سب کے لیے قابل قبول انتخابات
ملک کے سنجیدہ و باشعور حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ کیسے انتخابات ہیں کہ سارا میلہ پنجاب میں لگا ہوا ہے۔
جیسے جیسے الیکشن کا دن قریب آ رہا ہے کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی تیزی آ رہی ہے، گزشتہ جمعے کو کراچی کے حلقہ NA-254 اے این پی امیدوار صادق زمان خٹک کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا نتیجتاً وہاں الیکشن ملتوی ہو گیا ایک روز بیشتر برنس روڈ پھر ایک دن بعد ایم کیو ایم کے دفتر 90 کے قریب دو دھماکے کیے گئے جس میں 3 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہو گئے، تیزی سے بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کے باعث سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے جب کہ پنجاب میں مکمل امن ہے وہاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی انتخابی مہم میں تیزی آتی جا رہی ہے میاں برادران اور عمران خان زمینی حقائق سے بے پرواہ اور باقی تین صوبوں کے حالات کی سنگینی اور امکانی خدشات سے بے نیاز خواہشوں کے گھوڑوں پر سوار اپنی اپنی کامیابی اور ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لیے قوم کو ''سبز باغ'' دکھانے اور تبدیلی و انقلاب لانے کے بلند بانگ دعوے کرنے میں مگن ہیں کہ 11 مئی کے بعد وزارت عظمیٰ بڑے میاں صاحب اور عمران خان کی جھولی میں آ گرے گی کیا قومی سطح کے لیڈر کی یہی پہچان ہوتی ہے؟ خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں لگا سکتا جاگتی آنکھوں سے ہر شخص کو اپنی مرضی کے خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے لیکن ایک لمحہ ٹھہر کے ایسے خوابوں کی تعبیر پر بھی جاگتے اذہان سے غور و فکر کرایا جائے تو حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔
ملک کے سنجیدہ و باشعور حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ کیسے انتخابات ہیں کہ سارا میلہ پنجاب میں لگا ہوا ہے اور بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ بالخصوص کراچی میں دہشت گرد عناصر نے بربریت و بہیمیت کا بازار گرم کر رکھا ہے، خودکش بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے امیدواروں، کارکنوں اور ہمدردوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اعتدال پسند سیاسی قوتوں کو دیوار سے لگانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ملک کی بڑی اور مقبول سیاسی جماعتوں پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو سبوتاژ کرنے کا گیم پلان تیار کیا جا رہا ہے۔
کیا ایسے پرتشدد اور خون آلودہ ماحول میں جہاں مذکورہ تینوں سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنی انتخابی مہم چلانے سے قاصر ہوں ان کے ووٹرز اور سپورٹرز خوفزدہ ہو کر گھروں تک محدود ہو جائیں اور پولنگ اسٹیشن ویران پڑے ہوں، منصفانہ و شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا ایسے لہو رنگ انتخابات کے نتائج کو پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کھلے دل سے تسلیم کر لیں گی یہی وجہ ہے کہ ملک کے سنجیدہ اور دانشور حلقے 11 مئی کے انتخابات کے حوالے سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کر رہے ہیں سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی جناب شمشاد قریشی نے راقم کو بتایا کہ دہشت گردی کی وارداتوں اور خونریز کارروائیوں کا مقصد ملک کی اعتدال پسند سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے باہر کرنا ہے بالخصوص پی پی پی جو ملک کے چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے، اسے پارلیمنٹ سے آؤٹ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن آپ دیکھیے گا کہ 11 مئی انتہا پسندوں کی شکست اور جمہوریت پسند قوتوں کی فتح کا دن ہو گا۔ ملک کے تمام محب وطن اور جمہوریت پسند حلقے کم و بیش اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
راقم نے اپنے 22 اپریل کے کالم میں لکھا تھا کہ ''بلاشبہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پہلی ترجیح ملک کے چاروں صوبوں میں تشدد سے پاک پرامن ماحول میں غیر جانبدارانہ، منصفانہ، آزادانہ اور ایسے شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جس میں انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو بلاتفریق شرکت کے مواقعے ملیں اور انتخابی عمل میں دھاندلی کا عامل نظر نہ آئے، تمام جماعتیں انتخابی نتائج کو صدق دل سے تسلیم کریں، ملکی و غیرملکی مبصرین و تجزیہ نگار اور ہمارا آزاد میڈیا بھی انتخابات کی ''شفافیت'' پر مہر تصدیق ثبت کر دے ہمارے روایتی تنقیدی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بظاہر ایسا ''تاریخی الیکشن'' کرانا موجودہ ماحول میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے''۔
اب الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے بھی صاف لفظوں میں یہی بات کہی ہے کہ امن و امان کے بغیر شفاف الیکشن ممکن نہیں، حکومت امن دے ہم شفاف الیکشن دیں گے گویا کہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کو امن و امان کے قیام سے مشروط کر کے اپنا دامن بچا لیا اور گیند نگراں حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ہر چند کہ نگراں حکومت، فوج اور سکیورٹی کے ذمے دار ادارے ملک میں قیام امن کے لیے کوشاں ہیں صدر آصف علی زرداری، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اپنے طور پر امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کی مقدور بھر کاوشیں کر رہے ہیں لیکن دہشت گرد عناصر کا نیٹ ورک توڑنے میں سیکیورٹی ادارے پوری طرح کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں دہشت گردوں نے آگ و خون کا الاؤ روشن کر رکھا ہے۔
نگراں وزیر اعظم میر ہزا خان کھوسو نے قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں دہشت گردی کے واقعات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کی شدید مذمت کی ہے تاہم انھوں نے امن و امان کے قیام کو صوبائی حکومت کی ذمے داری قرار دے کر وفاقی حکومت کے سر سے بوجھ اتار دیا۔ بہرحال کھوسو صاحب نے قوم کو یقین دہائی کرائی ہے کہ نگراں حکومت کی مدت میں کسی صورت کوئی توسیع نہیں ہو گی اور انتخابات ہر صورت 11 مئی کو ہی منعقد ہوں گے اور اقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔
11 مئی کو ہونے والے انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ الیکشن مہم میں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے خلاف دہشت گردی و سفاکانہ کارروائیوں اور ملک کے تین صوبوں میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پر نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرونی دنیا میں بھی تشویش و تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے پاکستان میں یورپی یونین الیکشن جائزہ کار کے سربراہ اور یورپی پارلیمان کے رکن مائیکل گاہلر نے پر زور الفاظ میں حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ مخصوص سیاسی جماعتوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں روکی جائیں اور انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں و شہریوں کے جان و مال اور جمہوری عمل کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ادھر صدر آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس کراچی میں نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس زاہد قربان علوی سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ جو عناصر انتخابات ملتوی کرانے کی سازشیں کر رہے ہیں انھیں بھرپور طریقے سے ناکام بنا دیں گے صدر نے نگراں حکومتوں سمیت تمام متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کیں کہ کراچی سمیت ملک بھر میں انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے تحفظ اور پر امن انتخابات کے انعقاد کے لیے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے جائیں۔ صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر یہ بات طے سمجھی جائے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر شفاف، آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایسے انتخابات کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔