ترکی کے سیاسی و معاشی حالات
یہ مشرق وسطیٰ ٰاور مغربی ایشیا کا واحد ملک ہے جس نے شروع دن سے ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے
ترکی ، مراکش کی طرح ایشیا اور یورپ کو جوڑتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے ۔ دنیا کی بڑی بادشاہتیں وہ سلطنت روم ہو یا ہسپانیہ، یونان ہو یا مغلوں کی برصغیر پر بادشاہت، چینی بادشاہتیں ہوں، تاتاری ہوں ، منگول ہوں یا عرب بادشاہتیں یا سلطنت عثمانیہ قابل ذکر ہیں ۔ میں ان بادشاہتوں کا تقابلی جائزہ نہیں لے رہا ہوں بلکہ ان کی وسعت، حکمرانی، قبضے اور دبدبوں کی بات کررہا ہوں فتوحات اور قتل غارتگری تو بادشاہتوں کی بنیاد ہے ۔
ترکی کی عثمانیہ دور سلطنت کے حوالے سے ایک ڈراما ''کوسم سلطان'' متعدد قسطوں میں نجی چینل سے دکھایا گیا ۔ اس میں عوام کو تو چھوڑ ہی دیں خود اپنے خاندان میں قتل کیے بغیرکوئی بادشاہ نہیں بن سکتا تھا ۔ سازشوں، بغاوتوں، مکاریوں، عیاریوں اور بے رحمیوں سے محلات ہر وقت گونجتے رہتے تھے۔ اسی جبروستم کے خلاف کمال پا شا اتا ترک نے ترکی میں بادشاہت مخالف بغاوت کی اور اسے ایک جدید ریاست کی شکل دی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کچھ اصلاحات تو ہوئیں لیکن بنیادی سماجی ڈھانچے یعنی طبقاتی نظام حکومت کو بدلا نہیں گیا، اس لیے ترکی عالمی سرمایہ داری کا حصہ بن گیا ۔
یہ مشرق وسطیٰ ٰاور مغربی ایشیا کا واحد ملک ہے جس نے شروع دن سے ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔ جب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے اردن اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا تو اس سے قبل ہی ترکی،اسرائیل کا اتحادی تھا ۔ اب تھوڑا تھو ڑا کھسک رہا ہے لیکن '' love and hate ''محبت اور نفرت والے محاورے کی طرح ہے ۔ ترکی سامرا جی جنگی ادارے نیٹوکا رکن ہے ۔ نیٹو میں شامل ممالک میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوج ترکی کی ہے ۔ ترکی میں نیٹوکا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں جرمن فوج اپنی آب وتاب سے قیام پذیر ہے ۔ اب یہ فوج کس کے خلاف ہے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اکثر ترکی کے عوام اس فوجی اڈے (استنبول )کی جانب مارچ کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس فوجی اڈے کو یہاں سے ختم کیا جائے ۔
ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کی بائیں بازوکی حزب اختلاف نے مذمت کی تھی ۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ یہ بغاوت کیسی تھی،کیوں ہوئی اورکس نے کرائی؟ اس کی مثال ہم پاکستان سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت کے ذریعے دے سکتے ہیں ۔ جب نواز شریف کو ملک سے نکال باہرکیا گیا تو مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ گئی تھی ۔ ایک مسلم لیگ ن اور دوسری مسلم لیگ ق ۔ یعنی دونوں دائیں بازوکی سامراج نواز جماعتیں تھیں اور ہیں مگر اختلافات مفاد کی خاطر تھے ۔
اسی طرح ترکی میں بھی دائیں بازوکی جسٹس اینڈ ڈیویلپمینٹ پارٹی ( آ ق) میں اردوان اورگولان دونوں رہنما تھے۔ دونوں ہی کا عالمی سامراج سے تعلق تھا اور ہے، دونوں نیٹوکے حامی ہیں ۔ مفادات کی خاطر ان میں اختلاف ہوئے۔ جسے فو جی بغاوت کہا جاتا ہے اس میں فوج تو ضرور تھی مگر اکثریت فوج کی نہیں بلکہ سرکاری سول ملازمین ، اساتذہ ، جج اور وکلاء تھے ۔ یو این اوکے اعداد وشمارکے مطابق اب تک ایک لاکھ 60 ہزار افراد گرفتارکیے جاچکے ہیں اور اتنے ہی سرکاری ملازم بھی گرفتارکیے گئے ہیں ۔ یعنی کل 3 لاکھ 20 ہزار افراد گرفتارکیے گئے ہیں ۔ ترکی میں اس وقت درجنوں اخبارات پر پابندی ہے اور 250صحافی گرفتار ہیں یعنی دنیا میں اس وقت اظہار رائے کی آزادی جن چند ملکوں میں کم سے کم ہے ان میں ایک ترکی ہے ۔
اس کے بعد عرب بادشاہتوں اور اسرائیل کا نمبر آتا ہے ۔ حال ہی میں ترکی کی حکو مت نے فوجی بغاوت کی تحقیقات کے لیے مزید 68 فوجی افسران کی گرفتاری کا حکم دیا ہے ۔ 68 ملزمان میں سے 19ملزمان کوگرفتارکیا جاچکا ہے۔ بقول حکومت ان کا فتح اللہ گولن سے رابطے رکھنے کا انکشاف ہوا ہے ۔ جن ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے ان میں 22 کرنل اور 27لفٹیننٹ کرنل شامل ہیں ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں مزید18632 ملازمین برطرف کردیے گئے ہیں، جن میں 9 ہزار پولیس،6 ہزار فوجی اور 199 مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ شامل ہیں ۔ ادھر عام انتخابات میں کل ڈالے جانے والے ووٹوں میں 56 فیصد اردوان کو ملے ہیں اور بائیں بازوکی حزب اختلاف کو 35 فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ واضح رہے کہ بائیں بازوکے اتحاد کوکردوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ترکی کی حکومت نے کردوں، سرکاری ملازمین، اساتذہ اور صحافیوں پر مظالم کی انتہاکردی ہے ۔
ترکی میں شرح مہنگائی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔ مہنگائی کی شرح 2003کے بعد پہلی بار جون 2018 میں 15فیصد سے تجاوزکرگئی ۔ ترکی کے شماریاتی دفترکے مطابق مئی میں صارف قیمتوں کے عشاریے پر مبنی افراط زرکی شرح 12.15فیصد تھی جوگزشتہ ماہ بڑھ کر15.39فیصد تک پہنچ گئی ۔ سب سے زیادہ اضافہ ٹرانسپورٹ سروسز میں 24.26 فیصدکا ہوا جب کہ فرینٹنگ اورگھریلو ایپلائینس کی قیمتوں میں 18. 91فیصد کا اضافہ ہوا اس کے علاوہ پیاز اور آلو سمیت اشیائے خوراک کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھیں ۔ یہ ساری سیاسی اور معاشی حالات بدتر اس لیے ہورہے ہیں کہ ترکی عالمی سرمایہ داری کا حصہ ہے ۔ ایک جانب ترکی نے یورپی یونین کو رکنیت کے لیے درخواست دے رکھی ہے تو دوسری طرف یورپی یونین رکنیت نہیں دے رہی ہے ۔ یورپی یونین کے خود معاشی حالات بدتر ہو رہے ہیں ۔
برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا ہے ۔ یونان معاشی حالات سے ڈانواں ڈول ہے ، جرمنی سے بیل آؤٹ لے کرکھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب یورپ کی سب سے بہتر معیشت جرمنی کی معاشی شرح نموگھٹ کر 2 فیصد پر آگئی ہے ۔ اس صورتحال میں ترکی کی معیشت کیونکر بہتر ہوسکتی ہے ۔ گزشتہ برس ترکی نے آئی ایس آئی ایس ( داعش) کی خود ساختہ حکو مت کو ڈالر دیکر تیل لیتا رہا یا یوں کہہ لیں کہ ترکی کی مدد کے بدولت ہی داعش کی آئی ایس آئی ایس (عراق، سیریا اسلامک اسٹیٹ ) جو اب نہ رہی ، جتنے عرصے قائم رہی اس میں سب سے زیادہ ہاتھ ترکی کا ہی رہا جس کی پشت پناہی امریکا کرتا آرہا ہے ۔
مشرق وسطیٰ میں ہونے والی خانہ جنگی جس میں امریکا، سعودی عرب، مصر اور اسرائیل ایک جانب تو دوسری جانب روس چین ، ایران ، شام اور ترکی ہے ۔ یہ پراکسی وار عالمی سامراجیوں کے اپنے مفادات کی جنگ ہے نہ کہ عوام کی ۔ ترکی کے عوام بے روزگاری ، بھوک، افلاس ، غربت ، مہنگا ئی اور سیاسی جکڑ بندی اور اظہار را ئے سے دوچار ہیں۔ ترکی کے عوام کی خوشحالی اور بے روزگا ری سے نجات ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہوگی ۔