تحت الشعور کی طاقت

زندگی کے اسرار انسان کے لیے صدیوں سے معمہ بنے ہوئے ہیں، انسان آج تک یہ رمز نہیں سمجھ پایا کہ...


Shabnam Gul May 09, 2013
[email protected]

زندگی کے اسرار انسان کے لیے صدیوں سے معمہ بنے ہوئے ہیں، انسان آج تک یہ رمز نہیں سمجھ پایا کہ اس کی زندگی کا تعین کرنے میں اس کی قسمت کا زیادہ عمل دخل ہے یا اس کی تقدیر اس کے اپنے عمل پر حاوی ہے، زندگی کے حالات بدلنے میں تدبیر کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں، البتہ قسمت تدبیر کا سہارا لے کر بدلی جا سکتی ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو قسمت بدلنے کے لیے عاملوں کی مدد لیتے ہیں جو جادو ٹونے کو بروئے کار لاتے ہوئے انہونی کو ہونی میں بدل دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، جادو کی بھی بہت سی قسمیں سنی ہیں، جیسے کالا جادو VOODOO ووڈو، موجو بھیگنو، بنگال کا جادو، وغیرہ مشرق تو تو ہم پرستی کی وجہ سے مشہور ہے ہی مگر مغرب میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، جو جادو پر یقین رکھتے ہیں، کیا جادو میں واقعی کوئی اثر ہے؟

یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہن میں اٹھتا ہو گا جو یقیناً اسے توہم پرستی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، ووڈو مغرب میں عام ہے، بعض لوگ اسے جادو کا نام دیتے ہیں، در حقیقت یہ ایک مذہب ہے، جو قدیم مغرب افریقہ کے 30 ملین سے زیادہ لوگوں میں مقبول ہے، بینن، ٹوگو، گھانا، ھیٹی، امریکا اور کیری بیئن ملکوں میں یہ جادو نما مذہب مروج ہے، لاطینی امریکا میں بھی آپ کو اس جادو کے پرستار ملیں گے،VOODOO کا مطلب ہےSpirit (آتما) جس کے پیروکار کہتے ہیں کہ انسانوں کی اس دنیا میں ماورائی قوتیں موجود ہیں، یہ جادو مڈل ایجز میں بہت مقبول تھا، خاص طور پر مذہبی رسومات، دعاؤں، رقص، موسیقی، محبت و علاج اور منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے ووڈو کا اثر اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، ووڈو کو ساؤتھ ایسٹرن امریکا میں کرسچن، مسٹیسزم (عیسائی روحانیت) سے بھی منسوب کیا جاتا ہےVOODOO dolls بہت زیادہ مقبول ہیں، جنھیں Poppets بھی کہا جاتا ہے جو چڑیلوں اور بدی کی قوتوں کے زیر اثر کہلاتی ہیں، یہ ووڈو گڑیا دشمن کو زیر کرنے اور اس کی زندگی کو نحوست سے بھرنے کا کام ادا کرتی ہیں۔

جس کا مقصد دشمن کو بیمار کر کے موت کے گھاٹ اتار دینا ہے، ان گڑیاؤں کے جسم میں سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں، مشرق میں مقبول کالے جادو میں بھی ایسے بت بنائے جاتے ہیں، درحقیقت یہ جادو شعوری طاقت کا نام ہے جو جادو کرنیوالے عامل اور کرانیوالے شخص کے درمیان یقین کی طاقت کو پیدا کرتے ہیں، ہم جسے جادو کا اثر کہتے ہیں وہ لفظوں کی طاقت ہے، ہر لفظ اپنی تاثیر میں طاقت کا سرچشمہ ہے، جسے ایک عام ذہن سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے، انسان کے اندر کی بے یقینی کئی چیزوں کے حصول میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ بعض اوقات اس بے یقینی کی وجہ سے بنتے کام بھی بگڑ جاتے ہیں، ایک شخص کو کسی بزرگ نے تعویذ دیا جب اس کا کام ہو گیا اور وہ بزرگ کے پاس اسے نتیجہ بتانے آیا تو بزرگ نے اسے کہا کہ جو تعویذ میں نے تمہیں دیا ہے اسے کھول کے دیکھو، اس شخص نے تعویذ کھول کے دیکھا تو وہ ایک سادہ سا کاغذ تھا، وہ شخص بہت حیران ہوا اور اس کے استفسار پر جواب ملا کہ یہ تعویذ کا کرشمہ نہیں بلکہ تمہارے یقین کی طاقت تھی۔

یہ بالکل ایسا ہے جیسےPlacebo پلیسبو کا اثر! جو ایسی دوا ہے جس میں دوا کے اجزاء شامل نہیں ہوتے جو مریض کے اطمینان کے لیے اسے دی جاتی ہیں، یورپ میں ویسے بھی دوا کا استعمال کم کیا جاتاہے اور بعض اوقات مریض دوا لیے بغیر ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتے، یہ بھی ایک نفسیاتی اثر ہی سمجھ لیجیے، ایک ریسرچ کے مطابق بیمار مریضوں کو اصلی دوائیں اور پلیسبو دوا ایک ساتھ دی گئیں، پلیسبو دوا لینے والے مریض بھی صحت یاب ہو گئے، پلیسبو ٹیبلٹ اور کیپسولز کی طرح ہوتی ہیں مگر ان میں سیلائن یا ڈسٹل واٹر بھرا ہوتا ہے، انھیں شگر ہلز بھی کہا جاتا ہے، یہ دوائیں لے کر بھی مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

انسانی ذہن طاقت کا سرچشمہ ہے، چونکہ عام لوگوں کا ذہن یکسوئی کا حامل نہیں ہوتا اس لیے ان کے لفظوں میں وہ اثر نہیں ملتا، اثر وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں آپ کی سوچ ایک نکتے پر مرکوز ہو، روحانی ماہر ہوں یا عامل انتشار میں بھی ارتکاز کی کیفیت میں رہتے ہیں، ریکی، جاپان کا دریافت کردہ علم ہے جو چائنا کے ساتھ یورپ بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہے، ریکی کا ماہر مریض کے جسم پر ہاتھ رکھ کر اس مرض کو ٹھیک کر دیتا ہے، یہ تک کہا جاتا ہے کہ اگر کسی خاتون کو ریکی دیتے وقت اگر ماہر کے دل میں نفسانی خواہش بیدار ہو جائے تو ریکی کا اثر زائل ہو جائے گا، لہٰذا ریکی سیکھتے وقت ان ماہرین کو ذہنی و روحانی طور پر مضبوط کرنے کے لیے مشقیں کرائی جاتی ہیں تا کہ یہ عام لوگوں سے مختلف ہوں اور ان کے ذہن کی سچائی و شفاف عکس دکھی انسانیت کو شفا دے سکے۔

ریکی بھی تحت الشعور کی طاقت کا علم ہے، ریکی کا ماہر اپنے جسم کی قوت کو کائنات کی توانائی سے ہم آہنگ کرنے کی مشقیں کرتا ہے اور ان طویل مشقوں کے بعد اس کے ہاتھوں سے شفا کی لہروں کا اخراج ہونے لگتا ہے، ریکی مثبت سوچ کا سرمایہ ہے، جب کہ جادو ایک منفی علم ہے، اس میں بھی عامل مختلف قسم کی مشقیں کرتے ہیں اور مخصوص تکرار کے حامل الفاظ ان کی طاقت کا ذریعہ بنتے ہیں اس علم میں بھی ذہن کی کرشماتی طاقت موجود ہے، منفی سوچ اپنے اندر ایک بہت بڑی طاقت سمیٹے ہوتی ہے، بدی بہت جلد جڑ پکڑتی اور پھلتی پھولتی ہے، منفی سوچ اکثر نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، ایک شخص جب بہت نفرت و غصے کے عالم میں باہر نکلتا ہے تو کبھی اس کی گاڑی خراب ہو جاتی ہے یا پھر اس سے ایکسیڈنٹ ہو جاتاہے، منفی لہروں کا ارتعاش ماحول وارد گرد کے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ زبان و عمل کا اثر ہمیں اپنی زندگی میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے، نظر لگ جانے کے واقعات بھی اکثر سننے میں آتے ہیں۔ دراصل یہ نظر بھی پریشان کن سوچ کا ٹکراؤ ہے، خاموش نفرت اور احساس کمتری بھی دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہیں، بعض اوقات یہ مبالغہ آرائی پر مبنی سوچیں انسان کی اپنی ذات کو زیادہ تکلیف دیتی ہیں، جسم کے سیلز تباہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور جسم بیماریوں کا شکار ہونے لگتا ہے۔

ماحول میں موجود سوچ و بدی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مشرق و مغرب میں کئی طریقے مروج ہیں، جیسے لوبان و اگربتی کا جلانا، ایشیاء، افریقہ و یورپ میں ماحول کو شفاف بنانے کے لیے مختلف جڑی بوٹیاں، خشک پتے و پھول جلائے جاتے ہیں، کمروں میں کھلا نمک چند دنوں کے لیے رکھا جاتا ہے، پانی میں نمک اور پھولوں کا عطر وغیرہ ڈال کر گھروں میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، چائنا میں اسی مقصد کے لیے ڈور بیلز استعمال ہوتی ہیں، موسیقی برے اثرات کو منتشر کر دیتی ہے، موم بتیوں کو جلا کر بھی یہ مقصد حاصل کیا جاتا ہے، دنیا کی مختلف قومیں مقدس صحیفوں اور دعاؤں سے بھی برے اثرات سے نجات پانے کی کوشش کرتی ہیں، در حقیقت بدی کی قوتوں سے بھی زیادہ انسان کے ذہن کو پراگندہ کرنے والی لہریں ہوتی ہیں۔

آج کل ہر طرف جا بجا نقلی پیر اور عاملوں کے آستانے نظر آتے ہیں توہم پرستی کے مارے لوگ زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش میں ہزاروں روپے لٹا بیٹھتے ہیں ایک مکتبہ فکر یہ بھی کہتا ہے کہ جو چیز زبردستی اور غیر فطری انداز سے حاصل کی جائے تو وہ بھی قدرت کے کاموں میں مداخلت ہے۔ دوسری جانب ان جعلی پیروں و عاملوں کے بارے میں اخبارات میں اکثر خبریں شایع ہوتی رہتی ہیں، خواتین بھی ان کی نازیبا حرکتوں کا شکار ہو جاتی ہیں لیکن خوف، ڈر اور لحاظ کے مارے لوگ اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں اس توہم پرستی کے پس منظر میں جہالت کے ساتھ احساس محرومی کا عنصر بھی پوشیدہ دکھائی دیتا ہے، جو ضعیف الاعتقادی کی وجہ بنتا ہے خود کو بے یار و مددگار سمجھنے والے لوگ یا تو مزاروں کا رخ کرتے ہیں یا جعلی پیروں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور یہ رہبر نما رہزن ان کی زندگیاں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں