کچھ شاعرعباس اطہر کے بارے میں
نئی شاعری اصل میں یہ ہے جو ہمارے ساتھ نمودار ہوئی ہے۔ ان میں ایک چہرہ وہ بھی تھا جو عباس اطہر کے نام سے جانا گیا تھا۔
میرے سامنے اس وقت عباس اطہر کی کلیات کھلی رکھی ہے۔ ''آواز دے کے دیکھ لو''۔ کتنی مختصر کلیات ہے، صفحات246۔ اس میں شاعر کے تین مجموعے شامل ہیں۔ دن چڑھے، دریا چڑھے۔ 'کہا سہا'۔ 'ذکر'۔
الٹ پلٹ کر دیکھ رہا ہوں۔ یہ مجموعہ مجھے کب موصول ہوا تھا۔ عباس اطہر کے دستخط ہیں مگر تاریخ درج نہیں ہے۔ ہاں سن طباعت ضرور درج ہے۔ یہ مجموعہ 2000ء میں شایع ہوا تھا۔ میں حیران ہوتا ہوں۔ یہ تو وہ زمانہ ہے جب عباس اطہر کی صحافت کا ستارہ عروج پر تھا۔ شاعری بہت پیچھے رہ گئی تھی بلکہ لگتا تھا کہ صحافی عباس اطہر اپنی شاعری کو لڑکپن کی غلط کاریوں میں شمار کر کے فراموش کر چکا ہے۔ مگر شاعری ایسی نامراد چیز ہے کہ شاعر بیشک اسے فراموش کر دے۔ وہ فراموش نہیں ہوا کرتی۔ کسی نہ کسی وقت پلٹ کر آتی ہے اور یاد دلاتی ہے کہ تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو مگر اس سوکن صحافت سے پہلے میں ہی تیری ہمدم و دمساز تھی۔
یاد آتا ہے کہ جب یہ کتاب موصول ہوئی تھی تو الٹ پلٹ کر دیکھا اور رکھ دیا کہ اچھا کسی بھلی گھڑی میں اس مرحوم شاعر کو دیکھیں گے۔ وہ گھڑی اب آئی ہے جب واقعی وہ مرحوم ہو چکا ہے، میں ابتدا سے یہ مجموعہ دیکھ رہا ہوں اور رفتہ رفتہ کر کے مجھے ٹی ہاؤس کا وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب نئی شاعری کے مدعی بن کر نوجوانوں کا ایک پورا غول دندناتا ہوا یہاں داخل ہوا تھا۔ یہ نوجوان اونچی اونچی آواز میں اپنی آمد کا اعلان کر رہے تھے۔
نئی شاعری اصل میں یہ ہے جو ہمارے ساتھ نمودار ہوئی ہے۔ ان میں ایک چہرہ وہ بھی تھا جو عباس اطہر کے نام سے جانا گیا تھا۔ مگر میں نے اسے بولتے ہوئے اور بحث کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ شروع میں بہت شرمیلا تھا۔ صحیح کہا۔ واقعی ایسا لگتا تھا کہ اس نے اپنی طرف سے بولنے اعلان کرنیکا کام اپنے مرشد افتخار جالب پر چھوڑ دیا ہے۔ پہلے مجموعہ کا دیباچہ بھی اسی عزیز کا لکھا ہوا ہے۔
میں نظمیں پڑھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ آخر شاعر کیا کہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر یہ نئی شاعری ہے۔ نئی شاعری میں معنی بندھے ٹکے انداز میں برآمد نہیں ہوتے۔ تاریخی یا تہذیبی، یا داستانی حوالوں سے اگر وہ یہاں روا رکھے گئے ہیں۔ اشارے لے کر معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ لو یہ تو اصحاب کہف کا حوالہ آ گیا ؎
جب وہ سات سو سال کے بعد باہر نکلا
پرانے سکے بدل چکے تھے
کیک پیسٹریوں نوٹوں اور اٹھنیوں پر نئے کتے کی تصویر تھی اور یہ تو وہی پرانی کہانی ہے۔ دیو کی قید میں شہزادی، شہزادہ اسے تلاش کرتا یہاں آن پہنچا ہے؎
کسی رات جب شہزادی آپے سے باہر آئے
بوڑھے دیو کے سر پر آگ جلائے
دیو پہاڑوں کی دونوں چوٹیاں تھام کے جست لگائے پھر بھی منہ کی کھائے
شہزادے نے پہلی جست میں چاند ستارے نوچ لیے
صبح کو اخباروں کے ہاکر چیخ رہے تھے اس سے معنی کیا برآمد ہوئے۔ معنی کا معاملہ تو نئی شاعری میں ایسا ہی ہے کہ کسی ایک امیج، ایک علامت کے اردگرد منور ہوئے۔ نئے معنی برآمد ہوتے نظر آئے۔ مگر اے لو معنی پھر غائب ہو گئے۔
اب اندھیرا ہے۔ مگر نئی شاعری میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ بیچ میں کوندا سا لپکا۔ پھر اندھیرا۔
مگر یہ شاعری جدیدیت کے مراحل سے گزرتے گزرتے کسی اور راہ پر مڑ جاتی ہے۔ اب عباس اطہر ٹی ہاؤس سے دور نکل گیا ہے اور جو شعری فیشن یہاں اپنے عروج پر تھے ان سے بھی کترا کر چلتا نظر آ رہا ہے۔ اس بندۂ خدا نے پھر مڑ کر ٹی ہاؤس کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ کہاں پہلے یہاں مستقل ڈیرا تھا۔ کہاں اب اتنی غیریت کہ بھولے سے بھی ادھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور اب خالی صحافت کا معاملہ نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تو عباس اطہر کا بھی رنگ سیاست بدل گیا۔ اسے اس قسم کی قید و بند سے بھی سابقہ پڑا جہاں عقوبت خانہ ہوتا تھا اور اس کے حساب سے اذیتوں کا سامان بقول غالب؎
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
اس کے ساتھ ہی شاعری کا رنگ بدل گیا۔ اب پشت پر ایک جان لیوا سچا تجربہ ہے۔ وہ اسے کسی اور ہی رنگ کی شاعری کی طرف لے گیا۔ حسین نقی کے خیال میں یہ مجموعہ شعر ''ایک رزمیہ ڈرامے کا حصہ ہے منظوم حصہ ہے جو کلائمکس سے گزر کر ڈراپ سین تک پہنچنے کے واقعات سے متعلق ہے''۔ میرے حساب سے یہ مجموعہ نئے مرثیوں کا مجموعہ ہے؎
لاش مصلے میں لپٹی ہے
روز موذن مرثیے پڑھتے ہیں
اور مسجد میں مجلس برپا ہوتی ہے
اور نمازی انگاروں پر ماتم کر کے
خون آلود مصلے چھوڑ کے
مٹی پر سجدہ کرتے ہیں۔
............
سچ جس کو معلوم تھا
تپتے صحرا میں پیاسا ہے
اور اس کا سر کٹ چکا
خیمے بھی لٹ چکے
............
خون شہیداں سے لتھڑے ہوئے سال
تم مٹ رہے ہو
مگر ڈوبتے ڈوبتے
آخری ہچکیاں لیتے لیتے
ادھر سے گزرنا جہاں موت کی کوٹھری کی سلاخوں کے پیچھے وہ صبحوں کا سورج چھپایا گیا تھا
گزرتے ہوئے اس کا دیدار کرنا
وہ اس کربلا کا حسین
وہ موجود ہے اور پھر سے طلوع ہونے والا ہے
یہ مرثیے تو ضرور ہیں۔ مگر ان مرثیوں کا رنگ ہمارے روایتی مرثیوں سے بہت مختلف ہے۔؎
تو اس نے کہا، آج اور آج کے بعد کوئی نہ روئے
کہ میں اپنی ماں کی گواہی پہ آیا ہوں
مریم کے اور فاطمہ کے کٹہرے سے
دنیا کو آواز دیتا ہوں
پہچان لو، آج دیکھو کہ میں کون ہوں اور تم کون ہو، یہ خطبہ کئی منزلوں سے گزر کر اس مرحلہ میں ہے کہ؎
میں ہر نسل کے ساتھ آتا ہوں
اور قتل ہوکر زمینوں سے اٹھتا ہوں
اور کربلاؤں میں نیزوں پہ سر رکھ کے خوشیاں مناتے ہوئے لشکروں پر غضب بن کے گرتا ہوں۔
پھر اجڑے خیموں میں گزرے ہوئے وقت واپس بلاتا ہوں
پھیلے ہوئے خالی ہاتھوں پہ پھول اور گیہوں لٹاتا ہوں۔
کہاں تک نقل کروں۔ یہ تو سب ہی مرثیے منتخب ہیں۔ عباس اطہر نے کمال کیا ہے۔ اس روایتی صنف میں کسی طرح نئی روح پھونکی ہے۔ کس طرح سے اسے کربلا سے گزار کر ایسے ہماری نئی کربلاؤں تک لایا ہے۔
عباس اطہر اپنی شاعری کو بھول گیا تھا۔ مگر شاعر نے اگر واقعی شاعری کی ہے تو اسے یکسر فراموش نہیں کر سکتا۔ تو کچھ تو عباس اطہر کو خیال آیا ہوگا کہ اس نے ایک زمانہ گزرنے کے بعد پھر ان بکھرے ہوئے اوراق کو یکجا کیا اور اب وہ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ اسے سنجیدگی سے دوبارہ پڑھیں۔
عباس اطہر نے صحافت میں بہت نام پیدا کیا۔ اور ایسا ویسا نام۔ اس کی بنائی ہوئی ایک سرخی اس طرح مشہور ہے جیسے کسی بڑے شاعر کا لکھا ہوا منتخب شعر شہرت پاتا ہے۔ اس کے باوجود میرا احساس یہ کہتا ہے کہ آخر میں اس کی شاعری ہی اسے بخشوائے گی۔
اور اس کی نئی شاعری بھی یہ کہتی نظر آ رہی ہے کہ بھلی گھڑی میں مجھے دوبارہ پڑھو۔ جو مقامات گرفت میں نہیں آ پائے وہ اپنے معنی خود بتائیں گے۔ یہ کمبخت نئی شاعری اپنے قاری سے تقاضے بہت سخت کرتی ہے۔