جذبہ انسانیت
مجھے پاکستان یاد آگیا جہاں کسی بھی حادثے کی صورت میں راہ چلتے لوگ فوری مدد کے لیے پہنچتے ہیں
میں امریکی شہر ہیوسٹن کے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا کہ ایک زوردار دھماکا سنائی دیا۔دھماکا سنتے ہی اطراف بیٹھے لوگ گھبرا کر اپنی کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔کسی کے ہاتھ سے شاید پلیٹ بھی گری کیونکہ برتن ٹوٹنے کی آواز بھی سنائی دی ۔ سب کی نگاہیں سڑک کی جانب تھیں۔ساتھ کھڑے اعجاز عالمانی بھائی کی آواز سنائی دی اوہ کار ایکسیڈنٹ ہے ۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔
چاروں جانب موجود لوگ بھی افسوس کا اظہار کرتے دوبارہ سیٹوں پر برا جمان ہوگئے۔ میں نے حیرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا اعجاز بھائی حادثہ کا شکار ہونے والوں کو فوری مدد کی ضرورت ہوگی جس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ بیٹھ جاؤکچھ ہی دیر میں ایمبولینس اور پولیس پارٹی پہنچ جائے گی، مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے سیڑھیوں کی جانب دوڑ لگا دی ۔ میرے ساتھ موجود دوستوں کاشف بھگیو، سمریز اور مسعود عالم کو بھی میرے پیچھے آنا پڑا ۔ سیڑھیاں پھلانگتے جائے حادثہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک گاڑی ریسٹورنٹ کی دیوار سے ٹکرانے کے باعث بری طرح تباہ ہے اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک حواس باختہ خاتون موجود ہیں۔
پچھلی سیٹ پر ایک چھوٹی بچی بھی موجود تھی ۔گاڑی سے تیل بہہ رہا تھا جسے دیکھ کر میں نے خاتون کو گاڑی سے نیچے اترنے کوکہا کیونکہ ڈر تھا کہ کسی بھی وقت گاڑی میں آگ بھڑک سکتی تھی۔خاتون اور بچی کو گاڑی سے باہر نکالنے کے بعد انھیں کہا کہ پریشان نہ ہوں اور اپنے گھر والوں سمیت جہاں بھی اطلاع دینی ہے دیجیے۔بظاہر نیپالی یا بھارتی دکھائی دینے والی خاتون اب کافی حد تک بہتر نظر آرہی تھیں۔انھوں نے فوری طور پر اپنے شوہر سے رابطہ کیا جو قریب ہی موجود تھے اور جلد آگئے۔انھوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور متعلقہ محکموں سے فون پر رابطہ شروع کر دیا، ہم واپس ریسٹورنٹ میں آبیٹھے۔ میں سوچنے پر مجبور تھا کہ اگر متعلقہ اداروں کے انتظار میں ہم ان کی مدد کو نہ پہنچتے اور تیل لیکیج کے باعث گاڑی میں آگ لگ جاتی تو نجانے اس خاتون اور چھوٹی بچی کا کیا انجام ہوتا۔ظاہر ہے وہ تو بوکھلاہٹ میں گاڑی سے بھی نہیں اتر پا رہی تھیں۔ان سمیت پیچھے موجود بچی کو بھی سیٹ بیلٹ بندھا تھا۔ایسے وقت میں معمولی ہمدردی بھی کافی ہوتی ہے۔
مجھے پاکستان یاد آگیا جہاں کسی بھی حادثے کی صورت میں راہ چلتے لوگ فوری مدد کے لیے پہنچتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہوگیا۔ایکسپریس نیوز سے پہلے ایک نجی ٹی وی میں بطور اینکر و پروڈیوسر نیوز ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ تھا اور کراچی پریس کلب کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ممبرگورننگ بوڈی منتخب ہوا تھا ، دفترکے بعد کراچی پریس کلب کو وقت دینا ضروری تھا ۔
ایک روز پریس کلب سے گھرکی جانب روانہ ہوا اور ایئر پورٹ کراس کرتا ملیرکینٹ کے ساتھ گزرنے والے ایکسپریس وے پر پہنچا ۔یہ راستہ سیدھا سپر ہائی وے نکلتا ہے جب کہ میں نے بیچ سے مڑکر اپنے گھرکی جانب جانا تھا ۔ان دنوں اس سڑک پرگاڑیوں کی آمد ورفت کم تھی۔رات تقریبا دس بجے کا وقت ہوگا کہ سڑک پرکچھ آگے بڑھتے ہی مجھے سڑک کنارے ایک شخص اوندھا پڑا دکھائی دیا۔ قریب ہی ایک موٹر بائیک بھی پڑی تھی اس کے ساتھ ایک شخص سائیڈ وال پر سر جھکائے بیٹھا تھا ۔ یہ سڑک اس جگہ سے معمولی گولائی میں گھومتی ہے اس لیے یہ منظر اچانک آنکھوں کے سامنے آیا تو گاڑی روکنے کا موقع نہ ملا البتہ رفتار کم کردی۔ پہلا خیال یہ آیا کہ مجھے فوری مدد کے لیے رکنا چاہیے اور دوسرا خیال جو زیادہ قوی تھا وہ یہ کہ ممکن ہے کوئی راہزن ہوں اور قریب جاتے ہی گن نکال کر اٹھ کھڑے ہوں۔
ان دنوں کراچی کے حالات کچھ زیادہ ہی خراب تھے۔ ٹارگٹ کلنگ اور لوٹ مار کا سلسلہ عروج پر تھا۔ بہرحال ضمیر نے گواراہ نہ کیا اور میں نے گاڑی روک لی، وہ لوگ پیچھے رہ گئے تھے۔میں نے آئی پیڈ کو سیٹ کے نیچے چھپایا اور سیل فون جیب میں رکھ لیا کہ اگر واقعی راہزن ہوں تو مبادہ کچھ حاصل نہ ہونے کی صورت میں گولی کا نشانہ ہی بنا دیں۔گاڑی کا ریورس گئیر لگایا اور ان سے کچھ فاصلے پر گاڑی روک کر نیچے اتر آیا ۔میں دل میں ڈھیروں وسوسے لیے ان کی جانب بڑھا کیونکہ پاس سے گزرتی کوئی گاڑی نہیں رک رہی تھی۔قریب پہنچا تو صورتحال واضح ہوئی کہ یہ واقعی ایک ایکسیڈنٹ تھا۔موٹر سائیکل کے ساتھ گرے شخص کی سانسیں بند تھیں جب کہ سائیڈ وال کے اوپر بیٹھا شخص زخمی تھا اور اندھیرے میں اس کی سائیکل بھی پڑی دکھائی دی۔ہمارے رکتے ہی کچھ ہی دیر میں وہاں کئی گاڑیاں رک چکی تھیں۔ عقدہ کھل چکا تھا کہ لوگ مدد کا جذبہ رکھتے ہیں پرخوف کے باعث پہلے گزرنے والے نہ رکے تھے۔
میں نے فوری ایمبولینس سروس کو اطلاع دینے کے بعد ایک ڈاکٹر دوست کو کال ملائی اور صورتحال سے آگاہ کیا۔اب ہم فون پر ہدایات لے رہے تھے اور لوگ اس پر عمل کر رہے تھے۔ان صاحب کا شناختی کارڈ دیکھنے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی زبان کچھ اورمسلک کچھ اور ہے۔ان دنوں مذہبی،عصبی و لسانی تعصب بھڑکا کر اپنی دکانداری چمکانے والوں کے بوئے زہریلے بیج معصوم جانوں کو روزانہ کی بنیاد پر نگل رہے تھے۔یہاں تو منظر مختلف تھا مختلف مسلک اور مخلتف زبانیں بولنے والے اس شخص کی جان بچانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زار لگا رہے تھے۔ یہ بات عیاں تھی کہ عام شخص محض انسان اور پاکستانی ہے اور تعصب کی آگ میں جلنے والے درندے انسان نہیں۔اچانک ہی اس شخص کی رکی سانسیں بحال ہوگئیں اور اسی لمحے ایمبولینس بھی پہنچ گئی ۔
ایمبولینس میں اسپتال تک جانے کے لیے دو افراد ان کے ساتھ سوار ہوگئے میں نے دوسری ذمے داری سنبھالی اور سب کے سامنے اس شخص کی برانڈڈ گھڑی، رقم و دیگر اشیا اپنے قبضے میں لیتے ہوئے اپنا مکمل تعارف بھی دیا۔ایمبولینس جناح اسپتال روانہ کرنے کے بعد کچھ دیگر لوگوں کے ساتھ شناختی کارڈ کی مدد سے قریب موجود ماڈل کالونی کے علاقے میں ان کے لواحقین کی تلاش شروع کی۔زخمی کا سیل فون لاک تھا اس لیے کسی سے رابطہ مشکل تھا۔ بہرحال سم نکال کر دوسرے سیل میں ڈالی تو رابطہ ممکن ہوا۔گھر ڈھونڈنے میں جتنا وقت لگا اور مشکل پیش آئی اس کے باوجود سب ساتھ رہے۔سب کے سامنے ان کی موٹر بائیک و دیگر اشیاء لواحقین کے سپرد کیں صورتحال سے آگاہ کیا اور مزید کسی مدد کے لیے اپنا نمبر بھی دیا اس تاکید کے ساتھ کہ سانسیں بحال ہوگئیں تھیں تو آپریشن کے بعد صحت سے ضرور آگاہ کیجیے گا۔
اگلے روز ان کی بھانجی کا فون آیا جنہوں نے افسوسناک خبر سے آگاہ کیا کہ صبح پانچ بجے کے قریب خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔وہ صاحب پاکستان ایئر فورس کے ریٹائرڈ ملازم تھے اور حادثے کے وقت اپنی بھانجی کو ملیرکینٹ لینے جا رہے تھے۔ ان کے پاس ہیلمٹ موجود تھا پر انھوں نے سر پر پہنا نہیں تھا۔ اندھیرے میں اس سڑک کی گولائی پر وہ سائیکل سوار سے ٹکرا گئے ہیلمٹ نہ پہننے کے باعث سر پر شدید چوٹ آئی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔خاتون سے افسوس کا اظہار کیا پر مزید افسوس اس وقت ہوا جب انھوں نے شکی انداز میں ہم سے یہ تقاضا شروع کیا کہ بتائیں یہ حادثہ کیسے ہوا ۔
انداز ایسا تھا کہ جیسے اس ایکسیڈنٹ کا ذمے دار میں ہوں۔ بہرحال انھیں سارا حال کہہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میری کار کا معائنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔شکر ہے کہ خاتون تعلیم یافتہ تھیں اور بات کو سمجھ گئیں ورنہ تو نیکی گلے پڑتے دکھائی دینے لگی تھی ۔ خیر امریکی ریسٹورنٹ سے گھر واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی قوم میں مدد کا جذبہ کسی دوسری قوم سے کم نہیں اور ہمیں تنقید برائے تنقید کی بیماری سے نکل کر اپنی قوم میں موجود خوبیوں کو سراہنا چاہیے کیونکہ سراہنے سے اچھے جذبوں کو تقویت ملتی ہے ۔