یومِ شہدائے کشمیر سوراجیہ اور مودی کے نئے اعترافات

اِس تازہ ناکامی کی وجہ سے نریندر مودی ، کشمیر کے حالات کے پس منظر میں، دنیا کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔


Tanveer Qaisar Shahid July 13, 2018
[email protected]

13جولائی کا دن تاریخِ کشمیرمیں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دن مظلوم اور مجبور کشمیریوں کی عظیم الشان جدوجہدِ آزادی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ دن ہمیں کشمیریوں کی اُس بے نظیر اور عظیم المرتبت مساعی کی بھی ازسرِ نَو یاددلاتا ہے جب غلامی اور جبر کی دُہری زنجیروں میں جکڑے نہتے کشمیریوں نے آزادی اور حریت کا باقاعدہ راستہ اختیار کیا۔

ستاسی سال قبل، جب ایک طرف تو انگریز سامراج نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا اور دوسری طرف کشمیریوں کو مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی گرفت میں جکڑ رکھا تھا، تیرہ جولائی کا سانحہ پیش آیا۔ واقعہ تو معمولی ساتھا۔ ایک کشمیری نوجوان، عبدالقدیر، کو ہندو مہاراجہ کے سپاہیوں نے ایک معمولی سی تقریر کی بنیاد پر حراست میں لے رکھا تھا۔

الزام عائد کیا گیا کہ عبدالقدیر نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تقریر کی ہے اور لوگوں کو اِس امر پر اُبھارا ہے کہ سب کشمیری مہاراجہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیں۔ عبدالقدیر کے خلاف سرینگر میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ مسلمانانِ کشمیر کا مطالبہ تھا کہ ملزم بے گناہ ہے، اس لیے اُسے فوری رہا کیا جائے ۔ اور اگر رہا کرنا فوری ممکن نہیں ہے تو کشمیریوں کو مقدمے کی کارروائی سُننے اور دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت نہ ملنے کی صورت میں احتجاج ہُوا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں کے ایک جائز مطالبے کو روکنے کے لیے ڈوگرہ ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی ظالم پولیس اورفوج نے احتجاجی و نہتے کشمیریوں پر گولی چلا دی۔ پلک جھپکتے میں 22بے گناہ کشمیری شہید ہو گئے۔ تاریخ میں ان جی دار اور اولوالعزم شہید کشمیریوں کے نام سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ یہ آج بھی لَو دے رہے ہیں۔

اُنہی کے ولولوں اور نقوش کی یاد میں آج بھی مقبوضہ کشمیر میں قابض اور غاصب فوجوں کے خلاف تحریکِ آزادی و حریت پوری آن بان اور شان سے جاری ہے۔ یہ اُن شہیدوں کے پاک خون کی برکت ہے کہ 87سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہم اُن کی یاد میں شمعیں روشن کرتے ہُوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔ ہر سال جب بھی تیرہ جولائی کادن آتا ہے، ایل او سی کے آر پار یومِ شہدا پورے جوش وجذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ کشمیر کو بھارتیوں کی گرفت سے نجات دلانے کے لیے تجدیدِ عہد کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں جہاں جہاں کشمیری آباد ہیں ، تیرہ جولائی کو اپنے اُن شہدا کی یاد سے اپنے دلوں کو آباد کرتے ہیں۔ یہ دن ایک معمولی دن نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تیرہ جولائی ہی کا یہ اعجاز ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں روشن آزادی کا شعلہ گُل نہیں ہو سکا ہے، حالانکہ بھارت ایسے بڑے اور غاصب دشمن کی موجودگی میں کئی ناموافق ہوائیں بھی چلتی رہی ہیں۔

سلام اور سیلوٹ ہے مگر کشمیریوں کی جرأت اور استقامت کو جنہوں نے شعلہ آزادی کو مسلسل اپنا پاک اور جوان خون دے کر بجھنے نہیں دیا ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اِس امر کی ہمیشہ تکلیف رہی ہے کہ ہر سال تیرہ جولائی کو کشمیری کیوں یومِ شہدا اتنے جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ یومِ شہدا کی ولولہ انگیز تقاریب دیکھ کر بھارتیوں اور اُن کے بہی خواہ ایجنٹوں کے سینوں پر سانپ لَوٹ لَوٹ جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ میڈیا میں موجود اپنے ہمنوا لکھاریوں اور دانشوروںکے توسط سے تیرہ جولائی کے تاریخی سانحہ کے بارے میں جھوٹ اور کذب پھیلایا جائے اور یہ پیغام پھیلایا جائے کہ تیرہ جولائی1931ء کو پیش آنے والا یہ خونریز واقعہ پیش ہی نہ آتا اگر ''چند شر پسند '' کشمیری فساد برپا نہ کرتے۔

بھارتی خفیہ اداروں کے اشاروں پر لکھے جانے والے مضامین اور بھارتی نجی ٹی ویوں پر پیش کیے جانے والے اِن دل آزار پروگراموں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ''تیرہ جولائی کو کشمیری مسلمانوں نے کشمیری ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کیا، اُن کی املاک کو لُوٹا، غیر مسلمان کشمیری خواتین کے ساتھ نامناسب سلوک، کشمیری ہندوؤں اور سکھوں کو زبردستی مسلمان بنایااور کئی کشمیری ہندوؤں کو کشمیری مسلمانوں نے زندہ پکڑ کر جلایا بھی اور اُن کی لاشیں دریائے جہلم میں پھینک دی گئیں۔''

جھوٹ، دروغ گوئی اور کذب بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تیرہ جولائی کے سانحہ کے خلاف تازہ ترین ایک مفصل آرٹیکل بھارتی اخبارDailyOمیں شایع ہُوا ہے۔ اِس کے مصنف سوشیل پنڈت ہیں۔ موصوف نے87سال قبل پیش آنے والے تیرہ جولائی کے واقعات کو مسخ کرنے کی اپنی سی کوشش تو '' خوب'' کی ہے لیکن کوئی بھی اُن کے جھوٹ اور افترا پر یقین کرنے پر تیار نہیںہے۔

آج 13جولائی2018ء کو ایک بار پھرپاکستان ،آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر میںیومِ شہدائے کشمیر منایا جارہا ہے۔ یہ دن مناتے ہُوئے ہر شخص کے ذہن پر یہ احساس غالب ہے کہ 87سال سے کشمیری ، کسی نہ کسی شکل میں، مسلسل غاصب اور قابض قوتوں کے خلاف جدوجہدِآزادی میں لگے ہیں لیکن آزادی کا سورج اُن پر طلوع نہیں ہو رہا ۔ محکومی اور مجبوری کی زنجیریں نہیں ٹوٹ رہی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا گیا ہے، لاکھوں پاکیزہ عصمتیں طاغوت کے بھینٹ چڑھائی جا چکی ہیں، لاتعداد جوان بھارتی جیلوں میں قید ہیں، ہزاروں کشمیریوں کو بھارتی پیلٹ بندوقوں سے نابینا کیا جا چکا ہے ۔ اور جو بے بس اور کمزور کشمیری بھارتی قابض افواج کے ظلم سے اپاہج بنا دیے گئے ہیں۔

اُن کی تعداد بھی کم نہیں ہے لیکن آزادی کا چاند طلوع نہیں ہورہا۔ نجانے اللہ تعالیٰ کو کیا منظور ہے؟ کتنی قربانیاں مزید دینا پڑیں گی؟ آج مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پُتلی ''منتخب حکومت''بھی ختم ہو چکی ہے۔ بی جے پی نے عین بیچ منجدھار میں حکمران پی ڈی پی کو دغا دے کر چھوڑ دیا۔ سب کچھ نریندر مودی کی ڈیزائننگ کے مطابق ہُوا ہے اور محبوبہ مفتی ٹُک ٹُک دیدم، دَم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنی بیٹھی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں آٹھویں بار گورنرراج نافذ کیا جا چکا ہے۔

پچھلے 23دن سے این این وہرہ مقبوضہ کشمیر کے مطلق حکمران ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں منتخب حکومت قائم کرنے کا ڈرامہ پھر ناکامی پر منتج ہُوا ہے۔ 8جولائی 2018ء کو کشمیری شہید مجاہد، برہان وانی، کی دوسری برسی جس عقیدت اور شدت سے پورے کشمیر میں منائی گئی ہے، اِس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے ساتھ نہیں ہے۔

ہر سال تیرہ جولائی کے موقع پر بھارتی حکومت اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کوشش کرتی ہے کہ کشمیریوں کو رام کرنے کے لیے کنفیوژن پھیلائی جائے لیکن یہ ڈھونگ کامیابی سے کبھی ہمکنار نہیں ہوتا۔ اِس بار بھی تیرہ جولائی کے آس پاس بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور انڈین آرمی چیف، بپن راوت، نے ایسی ہی بھونڈی کوشش کی ہے۔ کشمیری حریت پسندوں کو لبھانے اور کشمیریوں کو دھوکا دینے کے لیے مودی نے بھارتی جریدے ''سوراجیہ''کو ایک طویل انٹرویو دیا ہے جو 3جولائی 2018ء کو شایع ہُوا ہے۔

یہ جریدہ (Swarajya) بھارتی بنیاد پرست اور متعصب ہندولیڈرشپ کی سوچوں کا نمایندہ جریدہ کہا جاتا ہے۔ جریدے کے تین سینئر صحافیوں( آر جگن ناتھن، پرسنّا وشواناتھن ، امر گووند راجن)کو طویل انٹرویو دیتے ہُوئے نریندر مودی نے جہاں دیگر موضوعات پر کئی باتیں کہی ہیں،وہیں مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی کئی شمال مشرقی ریاستوں(مگھیلیا، ارونچل پردیش،منی پور، میزورام، تری پورہ) میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں پر بھی بات چیت کی ہے۔

اِس انٹرویو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ(تمام تر فوجی جبر اور تشدد کے باوجود) مودی جی سے مقبوضہ کشمیر کے حالات سنبھالے نہیں گئے ہیں ۔ وہ کشمیر میں غاصب فوجوں اور ظلم میں مسلسل اضافہ تو کیے جا رہے ہیں لیکن کوئی ہتھکنڈہ ثمر آور ثابت نہیں ہورہا۔ یہاں تک کہ مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کا تجربہ بھی بُری طرح ناکامی سے دوچار ہُوا ہے۔

اِس تازہ ناکامی کی وجہ سے نریندر مودی ، کشمیر کے حالات کے پس منظر میں، دنیا کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ ''سوراجیہ'' کو دیے گئے انٹرویو میں مودی یہ بھی تازہ اعترافات کرتے ہُوئے محسوس ہوتے ہیں کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں(جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے)میں علیحدگی پسندی کے شدید اور قوی رجحانات جاری ہیں ۔ مودی یہ کہتے ہُوئے پائے جاتے ہیں کہ ان ریاستوں میں علیحدگی پسندوں سے خونی تصادم بھی جاری ہیں اور ترقیاتی کام بھی کیے جارہے ہیں ۔ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ مگر نہ بھارت دشمن ماؤ نواز قابو میں آرہے ہیں اور نہ ہی شمال مشرقی صوبوںکے ملک مخالف باغی۔ بھارت کو خوف لاحق ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنی خونی گرفت ڈِھیلی کرتا ہے تو اُس کے شمال مشرقی باغی صوبے بھی اُس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں