انقلاب عرب تاریخی تناظر میں
قومی اثاثوں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جن کے باعث شام کی معیشت کی فطرت ہی یکسر تبدیل ہو کے رہ گئی۔
''تاریخ میں کیا ہوا؟'' نامی کتاب میں برطانیہ کے معروف مارکسی تاریخ داں گورڈن چائیلڈ (جس کا ترجمہ ڈاکٹر ظفر عارف نے کیا ہے) نے کہا کہ ازمنہ وسطیٰ کے عہد میں عالم عرب کے علاقے، خطے اور شہروں کے مشہور ناموں میں میسوپوٹیما، سیریا اور بابل و نینوا کی خصوصی اہمیت حاصل تھی جس کا دارالخلافہ دمشق تھا۔
دمشق یونیورسٹی میں دور جدید کی پی ایچ ڈی کی مساوی ڈگری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلبہ آیا کرتے تھے۔ آج وہی شام خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ کر جہنم بنا ہوا ہے۔ موجودہ معروضی حالات کی کیفیت میں ہمیں شام کے انقلاب کی مخصوص کیفیتوں کو جانچنا اور پرکھنا ہو گا۔ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہو گا کہ انقلاب کی بنیاد ہے کیا؟ اس عمل کی عمل انگیزی تو مصر اور تیونس سے ہوئی اور نوجوان خاص طور پر وہاں کے واقعات سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے بہت بڑی سرگرمیاں بھی کر کے دکھائیں۔ لیکن اس دوران ہی وہاں ایک پراعتماد قسم کی بے نیازی بھی موجود تھی۔
مصر اور تیونس کے تجربات سے یہ اس خیال میں رہے کہ مظاہروں اور چوکوں پر دھرنوں سے ہی بشار الاسد کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اپنی تحریک میں تو یہ لوگ بہت جرأت مند اور سرشار تھے لیکن یہ حکومت کو گرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ بجائے حکومت کا خاتمہ ہوتا یہ اور بھی وحشی اور خونخوار ہوتی چلی گئی، وہ بھی اس حد تک کہ مزاحمت کرنے والوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ شام کی موجودہ کیفیت کو جانچنے کے لیے ہمیں اس تبدیلی کو دیکھنا سمجھنا ہو گا جو پچھلے عرصے کے دوران شامی معیشت میں وقوع پذیر ہوئی۔
اس دوران قومی اثاثوں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جن کے باعث شام کی معیشت کی فطرت ہی یکسر تبدیل ہو کے رہ گئی۔ صنعت اور دوسرے معاشی اثاثے 1960ء کی بغاوت کے بعد سے قومی تحویل میں لے لیے گئے تھے۔ اس کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس مذکورہ بغاوت کے بعد جو حکومت برسراقتدار آئی وہ ایک جمہوری سوشلسٹ کے بجائے آمرانہ حکومت تھی۔ یہ ایک ایسی طرز حکمرانی تھی کہ جس میں معیشت کا بھاری حصہ رہائشی ملکیت اور مرتکز منصوبہ بندی کا حامل تھا لیکن اس سب میں کہیں بھی مزدور جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
بنیادی طور پر حکومت روس کی آمرانہ ماڈل پر قائم و دائم رہی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے شامی حکومت نے چین کی طرز معیشت کی طرف دیکھنا اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ قومیائے گئے صنعتی ادارے نجکاری میں دے دیے گئے لیکن ان کے مالکان بھی کہیں باہر سے نہیں بلکہ خود حکومت کے اندر سے ہی سامنے آئے۔ یہ سلسلہ 1991ء سے شروع ہوا لیکن گزشتہ دہائی میں عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اگر ہم 2001ء سے 2005ء کے 9 ویں پانچ سالہ منصوبے کا 2006ء سے 2010ء کے منصوبے کے ساتھ موازنہ کریں تو حسب ذیل صورت حال سامنے آتی ہے۔
اس عشرے میں پہلی نصف مدت کے دوران پبلک سیکٹر حاوی رہا لیکن اس دوران ریاست کے زیر انتظام اداروں کے کام کے طریقوں میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ان کو ایسے ریاستی سرمایہ دارانہ اداروں میں ڈھال دیا گیا جو کہ منڈی کی معیشت کی طرز اور تقاضوں کے مطابق کام کرتے ہیں نہ کہ منصوبہ معیشت کے تقاضوں کے۔ عشرے کے دوسرے حصے میں نجی شعبے نے اپنی سبقت ظاہر اور قائم کرنی شروع کر دی۔ 2007ء تک معیشت کا 70 فیصد نجی ہاتھوں میں جا چکا تھا۔ اس سارے کھیل نے شام کی عمومی زندگی پر شدید اثرات مرتب کیے، جس کی وجہ سے سماجی تطہیر میں شدت آنی شروع ہو گئی۔ علوی حکمراں ٹولے سے وابستہ افراد پر مبنی ایک نئی اشرافیہ ابھر کر سامنے آئی جب کہ دوسری طرف غربت کی شرح میں اضافے نے سماج میں ایک الگ کیفیت ابھار دی۔
2005ء میں30 فیصد لوگ (53 لاکھ) غربت کی شرح کے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اور ان میں سے بھی 20 لاکھ افراد کو خوراک کی فراہمی بھی میسر نہیں تھی۔ 2000ء کی دہائی شروع ہوتے ہی افراط زر نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ 2003ء میں یہ 1.3 سے بڑھ کر 2007ء میں 18 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ بنیادی غذائی اشیاء کی قیمتوں میں 60 فیصد سے بھی اضافہ ہوا، ناخواندگی جو کہ ماضی میں قصہ پارینہ بن چکی تھی پھر سے منظر عام پر آئی اور پھلنا پھولنا شروع ہو گئی۔ بائیں بازو کے کئی دوست اس بات کو تہہ تک سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شام میں دراصل کیا ہو رہا ہے۔ وہ معاملات کو صرف سیاہ و سفید میں دیکھنے کے عادی ہیں کہ یا تو انقلاب ہو رہا ہے یا پھر رد انقلاب، یا تو سامراجیت یا پھر سامراج مخالف کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ''عرب بہار کے بعد اسلامی سرما شروع ہو چکا ہے'' انھیں عوام رجعتی، رد انقلابی، پسماندہ اور نہ جانے کیا کیا کچھ نظر آتے ہیں۔
وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کس طرح سے ایک انقلابی عمل راستہ بھٹک سکتا ہے اور ایک مختلف سمت میں بھی چلا جاتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے اور ہمیں لازمی سمجھنا ہو گا کہ جدلیاتی مادیت کیا ہوتی ہے اور کیسے کار فرما ہوتی ہے، تب جا کر ہمیں اس جاری عمل کی حرکیات کی سمجھ بوجھ سہل ہو سکے گی۔ یہ کسی طور پر ایک سیدھا عمل نہیں ہے اور صورت حال اپنی ضد یا مخالف میں بھی بدل جاتی ہے۔ ایک بار پھر ایک داخلی عنصر کی غیر موجودگی ان ساری خرابیوں کو سمجھنے کا مرکزی نکتہ ہے۔ شام میں موجودہ حکومت کی بربریت کی کیفیت میں یہاں کوئی موثر انقلابی فکری ہم آہنگی کو مربوط کرنا مصر سے کہیں زیادہ کٹھن عمل تھا۔
ان حالات میں شام کے اندر انقلاب ابھر کر سامنے آیا جس کی بائیں بازو نے حمایت کی۔ جو بات یہاں سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بلاشبہ انقلاب ابھرتے ہیں اور عوام ان میں متحرک بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ یہ کامیاب بھی ہوں گے۔ اگر یہ سب کیفیات مل بھی جائیں لیکن ایک انقلابی فکری ہم آہنگی کا وجود نہ ہو تو انقلاب ردانقلاب میں بھی بدل جاتا ہے۔ اس وقت شام میں امریکا، روس، سعودی عرب، ایران اور ترکی مداخلت کر رہے ہیں۔ اب صورت حال ایک وحشی خانہ جنگی میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اس قسم کی کیفیت میں اسلامی بنیاد پرست گروہ بھی دراندازی کر چکے ہیں جن میں سعودی عرب، قطر اور دوسری حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی عناصر ہیں جو کہ علویوں اور عیسائیوں وغیرہ کے قتل عام کے ذمے دار ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی طور انقلابی قوت نہیں ہیں۔ ان کا ہدف اور مقصد نسلی و مسلکی تضادات کو جنم اور فروغ دینا ہے۔ ان کی وجہ سے کئی لوگ دوبارہ سے بشار کے حامی بن چکے ہیں۔
ہم بھی چاہتے ہیں کہ بشار کا اقتدار ختم ہو لیکن ہم کسی طور بھی کبھی بھی ان رد انقلابی قوتوں کی رتی برابر حمایت نہیں کر سکتے۔ ہم سامراجی جارحیت اور مداخلت کے خلاف ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی ہم رجعتی اور رد انقلابی حزب اختلاف کے بھی خلاف ہیں کہ جن کا نہ تو محنت کش طبقے سے کوئی تعلق یا واسطہ ہے نہ نوجوان سے اور نہ ہی یہاں کے غریبوں سے۔ شام کے عوام کی حقیقی آزادی تب ہی حاصل ہو گی جب شام سمیت عالم عرب ایک غیر طبقاتی سماج تشکیل پائے گا۔ جہاں رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر سرحدوں کو توڑتے ہوئے ایک خود کار امداد باہمی کا معاشرہ قائم ہو گا، کوئی ارب پتی ہو گا اور نہ کوئی گداگر۔