مرض کی تشخیص
عمران خان نے جب لاہور میں اسپتال کی تعمیر شروع کی تو ان سے کئی ملاقاتیں ہوتی تھیں
عمران خان کی شخصیت دن بدن بدلتی جارہی ہے، وہ آج کل سلوک و معرفت کی باتیں کر رہے ہیں، ان کے پیش نظر الیکشن اور آیندہ کی حکومت ہے۔ وہ ریاست مدینہ کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں خدا جب چاہے اپنے کسی بندے کے سامنے سے حجاب اٹھا دیتا ہے۔
عمران خان کے سامنے سے یہ حجاب تب ہی اٹھ گیا تھا جب انھوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ وہ اس خدمت کے لیے پاکستان کی گلی گلی پھرے اور دنیا بھر میں مخیر حضرات کے سامنے اپنی جھولی پھیلائی اور اس جھولی میں پاکستانی عوام نے اپنا سب کچھ اُلٹ دیا یعنی اپنی مالی استعداد سے بڑی کر عمران خان کی اسپتال کی تعمیر کے نیک کام میں مدد کی، اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر مسلم افراد نے بھی عمران خان کی اس نیک کام میں بھر پور مدد کی اور آج ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ عمران کا اسپتال لاہور کے علاوہ پشاور میں بھی کام کر رہاہے اور عنقریب کراچی میں بھی اس کی خدمات شروع ہونے والی ہیں۔
انسانیت کی خدمت کا جذبہ جب کسی انسان میں جاگ جاتا ہے تو وہ انسان اپنے اندر ایک نئی توانائی اور طاقت محسوس کرتا ہے۔ ایک غیر مرئی طاقت اس کے اندر عود کر آتی ہے جس کی اسے خود بھی کچھ سمجھ نہیں آتی کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے لیکن کچھ ایسی نادیدہ قوتیں اس کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہیں جو اس کے فلاحی کاموں کو آسان کر دیتی ہیں اور وہ ایک نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، اس سفر میں اس کو اپنے مطلب کے ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو اس نیک سفر میں اس کا ساتھ دینے کو ہر وقت آمادہ رہتے ہیں ۔ عمراں خان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ خدا جب چاہے کسی کے سامنے سے حجاب اٹھا دے ، اللہ تعالیٰ جب چاہیں کسی انسان کو نیک مقصد کے لیے پسند کر لیں اور اسے اپنا بندہ بنالیں۔
سیاست میں آنے سے پہلے عمران خان کرکٹر اور پھر اپنی کرکٹ کی شہرت کو استعمال کر کے فلاح انسانیت کے کام میں آگے آئے اور پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا بلکہ وہ ایک پختہ عزم اور ارادے کے ساتھ ایک سچے پاکستانی کی طرح آگے ہی بڑھتے چلے گئے، ان کا پاکستانیت کا یہ مشن آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل شروع ہوا اور اب بھی جاری ہے۔ وہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ پاکستانیوں کے اصل مسائل کیا ہیں، اس لیے وہ سب سے پہلے تعلیم اور صحت کی بات کرتے ہیں، ان کے نزدیک یہ دو اہم ترین مسئلے ہیں جو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں پاکستان جیسے ایٹمی طاقت کے حامل ملک کو درپیش ہیں ۔
عمران خان نے جب لاہور میں اسپتال کی تعمیر شروع کی تو ان سے کئی ملاقاتیں ہوتی تھیں، وہ بچوں کی طرح خوش ہو کر اسپتال کی تفصیلات بتاتے تھے ۔ عمران جس کے بڑے دولت مندلوگوں سے ذاتی تعلقات تھے اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ اسپتال کے منصوبے کے لیے اس کے سرمایہ دار دوست دولت کے ڈھیر لگا دیں گے لیکن ان میں سے اکثر نے صرف نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا ماسوائے معدودے چند کے جنہوں نے عمران کی کچھ مدد کر دی۔ لیکن اسے بیشتر سرمایہ ان لوگوں سے ملا جو نادار یا سفید پوش تھے ۔ عمران بتاتے ہیں کہ ایک ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور ان کی گفتگوسنتا رہا اور اس نے کرایہ لینے کے بجائے کچھ رقم عمران کی ہتھیلی پر رکھ دی۔
عمران خان کی سیاست بھی انھی نادار اور سفید پوش لوگوں کی حمائت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے سیاستدانوں نے دبا کر رکھا ہو اتھا لیکن جب سے عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے یہی سفید پوش اور نادارلوگ عمران کے کاروان کا حصہ بن گئے کیونکہ ان کو عمران کی صورت میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے جو ان کی یعنی عوام کی بات کرتا ہے۔ عوام کے حقوق کی بات کرتا ہے، ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی بات کرتا ہے اور وہ یہ سب زنجیریں توڑ دینے کی بات کر رہا ہے، اس کی یہ باتیں عوام کے مسائل اور ان کے دلوں کی باتیں ہیں، عوام نے اسے اپنے دلوں کے قریب تر کر لیا ہے جو عوامی شعور عمران نے پاکستانیوں کو دیا اس کو پہلے کبھی کسی لیڈر نے پاکستانیوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا کہ مباداً ان کو اپنے حقوق کا علم نہ ہو جائے اور وہ مطالبے کرنے لگیں ۔
عمران خان پاکستانی عوام اور ان کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں۔ انھوں نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا تھا لیکن انھوں نے مرض کی تشخیص تو کر لی لیکن علاج کو بیچ میں ہی چھوڑ دیا اور ان کے مریض آج بھی ان کے جان نشینوں کی جانب سے روٹی کپڑا اور مکان کے لیے دیکھ رہے ہیں ۔کچھ اسی طرح کی صورتحال میں عمران خان الیکشن میں جا رہے ہیں، وہ عوام کو لاحق مرض کی تشخیص کر چکے ہیں، اس کا علاج کرنے کے لیے ان کو اقتدار کی ضرورت ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اقتدار کی یہ منزل ان سے کچھ دنوں کی دوری پر ہے۔
عوامی لہر ان کے حق میں ہے کیونکہ عوام پہلے دونوں پارٹیوں یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھگتاچکے ہیں اور اب وہ ایک بار پھر اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔ عوام ایک ان دیکھے مستقبل کی جانب بڑھ رہے ہیں، ان کو عمران کی صورت میں اپنے مسائل کا حل نظر آرہاہے، معصوم عوام میںاب مزید دھوکا کھانے کی استعداد ختم ہو چکی ہے۔ وہ آخری کوشش کرنے جارہے ہیں، ہر طرف سے ہوائیں عمران خان کے حق میں چل رہی ہیں، اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ ان ہواؤں کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر ان ہواؤں کے تیز بگولوں میں پھنس کر اسی مدار میں ہی گردش کریں گے جس مدار سے عوام جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ عوام سکھ اور سکون کی زندگی چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنے نئے لیڈر کے انتظار میں ہیں۔