بد قسمت ترین اور ترین

اس کی ’’ زلفیں ‘‘ کبھی تھیں ہی نہیں پرانے ’’سکوں ‘‘ پر جن بادشاہوں کے تھوبڑ ہوتے تھے


Saad Ulllah Jaan Baraq July 19, 2018
[email protected]

وہ ایسا ہے کہ سب کچھ پیسا ہے بلکہ صرف ایسا ہی نہیں بلکہ جہاں کہیں کوئی ایسا ہے یا ویسا ہے یا جیسا ہے وہ پیسے کا '' کسیہ '' ہے گویا

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

حالانکہ اس کی '' زلفیں '' کبھی تھیں ہی نہیں پرانے ''سکوں '' پر جن بادشاہوں کے تھوبڑ ہوتے تھے وہ بھی اکثر گنجے اور فارغ البال ہوتے تھے۔ ارے یہ تو کمال ہو گیا شاید اسی لیے خزانے کو '' گنج '' کہتے ہیں، اب گنج گیراں مایہ یا گنج رائیگاں وشائگاں مطلب یہ کہ جہاں بھی گنج ہی گنج ہوتا ہے تو اس کی '' زلفوں'' کے سب اسیر ؟ بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی ہے لیکن پیسہ بھی تو آسانی سے '' ہضم '' نہیں ہوتا بلکہ بد ہضمی سے ہیضہ ۔ اور پھر '' ویزہ '' ون وے ٹکٹ۔ پرانے زمانے کے بادشاہ اور قارون اینڈ کمپنی والے غالباً اسی لیے '' گنج '' کو زمین میں دباتے تھے کہ گنجے اور گنج کو جب یہاں آنا ہی ہے تو دیر کیوں کی جائے۔ غالب نے اسی لیے تو اس کنجوس گنج چوس پیسہ چوس اور گنج جوس زمین کو لتاڑا بھی ہے کہ

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا گئے

غالب بھی چونکہ ہو بہو ہم پر گئے تھے یعنی '' گنجے '' نہیں تھے ۔ بلکہ ہمیشہ '' گنج کے رنجے '' اور سنجے رہتے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ زمین ان کے سوال 'کیا کیے' کے جواب میں یہ کہہ دے گی کہ '' یہ ہیں '' لیکن زمین اتنی نادان نہیں تھی۔ اس لیے وہ چپ رہی وہ ہنس دی کہ منظور تھا پردا اپنا ۔

خیر یہ تو ہمارے جنم جلے دل کے کچھ پھپھولے تھے جنھیں پھوڑنا ضروری تھا ۔ اصل بات ہم کچھ اور کہنا چاہ رہے تھے، تعلق اس بات کا بھی نہیں ہے لیکن اندرونی معاملات سے نہیں بلکہ اوپر والی سطح سے ہے ۔

محقق تو ہم تھے اور ہیں بلکہ اتنے زیادہ کہ اب ہمارا ٹٹوئے تحقیق بھی اچھا خاصا محقق بلکہ اسکالر اور دانا دانشور ہو چکا ہے جیسا کہ بعض اکیڈمیوں میں کینٹین سے چائے لانے والے بھی کم از کم ایم فل تو ہو ہی جاتے ہیں، اس لیے ہم نے تحقیق کے ساتھ ساتھ ایک اور دھندے پر بھی ہاتھ ڈال دیا ہے اور یہ دھندہ شماریات یا سروے جات وغیرہ کاہے، اس قسم کے سروے آپ نے بھی اخبارات میں پڑھے ہوں گے جیسے غربت اور موت کی لکیر کے درمیاں فاصلہ گلیشئروں کی طرح پگھل رہا ہے اور اگر آنچ یہ رہی تو دوسرے الیکشن تک یہ فاصلہ ختم ہو جائے گا اور غربت موت کے گلے لگ کر '' من تو شدم تو من شدی '' گانا شروع کر دے گی۔ پاکستان میں لیڈروں کے اندر انسان کا گراف مسلسل گر رہا ہے اوروہ دن بہت جلد آجائے گا جب ۔؟

لیکن اسے دیکھنے کے لیے بھی کوئی انسان نہیں بچا ہوگا۔پاکستان میں لٹریسی محکمہ تعلیم کے پارٹنرز بھی پرائیویٹ تعلیم فروشی کی برکت سے اتنی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ بہت جلد جہالت سے بھی آگے نکل جائے گی یعنی مونچھیں داڑھی سے بڑھ جائیں گی ۔

چنانچہ ہم نے بھی اس دھندے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے تحقیق +سروے کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہا کہ دنیا کا بدقسمت ترین شخص کون ہے۔ خوش قسمت ''ترین '' کا پتہ تو ہمیں چل گیا ہے کہ عمران خان ہے کہ اگر مٹی پر ہاتھ رکھ دے تو سونا ہو جاتا ہے ۔کسی گدھے پر ہاتھ رکھ دے تو وہ وزیر ہو جاتا ہے کسی الو پر ہاتھ رکھ دے تو وہ کارکن ہو جاتا ہے اور کسی بھی خاتون پر ہاتھ رکھ دے تو...خیر اس پہلو کو رہنے دیجیے کہ خوش قسمتوں کا پہلو بھی خوش قسمت ترین ہوتا ہے۔

شفق ، دھنک ، مہتاب ، ہو ائیں بجلی بادل تارے پھول

اس '' دامن '' میں کیا کیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو

لیکن ہمیں تو اپوزیٹ یعنی بدقسمت ترین یا صاف الفاظ میں اپنے قبیلے کے فرد کو ڈھونڈنا تھا کہ یہی ہمارے لیے مناسب بھی تھااور آسان بھی ۔ لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں آخر ہمیں بد نصیب ترین ڈھونڈنا ہے خوش نصیب ترین نہیں جسے کسی بھی پارٹی میں ڈھونڈا جا سکتا ہے ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں ۔

ہمارے ساتھ پرابلم یہ بھی تھی کہ ہم بادشاہ بھی نہیں تھے ورنہ آدمی دوڑا کر ڈھونڈوا لیتے بلکہ بادشاہوں کے لیے تو بدقسمت ترین غربت ترین کم بخت ترین جیسے لوگ ڈھونڈنا بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ خود ہی بہ نفس نفیس اور بہ قلم خود یا بہ اشارہ خود ایسی چیزیں بنا بھی سکتے ہیں بلکہ بناتے رہتے ہیں، بھلا کمہار کو برتن، لوہار کو اوزار اور سنار کو زیور ڈھونڈنے کی کیا ضرورت یا کمی ہو سکتی ہے جب ذرا '' گردن اٹھائی '' بنا لیا۔ پرابلم تو ہم جیسے بیچاروں ، خداماروں اور بے اوزاروں کا ہے کہ نہ کچھ بنا سکتے ہیں نہ بگاڑ سکتے ہیں یہاں تک کہ خود کو ''بنانے '' یا بگاڑنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، اس لیے ڈھونڈتے ہیں ڈھونڈتے رہتے ہیں اور ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں اور ہماری بے بسی اور بے بضاعتی کا تو یہ عالم ہے کہ گھر میں آئینہ بھی نہیں ہے ورنہ اسی میں دیکھ کر کم از کم ایک کو تو ڈھونڈ لیتے ۔ آئینہ نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم آئینے سے ڈرتے بھی ہیں

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ '' مردم گزیدہ '' ہوں

اب یہ بڑی بے انصافی ہوگی اگر ہم یہ دعویٰ کرلیں کہ ہم نے پتہ لگالیا اس خدامارے بد قسمت ترین شخص کا کیونکہ اس تحقیق کا سارا سہرا ہمارے ٹٹوئے تحقیق کے سر جاتا ہے بلکہ اس کا جو ایک ماموں ہے سارا کمال اس نے کیا ہے۔ ہمارے ٹٹوئے تحقیق کا یہ ماموں ایک گاؤں میں ایک کسان کی گاڑی کا انجن ہے یعنی اس کی خرولا گاڑی میں بطور '' انجن'' لگا ہوا ہے، مقامی زبان میں '' خرولا '' گاڑیوں کے اس انجن کو گدھا کہا جاتا ہے۔ یہ کچھ زیادہ صحیح نام نہیں ہے صرف گدھا ہوتا تو اب تک وہ یا کسی قصائی کی دکان یا ہوٹل کے کسی حلق کے نیچے اتر چکا ہوتا لیکن گدھے سے زیادہ ہوشیار رہے اس لیے اب تک زندہ ہے اور آرام سے اس کسان کے خرولے کا انجن بن کر جی رہا ہے۔ کسان بھی اپنی گاڑی کے اس گوشت پوست کے انجن کو اس لیے پسند کرتا ہے کہ اسے کسی مستری کے پاس لے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی بگڑنے کی صورت میں اس کی مرمت کرکے چالو کر دیتا اور شاید یہی اس کے ابھی تک زندہ رہ جانے کا راز بھی ہوتا اگر کسی مستری کے پاس لے جانے کی ضرورت پڑتی تو ضرور کوئی وہاں اس انجن کو چراکر پارٹس کی صورت میں بیچ چکا ہوتا ۔

کسان کے خرولے کا یہ انجن اور ہمارے ٹٹوئے تحقیق کا ماموں نہ صرف انجن ہے بلکہ ہوشیار اور معاملہ فہم بھی ہے چنانچہ اس کا یہ کہنا ہے کہ میرا مالک ہی دنیا کا نمبر ون بد قسمت ترین شخص ہے بلکہ اس کا پورا خاندان ہی اس مرتبے پر فائز ہے اور صدیوں سے ہے۔ اگر بات بدقسمتی تک ہوتی تو پھر بھی اتنی بات نہ تھی ۔ لیکن '' بدقسمتی '' کا پورا خاندان ہی اس کے ہاں مقیم ہے جس میں غربت، مصیبت، رنج، بیماریاں، قرض داریاں، بھوک پیاس سب کچھ شامل ہیں، یوں اس کا یہ مالک جو خاندانی بدقسمت ترین ہے، بھوکا ترین، پیاسا ترین مظلوم ترین، محکوم ترین، رذیل ترین کس مپرس ترین اور مفلس ترین بھی ہے ۔ بلکہ یہ ایک چوہا بھی ہے مٹی کھودتا رہتا ہے جب بل بنالیتا ہے تو کوئی سانپ آکر اسے بے دخل کر دیتا ہے اور یہ پھر کہیں اور مٹی کھودتا ہے لیکن وہاں بھی سانپ اس کے پیچھے پیچھے آکر نکال دیتا ہے۔

یہ سلسلہ اس کے جد اعلیٰ آدم سے شروع ہے جو خاکی تخلص کرتے تھے لیکن ان کا ایک دشمن ابلیس ان کے درپے ہوگیا، تب سے اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ یہ جنت بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ آکر رخنہ ڈال دیتا ہے ۔

ٹٹوئے تحقیق کے ماموں اور خرولے کے اس انجن عرف گدے نے ہمیں تفصیل سے بتایا کہ یہ مٹی کھود کر کچھ نکال لیتا ہے تو بازار میں لے جا کر بیچ ڈالتا ہے جب کہ بازار اورشہر ان کے دشمنوں کے ہیں اپنا مال بیچ کر جو کچھ ملتا ہے اس میں آدھا تو وہ لوگ پچھلے قرضوں میں کاٹ ڈالتے ہیں اورباقی آیندہ بیج کھاد دواؤں ٹرانسپورٹ آڑھت منشی گیر کمیشن اور نہ جانے کس کس نام سے رکھوا لیتا ہے اور یہ ویسے ہی خالی ہاتھ خالی پیٹ اور خالی جیب بلکہ خالی دماغ بھی لوٹ آتا جہاں اس کے گھونسلے میں اس کے بچے خالی آنکھوں خالی چونچوں اور خالی سیٹوں کے ساتھ منتظر رہتے ہیں لیکن اس کے خالی واپس آنے پر ایک کورس میں گاتے ہیں چاند میری زمین پھول میرا وطن ، سونا اگلے ، اگلے ہیرے موتی پھر اس کی بیوی کسی کونے سے انڈوں وغیرہ کے کچھ پیسے نکالتی ہے اپنے ایک بچے کو دیتی ہے کہ جا ابلیس سے کچھ آٹا گھی اور آلو ٹماٹر لا ۔ تاکہ میں ہانڈی میں ڈال کر تمہارے لیے پانی کا پکا سکوں۔ بچہ جاتاہے جو آٹا دال گھی آلو ٹماٹر لاتا ہے جو اسی کے کھیت کے ہیں لیکن دکاندار شہر سے لایا ہے اس لیے سوگنا زیادہ قیمت پر اس کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں