ دیا ۔
کتر ینہ کیف کے ایک آئیٹم سانگ میں وہ بھی اس صورت حال سے دو چار ہوئی تھی اس لیے مسلسل بولے جارہی ہے کہ '' میں خود کو گلے لگاؤں '' وٹ مائی نیم ، مائی نیم ازشیلا ، شیلا کی جوانی ۔ اس بیچارے نازکس کو تو اول تو کوئی آئٹم سانگ آتا نہیں تھا اور اگر آتا بھی تو وہ ہرگز نہ گاتا کہ اس طرح بھی اپنے عکس کا دیدار ڈسٹرب ہو سکتا تھا ۔
آخر کار اس المناک صورتحال میں بیچارے کا دم وہیں پر بھوک اور پیاس سے نکل گیا ۔ اور روایت کے مطابق اس مقام پر '' نرگس '' کا پودا اگ آیا مسٹر نازکس کی یہ خوبی نر گس کے پھول میں بھی آئی ہے کہ وہ ہمیشہ مڑ کر اپنی طرف ہی دیکھتا رہتا ہے یعنی خود کو گلے لگانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ۔ یہاں تو کہانی ہے لیکن اس کے آگے ایک خاص ''مرض '' کی ابتدا ہوتی ہے جس کا نام بھی نرگس کی رعایت سے نرگسیت رکھا گیا ہے ۔
نرگسیت کے سمپٹم تو بہت سارے ہیں جو آپ کسی کو بھی سن کر یا کسی آئینے یا پانی کے جوہڑ میں دیکھ کر معلوم کر سکتے ہیں لیکن کل ملا کر سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ نرگسیت کا مارا دنیا کی تمام خوبیاں اپنے اندر پاتا ہے اور اپنے سارے عیب اور غلطیاں بلکہ حماقتیں تک دوسروں میں دیکھتا ہے کہ راہ چلتے خود ہی ٹھو کر کھا کر گرتا ہے تو اس کے لیے بھی تقریباً ساری دنیا کو گالیاں دینے لگتا ہے کہ راستہ ہموار نہیں تھا کوئی پتھر تھا کیچڑ تھی یا کچھ اور ۔ بھول جاتا ہے کہ اس کی تو الّو سے بھی زیادہ بڑی بڑی آنکھیں ہیں وہ اس نے نہ اپنی جیب میں ڈالی تھیں نہ گھر بھول گیا تھا ۔پہلے تو راستے میں کچھ نہ کچھ گالیاں دینے کو مل جائے گا ایسا کچھ نہیں ملا تو کسی ایسے شخص کے ناجائز رشتے یہاں وہاں جوڑے گا کہ صبح صبح اس کے منہ لگا تھا اور بھول جاتا ہے کہ صبح صبح تو وہ آئینے میں خود اپنے منہ لگا تھا ۔ ہم بھی جب ارد گرد دیکھتے ہیں تو نرگسیت کے مارے ہوئے مریضوں میں خود کو گھرا ہوا پاتے ہیں عین ممکن ہے کہ ہم بھی ہوں لیکن وہی آئینے کی مجبوری ہے ۔
یہاں سے ہم اپنا بیان ختم کرکے کسی نامعلوم دانشور کا قول زرین یا قول نرگسین درج کرتے ہیں کیونکہ ابھی ہمیں شہادت کے رتبہ بلند پر فائز نہیں ہونا ہے ۔
اس دانا دانشور اور حکیم کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ مرض مسلمانوں میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے جن کا دودھ بھی چولہے پر ابل پڑے تو اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ تلاش کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ساری دنیا اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ان کے خلاف سازشوں میں لگی ہوئی ہے کیونکہ بے حد و بے کنار خوبیوں سے بھرے ہوئے مسلمان بعض کو ایک آنکھ نہیں بھاتے کہ کہیں یہ بیٹھے بیٹھے ساری دنیا پر چھا نہ جھائیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تانبا کامل نہ بن جائے ۔
پھر اس دانا دانشور نے اپنی دانش کا دوسرا زینہ سر کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ پاکستانی دنیا کے سب سے زیادہ بڑے مسلمان بھی ہیں اور پاکستانی بھی یعنی نرگس میں دوسرے پھول نے بھی آنکھ کھول کر اپنی طرف کرلی ۔ اس لیے دنیا کے سارے یہود و ہنود فرعون و نمرود اور کافرو مردود صرف انھی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں کہ کہیں یہ ساری دنیا کے لوگوں اور ملکوں بلکہ کرکٹ ہاکی وغیرہ کی ٹیموں کو چنوں کی طرح چبا نہ ڈالیں ۔
گویا ڈبل نرگسیت ۔ لیکن اس کے بعد '' ٹرپل '' نرگسیت کا جو مقام ہے وہ ہمارے پشتونوں سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا کہ مسلمان بھی ہیں پاکستانی بھی اور اوپر سے پشتون بھی ۔ اسے غالباً سہ آتشہ بھی کہتے ہیں ان کا تو خیال بلکہ پکا پکا یقین ہے کہ ذی روح تو ذی روح دریا پہاڑ ، پتھر ، اینٹ بلکہ ستارے سیارے تک بھی ان کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے ہیں ۔
ان تمام حالات و واقعات بلکہ ثبوتوں اور دلائل اور داناؤں کے اقوال زریں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خطرہ ہے خطرہ ہے اور پھر بھی خطرہ ہے ۔
کہ اتنی خوبیوں ، کمالات ، صنعات بلکہ عجائبات سے بھرے ہوئے خطے کو کہیں ان کی اپنی نظر نہ لگ جائے بلکہ کبھی کبھی تو کچھ ایسا لگتا ہے کہ '' لگ چکی ہے ''
آخر اتنی ڈھیر ساری صنعات بے پناہ حسن اور کمالات کب تک نظر بد سے بچے رہتے ۔ اور پھر جب چاروں بلکہ چھ اطراف سے بری آنکھیں بھی اس طرف ہوں وہ شعر بھی اسی خطے میں تولا ہوا ہے نا کہ
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
بچپن میں جب ہم نہر سے نہا کر آتے تھے تو ایک گھر کا اکلوتا لڑکا جو ہمارے ساتھ ہوتا تھا ابھی دروازے ہی میں ہوتا کہ اس کی ماں ہانڈی کے ڈھکنے پر انگاروں کے اوپر ہرمل ڈال کر دھواں اڑاتی ہوئی آتی اور اس کی نظر اتارتی۔ ہم کہتے کہ خالہ ہم بھی تو اس کے ساتھ تھے اور اس کو تو تیرنا بھی نہیں آتا تو نظر کیسے لگتی ۔ وہ کہتی بیٹا ۔ نظر ہمیشہ اچھی چیزوں کو لگتی ہے حالانکہ اس کی وہ '' اچھی چیز '' کسی بھی اینگل سے اچھی نہیں تھی ۔ بلکہ بعد میں جب وہ ذہنی طور پر '' ڈس ایبل '' ثابت ہوا تو اسے بھی کسی کی بری نگاہ کا شاخسانہ بنا کر اس کی ماں ان نامعلوم لوگوں کو بد دعائیں دیتی رہی جنہوں نے اس کے لال کو نظر لگائی تھی ۔ حالانکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اس کے ماں باپ آپس میں خالہ زاد تھے او وہ جینٹیک مرض کا شکار تھا ۔
بہرحال کچھ کرنا ضروری ہے کیونکہ ہم اس خطے پر ہر طرف سے بری نظروں کو منڈلاتا ہوا دیکھ رہے ہیں بلکہ چھ اطراف تو اپنی جگہ اس پر ساتویں طرف سے بھی چشم بد کا خطرہ ہے یعنی خود اپنی طرف سے جب تک اسے آئینہ نہیں ملتا ۔
تو کب تک خیر منائے گی او بکرے کی ماں
او بکرے کی ماں تو کب تک خیر منائے گی