اقتدار کے منجمد معاملات
کیاپاکستان میں کسی حکمران، وزیراعظم، وزیراعلیٰ کی ذاتی سادگی کی کوئی مثال ہے۔
شاہ جی حیرت انگیزانسان ہیں۔پچھتربرس کا متوازن نوجوان۔پاکستان اوربرطانیہ میں انکاوسیع کاروبار ہے۔ گرمیاں لندن میں اورسردیاں پاکستان میں گزارتے ہیں۔ دوستی تقریباًدس برس پہلے ہوئی اورپھرکافی مضبوط ہوگئی۔ شاہ جی صاحب کمال صاحب مطالعہ انسان ہیں اور پاکستانی ریاست پرایک منفردطرزِفکررکھنے والی شخصیت ہیں۔سیاسی معاملات پر ان کی رائے بے حد مختلف ہوتی ہے۔کہنے کا مقصد یہ کہ شاہ جی ایک پڑھے لکھے بابے ہیں جنھیں ملکی سیاست کے مدوجزرکا بخوبی علم ہے۔
جیسے ہی جمہوری حکومت کادورانیہ ختم ہوا۔شاہ جی کے بے لاگ تجزیے آنے لگے۔ویسے جمہوری دور لکھنا مناسب نہیں ہے۔اسلیے کہ یہ دس برس شخصی بادشاہت کی بدترین مثال رہے ہیں۔اسے سویلین ڈکٹیٹرشپ لکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔پریہ بھی عجیب سی لسانی ترکیب ہے۔ بہرحال دس برس جوکچھ بھی تھا،اسے جمہوری دورکہنے کے لیے بہت زیادہ مبالغہ آرائی چاہیے۔
سندھ میں زرداری صاحب اوران کے مصاحبین کی سلطنت تھی اورپنجاب میں شہباز شریف، بلاشرکت غیرے،اقتدارپرقائم تھے۔کسی سوال وجواب سے مستثناء، ہر طرح کے سیاہ وسفیدکے مالک۔ چندسرکاری افسروں نے انھیں ہرایک سے اس کمال عیاری سے دورکردیاتھا۔ ان سے بھیانک سرکاری غلطیوں کا ارتکاب بھی کروالیاگیا۔مگراب وہ مصاحبین مزے کررہے ہیں اورشہبازشریف کے لیے ہر طرف سے آندھی اورطوفان ہے۔ان کے ایک چہیتے نے چار دن پہلے فرمایاکہ اس کا تو شہباز شریف سے سرکاری ساواجبی تعلق تھا۔
انھوں نے کبھی سابقہ وزیراعلیٰ سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔مگرصرف چندہفتے پہلے تک موصوف ہروقت دربار میں حاضررہ کر،دیگرتمام لوگوں کے خلاف بدترین ہرزہ سرائی کررہے ہوتے تھے۔ بہرحال بات شاہ جی کی ہورہی تھی۔ حکومت ختم ہونے سے کئی ہفتے پہلے کہنے لگے کہ یہ لوگ اب اقتدارمیں نہیں آئینگے۔سادگی سے گزارش کی کہ ن لیگ نے کمال ترقیاتی کام کیے ہیں۔کوئی وجہ نہیں کہ الیکشن میں واپس نہ آسکیں۔ جواب تھاکہ انھیں پانچ سال کی مدت صرف اسلیے پوری کرنے کی اجازت دی گئی ہے کہ یہ غلطیاں درغلطیاں کریں۔اپنامذاق خود اُڑوائیں۔
جیسے لاہورمیں اورنج ٹرین کاافتتاح تھا۔ہرایک کومعلوم تھاکہ یہ منصوبہ ابھی مکمل نہیں ہوا مگرپھربھی چندمنٹوں کے لیے ٹرین چلادی گئی۔ وزیراعلیٰ، ہاتھ ہلاتے رہے۔ مگر نیچے کوئی ہجوم توکیا،ایک بھی آدمی نہیں تھا۔لیکن شاہ جی، بہرحال،ایک بین الاقوامی سطح کاکام تو ہوا ہے۔جواب تھا کہ یہ محض بتایاجارہاہے۔جس دن کوئی ادارہ اس میٹروٹرین کے معاملات کودیکھے گا، تو حیران کن غفلتیں سامنے آئیں گی۔ویسے ہی جیسے مال روڈپرانتہائی غیر معیاری کام کیاگیا۔ایک ہی بارش نے وہاں مہیب گڑھا بنا دیا۔ سوچنے لگاکہ یہ دونوں باتیں درست ہوسکتی ہیں۔ بہرحال بات اُدھوری سی رہ گئی۔
تین دن پہلے شاہ جی دفترآئے توکہنے لگے کہ الیکشن ضرورہونگے۔جس سیاسی گروہ کونکالناہے،اسے شہیدبننے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔شاہ جی سے سوال کیاکہ آپکی نظرمیں پاکستان کی سیاست اورسیاستدانوں کااصل مسئلہ کیاہے۔سیاسی جنگ اوربے وجہ کھینچاتانی کی اصل وجہ کیاہے۔شاہ جی سوچ میں پڑگئے۔کہنے لگے بلیک کافی منگواؤ۔کافی آتے ہی چندگھونٹ پیے۔پوچھنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب،کیامیں آپکوبیوقوف نظرآتاہوں یاکسی طریقے سے فارغ آدمی دکھائی دیتاہوں۔
جواب یقینانفی میں تھا۔کہنے لگے صرف ایک وجہ نہیں ہے۔کئی وجوہات ہیں۔ بتاتاہوں مگرایک شرط پر۔جب تک جواب دیتا رہوں، آپ نے خاموش رہناہے اوربلیک کافی منگواتے رہنا ہے۔ خاموشی سے سنناشروع ہوگیا۔کہنے لگے،پہلی بات تویہ ہمارے جینزمیں اختلاف رائے کوبرداشت کرنا نہیں ہے۔ ہم سیاسی اختلاف کوذاتی جنگ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس کی بھی وجہ ہے برصغیرمیں کئی ہزاربرس سے مساوات یابرابری کی سطح سے حکومت کرنے کاکوئی رواج نہیں ہے۔مزاج میں ہے کہ شخصیت پرستی کے عذاب میں جلتے رہیں۔
قائداعظم جب گورنرجنرل تھے،توان سے سارے سیاستدان گھبراتے تھے۔ ڈرتے تھے۔لہذاانکوکسی بڑے سیاسی مسئلے کاشکارنہیں ہونا پڑا۔مگرلیاقت علی خان سے اب تک ہمارے سیاسی مزاج میں ایک فیصدبھی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔بلکہ اب توسیاسی رویہ حددرجہ منفی اورسخت ہوچکاہے۔صدرایوب ایک متوازن مزاج کاشخص تھا۔اس میں انقلابی حدت نہ ہونے کے برابر تھی۔مگرجب محترمہ فاطمہ جناح نے اس کے خلاف سیاسی میدان میں آنے کا اعلان کیاتوہرطریقے سے ریاستی مشینری اس بزرگ خاتون کے خلاف استعمال کی گئی۔حدتویہ کہ انھیں ہندوستانی ایجنٹ تک قرار دیا گیا۔
ایوب خان کے مصاحبین نے محترمہ فاطمہ جناح کی ذات پررکیک ترین حملے کیے۔ شاہ جی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔کہنے لگے کہ میری زبان اجازت نہیں دیتی کہ وہ جملے دہراسکوں۔ اس وقت میں نوجوان تھا اور چاہتا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن میں کامیاب ہوں۔ اگلا دور دیکھیے۔یحییٰ خان نے اپنی ساری توانائی اوروقت،دنیاوی عیش پراس طرح صَرف کی کہ ملک ہی برباد ہوگیا۔مگراس طرزِحکومت سے پہلے سوال کھڑا ہوچکا تھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی نوجوان اتنے علیحدگی پسندکیوں ہوچکے ہیں۔
اصل میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد، بہت پہلے رکھی جاچکی تھی۔بنگالیوں نے اپنے سیاسی نظریہ کو بیان کیاتوایک دم اسی اختلاف کوملک دشمنی قرار دیدیا گیا۔ انھیں برابری کی سطح پرکبھی بھی تسلیم ہی نہیں کیاگیا۔یہ سارا کام ایوب خان کے دورمیں حب الوطنی کے نام پرہوتا رہا۔ ہمارے سیاستدانوں نے ملک توڑدیا مگراپنے مزاج کو تبدیل نہیں کیا۔شاہ جی کوکافی کا ایک اورکپ منگواکر دیااور اسی بہانے سے عرض کی کہ شاہ جی یہ باتیں توہرایک کو معلوم ہیں۔اس میں توکوئی نئی بات نہیں ہے۔اب آپ بھٹو اور ضیاء الحق کی دشمنی کا ذکرکرینگے۔یہ باتیں توعام سی ہیں۔
شاہ جی ایک دم مزید سنجیدہ ہوگئے۔کہنے لگے کہ اقتدار کے کھیل میں صدیوں سے کوئی نئی بات نہیں ہے۔صدیاں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں سے جاری کھیل صرف اورصرف مغربی دنیامیں بدلاہے۔بدقسمتی سے ہمارے خطے میں جوں کاتوں ہے۔ہرحکومت میں صرف دو فریق ہوتے ہیں۔ ایک حاکم اوردوسرا،اس حاکم سے حکومت چھیننے کی جستجو کرنے والا۔ہرحکومت میں عوام بے معنی ہوتے ہیں۔پہلے بھی اورآج بھی۔ ہم لوگ بڑے فخرسے کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے برصغیر پرایک ہزارسال حکومت کی۔مگرکوئی یہ نہیں کہتاکہ اس زمانے میں عام آدمی کی زندگی کس معیارکی تھی۔
کیاکسی قسم کاانصاف میسر تھا۔ کیاقحط میں غلہ کی فراہمی مکمل تھی۔کیاواقعی مذہبی آزادی بھی تھی۔کیاہربادشاہ کے مرنے کے بعدخانہ جنگی اورسازشوں کاایک نیادروازہ نہیں کھل جاتاتھا۔کیامسلمان بادشاہ کسی مسلمان باغی کو برداشت کرتاتھا۔ہرگزنہیں۔ہم تسلیم ہی نہیں کرتے کہ کسی بھی حاکم، بادشاہ،سلطان،شہنشاہ یا منصب دار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسکااصل مذہب صرف اور صرف اقتدارمیں رہنا ہوتا ہے۔
تمام لوگ اس کھیل کو پہچانتے ہیں۔مگربات نہیں کرسکتے۔ آپ یہاں یہ نہیں کہہ سکتے کہ جرمنی کی چانسلر انجلینا مرکل، سعودی بادشاہ سے بہت بہتراورانسان دوست ہے۔یہ بھی نہیں کہہ سکتے،کہ کینیڈاکاجسٹن ٹروڈو،ایران کے سخت مولویوں سے، ہر طریقے سے اعلیٰ ہے۔دونوں فرنگی حکمرانوں میں سادگی ہے۔یہ ہزاروں مسلمانوں کوپناہ دے چکے ہیں۔ کیوں! صرف اسلیے کہ مغربی دنیاایک مہذب مربوط نظام میں زندگی گزاررہی ہے۔
جہاں وزیراعظم اپنے بیٹے،بیٹی یا سمدھی کوبغل میں بٹھاکر سیاسی تقریرنہیں کرسکتا۔دنیاکے طاقتورترین شخص یعنی امریکی صدر،بارک اوباماکی بیٹی، واشنگٹن کے ایک کیفے میں ویٹرس کاکام کرتی رہی۔ آنے جانے کے لیے وائٹ ہاؤس کاکوئی سرکاری قافلہ یاگاڑیاں استعمال نہیں کی گئیں۔دراصل مغرب میں طرزِحکمرانی مکمل طورپر تبدیل ہواہے۔تبدیلی کایہ سفر،خون کی شاہراہ سے گزرکر مکمل ہواہے۔پورے مغرب نے چرچ کو حکومت سے الگ کرنے کے لیے لاتعدادانسانی قربانیاں دی ہیں۔ انھوں نے اپنے امیراور طاقتور آدمی کوبھی قانون کے سامنے کھڑا کر دیاہے۔کیاپاکستان میں کسی حکمران، وزیراعظم، وزیراعلیٰ کی ذاتی سادگی کی کوئی مثال ہے۔
خاموشی سے سن رہاتھا۔میراسوال تھاکہ پرانی باتیں چھوڑئیے۔اب کیاہوگا۔شاہ جی نے قہقہہ لگایا۔ وہی جوپہلے ہوتا رہا ہے۔ شہباز شریف، نواز شریف، زرداری اور دوسرے لیڈروں نے کبھی اختلافِ رائے کوبرداشت نہیں کیا۔اپنے سیاسی مخالفین پرزندگی تنگ کردی۔جوافسرانھیں پسندنہیں تھا، ان کے مستقبل کوبرباد کردیا۔ٹوڈی،میرعالم اور غیر معتبر لوگوں کے نرغے میں آگئے۔میرٹ کوبربادکردیا۔کھل کرکرپشن کو فروغ دیا۔اس درجہ خودسری آگئی کہ وزراء ،ایم این اے اور ایم پی اے بھی دودوسال ان سے ملاقات کرنے سے قاصر تھے۔مگرایک فریق ایساتھاجوان کے قابو میں نہ آسکا۔وہ تھا سوشل میڈیا۔ حزب ِ اختلاف سوشل میڈیا بن گیا۔
اتنے طاقتور سوشل میڈیاسے جیتناناممکن تھا۔ لہذااب جوکچھ ان لوگوں نے اپنے اقتداربچانے کے لیے کیا۔اب وہی ترکیب مخالف فریق، اقتدارحاصل کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ بلکہ اس میں مکمل طور پرکامیاب ہے۔لہذاالیکشن ہویانہ ہو، اقتدار اب مخالف فریق کے پاس جارہا ہے۔شاہ جی اُٹھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنے لگے، اقتدار کے معاملات صدیوں سے بالکل ویسے ہی ہیں۔سب کچھ منجمدہے۔کچھ بھی نہیں بدلا!