ڈیموں کی تعمیر ناگزیر پہلا حصہ

ڈیم دنیا کا نہ صرف بیس فیصد زرعی رقبہ سیراب کرسکتا ہے بلکہ سولہ فیصد بجلی کی پیداوار بھی دے سکتا ہے


قمر عباس نقوی July 17, 2018

پانی اور ہوا قدرت کے عطا کردہ دو ایسے عوامل ہیں جو کرہ عرض پر بسنے والے ہر جاندار کے لیے طرز حیات کا ضامن ہے۔ ان دو عوامل میں سب سے زیادہ اہم پانی ہے جس کے حصول کے دو اہم قدرتی ذرایع ہیں ۔ایک پہاڑوں پر ژالہ باری سے جمنے والی برف ہے جو قدرتی طور پرگلیشیرز کی شکل اختیارکرلیتے ہیں اور یہ گلیشیرز آہستہ آہستہ پگھل کر پانی کی شکل میں بہتے ہیں کہیں یہ پہاڑوں کے دامن سے ہوتا ہوا آبشارکی شکل میں رونما ہوتے ہوئے دریا میں جا گرتے ہیں ۔

پانی کا یہ طویل گردشی سفر بالآخر دریاؤں میں اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ دوسرا اہم ذریعہ زیر زمین موجود قدرتی مخفی آبی ذخائر ہیں جو قحط سالی کے وقت حضرت انسان کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے دیا گیا ایک انمول تحفہ جس کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت کی رفتارکے ساتھ انسان نے عقل ودانش اور سوجھ بوجھ سے ان قدرتی ذرایع کے استعمال کو آگے بڑھاتے ہوئے جدید میکنزم (Modern Mechanism)کا طریقہ متعارف کروایا اور یوں نہ صرف پانی ہماری خوراک کا بہترین ذریعہ بنا بلکہ سب سے بڑھ کر سستی اور بھاری مقدار میں پاور انرجی کے حصول کا ذریعہ بنا اور جس نے ہماری صنعتی پیداوار کو زندگی بخشی ۔

کسی بھی ملک کی معیشت میں زراعت بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زراعت کی ترقی واستحکام کے لیے کسی بھی ملک میں پانی کی منصفانہ اور تسلسل کے ساتھ تقسیم کے نظام کو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اس نظام کو چلانے کے لیے ہم قدرتی طور پر ڈیمزکے محتاج ہیں ۔ دنیا میں سب سے پہلے ڈیم تین ہزار قبل مسیح اردن میں تعمیر ہوا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دنیا میں کل آٹھ لاکھ ڈیمز ہیں جن میں 80 ہزار ڈیمز صرف ہمارے پڑوسی ملک چین میں ہیں ۔

ڈیم دنیا کا نہ صرف بیس فیصد زرعی رقبہ سیراب کرسکتا ہے بلکہ سولہ فیصد بجلی کی پیداوار بھی دے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ڈیم اپنے اسٹوریج کے نظام سے سیلاب سے ہونے والی جان واملاک کا بھی محافظ بن سکتا ہے۔ 1947 میں تقسیم پاک وہند کے بعد دنیا کا بہترین آب پاشی ونہری نظام پاکستان کے حصے میں آیا ۔ علاوہ ازیں پانی کے اسٹوریج اور اس کے بہاؤکوکنٹرول کرنے کی غرض سے بے شمار چھوٹے بڑے ڈیمز، بیراجز اور ہیڈ ورکس کا انمول سلسلہ وراثت میں ملا جن میں کٹزرا ، ڈھاسو، دیا میر بھاشا، مہمند، راول،خان پور، وارسک ، ڈوہر خاور ، الائی خاور،گومل زم ، سبک زئی، میرانی، حب اور دوسرے ڈیمز ملے۔

ملک کا سب سے بڑا ڈیم منگلا ڈیم جو آزاد کشمیر کی ڈسٹرکٹ میرپور کے منگلا کے مقام پر دریائے جہلم پر ورلڈ بینک اور ایشین بینک کے مالی تعاون سے برطانیہ کے انجئنیرز نے 1967 میں مکمل کیا ۔اس ڈیم کی تعمیر کے پس منظر میں 1960 میں سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان کو یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ وہ دریائے سندھ ، دریائے چناب اور دریائے جہلم کا پانی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے اور توانائی کے حصول کے لیے ان دریاؤں پر بند اور بیراجز تعمیرکر سکتا ہے۔

ان سے نہریں بھی نکال سکتا ہے، مگر ڈاڈیال اور میرپورکے مکینوں کا جذبہ حب الوطنی تو دیکھیے کہ اس کی تعمیر سے خود ان کے لگ بھگ 280 گاؤں متاثر ہوئے، جن میں ایک لاکھ دس ہزار لوگوں کو ملک کے دوسرے مقامات پر منتقل ہونا پڑا اور ان میں سے لوگوں کی بڑی تعداد کو برطانیہ کے کچھ شہروں میں مکمل سکونت کے اختیارات دیے گئے ۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1971 میں پاک بھارت کے درمیان جنگ میں بھارتی جنگی لڑاکا طیاروں نے منگلا کے مقام پر اس بند کو توڑنے کی کوشش کی تھی جوکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ کیونکہ جنگ کے دوران پانی کے ذخائر کو ہدف نہیں بنایا جاسکتا ۔

ادھر تربیلا ڈیم بنانے کا بنیادی مقصد موسم گرما میں دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہو جانے کی صورت میں اس زائد آبی ذخیرہ کو محفوظ کیا جاسکے تاکہ اس زائد پانی کو سردیوں میںآبپاشی کے لیے زیر استعمال لایا جا سکے محض اس وجہ سے کہ دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔یوں اگر ہم عالمی تناظر میں بڑے بڑے ڈیمز کی تاریخ کا مطالعہ ترتیب سے کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں دسویں نمبر پرشمار ہونے والا The Srisailem Dam, India ، نویں نمبر پر ''جونا ساگر انڈیا'' ، آٹھویں نمبر پر سوازی لینڈ کا '' ورز اسکا''، ساتویں نمبر پر ترکی کا ''اتا ترک ڈیم''، چھٹے اور پانچویں نمبر پر پاکستان کے منگلا اور تربیلا ڈیمز، چوتھے نمبر پر امریکا کا ''فورٹ پیک '' ، تیسرے نمبر پر مصر کا ''اسوان ڈیم '' ، دوسرے نمبر پر کینیڈا کا ''سنکروڈ ٹیلنگس '' اور اسی طرح دنیا میں پہلے نمبر پر شمار ہونے والا چین کا ''تھری گورجز ڈیم '' قابل ذکر ہیں گوکہ ہم اس معاملے میں خوش نصیب ہیں اور ہم رب کائنات کے بے حد شکرگذار ہیں کہ ہمارے وطن عزیزکے دو ڈیموں کا شمار عالمی شہرت یافتہ پہلے دس ڈیموں کی فہرست میں آتا ہے جب کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت جو رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے ہم سے بہت بڑی قوت ہے اس کا شمار نویں اور دسویں نمبر پر آنا غور طلب پہلو ضرور ہے۔

ان ڈیموں اور بیراجیز اور ہیڈ ورکس کا کمال ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان لگ بھگ بائیس ملین ہیکٹر قابل کاشت اراضی میں سے 19ملین ہیکٹر اراضی نہری پانی سے زیر کاشت ہوتی ہے۔ شماریاتی اعداد کے مطابق پاکستان میں 23 ہزار طویل زرخیز نہری نظام ہے ۔ صرف صوبہ پنجاب اپنی فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے مغربی دریاؤں کا پانی استعمال کرتا ہے۔ ان ڈیموں کی ماہرانہ انداز میں مناسب دیکھ بھال (Maintenance)کے فقدان نے ان ڈیموں میں بجائے پانی کا ذخیرہ ہونے کے مٹی کے ڈھیر لگ چکے ہیں اور یوں یہ ڈیم آبی ڈیم کی بجائے خاکی ڈیم بن کراس کرپشن زدہ معاشرہ کی انسانی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ سندھ کے کوٹری بیراج سے خارج ہونے والا گدلا پانی بھی ہمارے سامنے ایک واضح مثال ہے۔ اس ضمن میں دریائے سندھ ، دریائے کابل اور دریائے سوات کے کئی موزوں مقامات پر پانی کے ذخیرہ کو محفوظ بنانے کے لیے گزشتہ حکومتوں کی جانب سے کوئی مثبت اقدامات نہیں کیے جاسکے جس کی وجہ سے نہ صرف پانی کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ کسانوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

گزشتہ چند ماہ سے سوشل میڈیا پر طویل عرصے سے چاروں صوبوں کی باہمی اختلافات سے پیدا ہونے والی خراب صورتحال کی وجہ سے التوا کا شکار ''کالا باغ ڈیم'' کی تعمیر پر شوروغوغا ہے اور مستقبل میں پانی کی قلت کا شدید سامنا کرنے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے۔ بھارت نے چند دن قبل پاکستان کے خلاف کشن گنگا کیس اس دلیل کے ساتھ جیتا ہے کہ پاکستان میں ڈیم نہیں بنائے جا رہے ہیں اور پانی سمندر میں ضایع ہو رہا ہے۔

اس دلیل کی بنیاد پر بھارت نے اپنے پانیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اب تک چھوٹے بڑے ڈیم بنا لیے ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان میں بے چینی کی فضا اس وقت پیدا ہوئی جب بھارت کی طرف سے دریائے نیلم پر تعمیر ہونے والا کشن گنگا ڈیم کی تعمیر مکمل ہوئی جس کا باقاعدہ افتتاح بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کیا ۔ یاد رہے کہ بھارت میں جس دریا کوکشن گنگا کہتے ہیں پاکستان میں وہ دریائے نیلم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دریا کشمیرکے بلند وبالا پہاڑوں کے عین وسط میں سے اپنی آب وتاب کے ساتھ تیزی سے رواں دواں ہے جب کہ اس کی نشیبی سطح پہاڑکے نوک دار بھاری پتھروں سے لیس ہے، تیز رفتار پانی سے اور ان پتھروں کی موجودگی سے اس کی لہروں میں ایک خوفناک دہشت پائی جاتی ہے۔ سیاحت کے حوالے سے اس دریا کی انفرادیت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ آپ کشمیر کے کسی بھی مقام کا سفرکررہے ہوں یہ دریا آپ کا ہمسفر رہے گا۔

نہایت دشوارگزار اور خطرناک راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ دس یا پندرہ فٹ چوڑی سڑک جس کے ایک جانب بلند وبالا پہاڑ اور دوسری جانب ہزاروں فٹ کی گہرائی میں بھڑکیں مارتا ہوا دریا۔ حیران کن امر ہے کہ سڑک کے دریا والے حصے میں کسی قسم کی حفاظتی باڑ تک نہیں ہے۔ وہاں ڈرائیونگ کرتے ہوئے اپنے سے زیادہ سامنے سے آنے والے کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ (جاری ہے ۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں