پی آر ایس ایس۔1 پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ
پی آرایس ایس۔1 پاک افغان سرحد پر نظررکھنےمیں کام آئےگاتاکہ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوں تو فوراً نظروں میں آجائیں
پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے فوٹو : فائل
الیکشن کی گہماگہمی میں پچھلے دنوں سامنے آئی ایک خوش خبری ماند سی پڑگئی، حالانکہ اسے نمایاں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں خوش خبریاں کم ہی ملتی ہیں اور پژمردہ کرنے والی ضرورت سے زیادہ۔ بہرحال اچھی خبر یہ ہے کہ 9 جولائی کو پاکستان کا پہلا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ یا مصنوعی سیارہ'' پی آر ایس ایس۔1 ''(PRSS-1) خلا میں کامیابی سے بھجوا دیا گیا۔ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ مصنوعی سیاروں کی خاص قسم ہے۔ اس میں ایسے طاقتور کیمرے، ریڈار اور دیگر حساس آلات نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے زمین کے مناظر کی صاف شفاف یا ہائی ریزولیشن تصاویر لینا ممکن ہے۔دنیا میں چند ہی ممالک ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کا کنٹرول رکھتے ہیں۔اب پاکستان بھی اس خصوصی کلب کا رکن بن چکا۔
ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ عسکری اور غیر عسکری، دونوں قسم کے مقاصد میں کام آتے ہیں۔ عسکری طور پر سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر دشمن کی نگرانی کرنے اور اس پہ نظر رکھنے میں کام آتی ہیں۔ وہ ایک ملک کی فوج کو دشمن کی نقل و حرکت دیکھنے میں مدد دیتی نیز سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ اگر کوئی بھی دشمن چوری چھپے سرحد پار کرے، تو تصاویر کے ذریعے اسے شناخت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ جاسوسی و نگرانی کرانے کی صلاحیت رکھنے کے باعث ہی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ''خلا میں آنکھ'' بھی کہلاتے ہیں۔ اصطلاح میں انہیں ''جاسوس سیٹلائٹ'' کہا جاتا ہے۔غیر عسکری طور پہ اولیّں پاکستانی سیٹلائٹ وطن عزیز کے دوردراز علاقوں میں بسلسلہ قدرتی وسائل کی تلاش ارضیاتی سروے کرنے،قدرتی آفات پر نظر رکھنے ،زرعی تحقیق انجام دینے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد دے گا۔
عالمی طاقتوں مثلاً امریکا، روس، چین نے بڑی تعداد میں ریموٹ سیسنگ سیٹلائٹ خلا میں چھوڑ رکھے ہیں حتیٰ کہ ہمارا پڑوسی بھارت بھی خلا میں تیرہ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ رکھتا ہے۔ یہ مصنوعی سیارے عسکری اور غیر عسکری، دونوں لحاظ سے بھارتیوں کے کام آرہے ہیں۔ بھارت نے آخری ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ، کارٹوسیٹ 2 ای (Cartosat-2E) پچھلے سال جون میں چھوڑا تھا۔ بھارت کے سائنسی و تحقیقی ادارے مزید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھارتی فوج اپنی وسیع و عریض سرحدوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کرسکے۔
پاک فوج اپنی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کی خاطر دوست ملک، چین کے ریموٹ سینسنگ سیاروں سے مدد لے رہی ہے۔ مگر ہمارے سیکورٹی اداروں کی خواہش تھی کہ پاکستان کے پاس اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ نگرانی و جاسوسی کی اہم سرگرمی میں خود مختار ہوسکیں۔ ہر کام میں دوسروں پر انحصار قومی سلامتی کو خطرہ میں ڈال سکتا ہے۔اسی لیے مئی 2016ء میں ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ تیار کرنے کے سلسلے میں پاکستان اور چین کے مابین ایک اہم معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کی رو سے چین کے قومی ادارے، چائنا اکیڈمی آف سپیس ٹیکنالوجی نے پاکستان کے لیے جدید ترین آلات سے مزین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے کی ہامی بھرلی۔ معاہدے کے تحت اس سیٹلائٹ کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان کو منتقل ہونی تھی۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے قومی خلائی ادارے، سپارکو کے ماہرین اور ہنرمندوں نے بھی پہلے پاکستانی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔ اسی لیے پی آر ایس ایس۔1 کی کامیابی سے تکمیل وطن عزیز کی سائنسی و تکنیکی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔
سپارکو کے ماہرین نے پاک ٹیس۔1 اے (PakTES-1A) کے نام سے ایک چھوٹا تجرباتی سیٹلائٹ تیار کیا تھا۔ اسے بھی پی آر ایس ایس۔1 کے ساتھ شمال مغرب چین میں واقع جیکوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانگ مارچ۔2 سی نامی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا۔ یہ دونوں سیٹلائٹ اب اپنے متعین مدار میں گھوم رہے ہیں۔پاکستانی سائنس داں، انجینئر اور ہنرمند چاہتے تو اپنے طور پر بھی ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بناسکتے تھے۔ مگر یہ خطرہ موجود تھا کہ تجربے کی کمی کے باعث منصوبہ ناکام ہوجائے۔ یوں کروڑوں روپے ضائع ہوجاتے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے ہی ضروری سمجھا گیا کہ پاکستانی سائنس داں و انجینئر چینی ہنرمندوں کے ساتھ کام کرکے پہلے تجربہ و مہارت حاصل کرلیں۔ اس کے بعد وہ اپنے وسائل سے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بنانے پر قادر ہوجاتے۔
پی آر ایس ایس۔1 بارہ سو کلو وزنی سیٹلائٹ ہے۔اب یہ 640 کلو میٹر کی بلندی پر فضا میںگھوم رہا ہے۔ اس کی تیاری پر چوبیس ارب چھبیس کروڑ روپے لاگت آئی۔ اس رقم کا ''70 فیصد'' سرمایہ چین نے فراہم کیا جو قسطوں کی صورت پاکستان کو لوٹانا ہے۔ یاد رہے، پاکستان اس قسم کا جدید ترین ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کسی مغربی ملک مثلاً جرمنی یا فرانس سے خریدتا تو خریداری پر کم از کم پینتالیس ارب روپے خرچ ہوجاتے۔ پی آر ایس ایس۔1 سات برس تک پاکستان کی عسکری و غیر عسکری ضروریات پوری کرے گا۔
پی آر ایس ایس۔1 تین بنیادی آلات رکھتا ہے... پنچرو میٹک کیمرا(panchromatic)، ملٹی سپیکٹل کیمرا(multispectral) اور سینیتھک اپرچر ریڈار(synthetic aperture radar) ۔دونوں کیمرے ہائی ریزولیشن تصاویر اتارنے میں کام آتے ہیں۔ جبکہ ریڈار ان تصاویر کو دو یا تین سہ العبادی (dimensional) صورت دیتا ہے۔ زمینی اسٹیشن پر بیٹھا پی آر ایس ایس۔1 کو کنٹرول کرنے والا عملہ درج بالا آلات کے ذریعے پاکستان کے کسی بھی علاقے کی صاف شفاف تصاویر حاصل کرسکتا ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، پی آر ایس ایس۔1 سے خصوصاً پاکستانی سرحدوں کی نگرانی و جاسوسی کرنا بھی ممکن ہے۔آج دنیا بھر میں انٹیلی جنس یا شعبہ جاسوسی بہت ترقی یافتہ ہوچکا اور وہ کئی مرحلے یا تہیں رکھتا ہے۔ ایک مرحلہ سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر اور دیگر ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اصطلاح میں جاسوسی کا یہ مرحلہ ''تصویری انٹیلی جنس'' (imaging intelligence) کہلاتا ہے۔ بھارت سمیت دیگر سپرپاورز ایسے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ بھی تیار کرچکیں جن میں کیمرے نہیں صرف ریڈار نصب ہیں۔ یہ ریڈار زمین سے آنے والی مختلف برق مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) شعاعیں پکڑ کر تصویری ہیت بناتے ہیں۔
پاک افغان سرحد پر نظر
پی آر ایس ایس۔1 خصوصاً پاک افغان سرحد پر نظر رکھنے میں کام آئے گاتاکہ وہاں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوں تو فوراًنظروں میں آ جائیں۔یہ عمل دراصل بدلتی جیو پولیٹکس یا جغرافیائی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ یہ نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے کہ وہ امریکا کی چھیڑی تمام جنگیں ختم کردیں گے، مگر وہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکے۔ وجہ یہ کہ امریکی فوج ان پر حاوی ہوچکی۔امریکی جرنیل جغرافیائی اہمیت کے باعث افغانستان کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہیں۔ اس مملکت کے ساتھ دو ایٹمی قوتوں (چین، پاکستان) کی سرحدیں لگتی ہیں۔ مستقبل کی ایٹمی قوت (ایران) بھی اس کی پڑوسی ہے۔دو اور ایٹمی قوتیں، روس اور بھارت بھی نزدیک ہی آباد ہیں۔ نیز قدرتی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیا بھی افغانستان کے پچھواڑے واقع ہے۔ لہٰذا امریکی فوج اس ملک کو جغرافیائی سیاست کے حوالے سے نہایت اہم سمجھتی ہے اور اسے ہرگز خیرباد نہیں کہنا چاہتی۔
مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوج افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دے سکی۔ اس ناکامی کے باعث امریکا میں مختلف دانشور اور عوام بھی اپنے حکمران طبقے پر گرجتے برستے رہتے ہیں۔ اکثر صدر ٹرمپ پر شدید دباؤ پڑجاتا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج واپس بلوالیں مگر امریکی جرنیل ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔
افغانستان میں اپنی فوج ٹھہرانے کی خاطر امریکی جرنیلوں نے حال ہی میں نئی چال چلی ہے۔ وہ یہ کہ داعش کو افغان طالبان کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس چال سے امریکی جرنیل کئی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دونوں گروہوں کی لڑائی سے طالبان کمزور ہوجائیں۔ دوم اس خانہ جنگی سے امریکی فوج کو افغانستان میں مذید قیام کا بہانہ مل جائے گا۔ امریکی فوج مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہی ہے کہ اگر امریکا افغانستان سے رخصت ہوا، تو وہاں بستے جنگجو دوبارہ امریکی و یورپی مفادات کے خلاف سرگرم ہوجائیں گے اور امریکی عوام پر بھی حملے کریں گے۔
داعش یا امارات اسلامیہ کو عراق و شام میں شکست ہوچکی۔ اس شکست میں روس اور ایران نے اہم کردار ادا کیا۔ داعش میں ہزاروں غیر ملکی جنگجو بھی شامل تھے۔ اب خبریں ہیں کہ امریکی ہیلی کاپٹر عراق و شام سے ان غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان لارہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس مملکت کو داعش کا نیا ہیڈکوارٹر بنایا جاسکے۔عالم اسلام میں سرگرم جنگجوؤں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنا امریکا نے وتیرہ بنالیا ہے۔ اس عمل کی باقاعد ابتدا سویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ سے ہوئی۔ تب امریکا افغان مجاہدین اور القاعدہ جیسی جنگجو تنظیموں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرتا رہا۔ جب 1989ء میں سویت فوج تھک ہار کر واپس گئی اور خصوصاً القاعدہ مقبوضہ کشمیر، چیچنیا، بوسنیا، فلسطین، فلپائن میں متحرک ہوئی تو امریکی اس کے مخالف بن گئے۔ وہ اپنے مفادات کو کسی قیمت پر زک پہنچتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
القاعدہ اور امریکی جرنیلوں کا ٹکراؤ بڑھا اور اس نے عالم اسلام اور مغرب کے کئی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آخر امریکا جدید ترین اسلحے اور جاسوسی و کھوج کی اعلیٰ صلاحیتوں کے باعث القاعدہ کو تباہ کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن 2013ء میں القاعدہ نے صدر شام بشارالاسد کے خلاف اعلان جنگ کیا، تو امریکی اس کے سرگرم جنگجوؤں کو سرمایہ و اسلحہ فراہم کرنے لگی۔ وجہ یہی کہ امریکا بشارالاسد کے خلاف تھا۔ اس مثال سے عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہر قسم کی جائز و ناجائز سرگرمیاں اپنا سکتا ہے۔
جب لیبیا میں القاعدہ اور دیگر جنگجو گروہ صدر معمر قذافی کے خلاف سرگرم ہوئے، تو امریکا نے انہیں بھی سرمایہ و اسلحہ فراہم کیا۔ امریکی حکمران صدر قذافی سے نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ خصوصاً افریقی ممالک کو امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کے خلاف ابھارتے تھے۔ امریکا اور فرانس کی مالی و عسکری مدد ہی سے جنگجو قذافی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوسکے۔آج امریکی جرنیل افغانستان میں ایک نئے خفیہ کھیل کی ابتدا کرچکے۔ اب امریکی چوری چھپے وہاں داعش کے بچے کھچے جنگجو لاکر انہیں سرمایہ و اسلحہ دے رہے ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات پورے کرسکیں۔اکثر جنگجو سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اہم نظریاتی یا مذہبی ذمے داری پوری کررہے ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ امریکی جرنیل انہیں اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک طالبان کے بیشتر عناصر بھی داعش کا حصہ بن چکے۔ جب گیارہ سال قبل یہ تنظیم قائم ہوئی تب بہرحال وہ نظریاتی جنگ لڑرہی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ تنظیم بھارت کی پراکسی یا خفیہ کٹھ پتلی بن گئی۔ اس نے پھر پاکستانی قوم اور سیکورٹی اداروں پر خوفناک حملے کیے۔ تاہم پاک فوج کی زبردست فوجی مہمات نے پاکستان تحریک طالبان کی کمر توڑ کر رکھی دی۔ چناں چہ اب تنظیم کے جنگجو امریکا و بھارت کی نئی پراکسی، داعش کا حصہ بن رہے ہیں۔روایتی طور پر پاکستان افغان طالبان سے قربت رکھتا ہے۔ اسی لیے داعش مملکت پاکستان کے خلاف بھی سرگرم ہوچکی۔ حال ہی میں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستانیوں پر ہوئے بیشتر حملے داعش ہی نے مقامی دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے کرائے۔ گویا پاک فوج اور پاکستانی قوم کے سامنے ایک نیا دشمن نمودار ہوچکا۔
افغان حکومت امریکی فوج کی کٹھ پتلی ہے، اس لیے وہ داعش کی راہ نہیں روک سکتی۔ چین، روس اور ایران بھی آگاہ ہیں کہ امریکا، بھارت اور افغان حکومت پر مشتمل ٹرائیکا اپنے مقاصد کے لیے داعش کو افغانستان میں طاقتور بنارہا ہے۔ چونکہ اس جنم لیتے دیو سے انہیں بھی خطرہ ہے، اس لیے وہ داعش سے نمٹنے کی خاطر پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں چاروں ممالک کے انٹیلی جنس سربراہوں کا اجلاس ہوا جو ایک زبردست اور تاریخی واقعہ ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث خطے میں نئی گریٹ گیم شروع ہوچکی۔پاکستان کے لیے اس نئے خفیہ کھیل میں فوائد مضمر ہیں اور خطرات بھی، جن پر پھر کبھی تفصیلی بات ہوگی۔اس گریٹ گیم کے خطرات سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان پی آر ایس ایس۔1 جیسے مزید ریموٹ سینسنگ سیارے فضا میں بھجوائے۔ اس طرح وہ چوبیس گھنٹے اپنی مشرقی اور شمالی سرحدوں پر ہوشیاری سے اور چوکنے انداز میں نظر رکھ سکے گا۔