متنازع انتخابات کی گونج
فوج کے ترجمان نے سیاست دانوں سے متعلق جو کچھ کہا وہ سو فی صد درست ہے اور ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔
NEW DELHI:
عام انتخابات کے انعقاد میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، مگر پی ٹی آئی کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے 25 جولائی کے انتخابات کے منصفانہ ہونے اور شفافیت پر سنگین سوالات اٹھادیے گئے ہیں، جس پر فوج کے ترجمان کو بھی واضح کرنا پڑا کہ پاک فوج کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں اور وہ غیر جانبدار ہوکر الیکشن کمیشن کی مدد کرے گی۔
عوام کو حق ہے کہ وہ جسے چاہیں ووٹ دیں جو وزیراعظم بنے گا فوج کوقبول ہوگا۔ فوج کو جزوی مسائل میں گھسیٹا جا رہا ہے اور فوج وہ چیزیں بھی برداشت کررہی ہے جو عام حالات میں نہیں کرتی۔ جیپ ہماری نہیں، میڈیا ہر چیز کو شک کی نظر سے نہ دیکھے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے یہ بھی کہاکہ ہر الیکشن سے پہلے اور بعد میں سیاست دان دھاندلی کے الزامات لگاتے اور لوگ پارٹیاں بدلتے رہے ہیں۔
فوج کے ترجمان نے سیاست دانوں سے متعلق جو کچھ کہا وہ سو فی صد درست ہے اور ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور اب پاک فوج نے انتخابات سے قبل پھیلائے جانے والے خدشات دور کرنے کی جوکوشش کی ہے اس کے بعد الزامات لگانے والوں کو مطمئن ہوجانا چاہیے یا ثبوت دینے چاہئیں اور ان عناصر کی واضح طور پر نشاندہی کرنی چاہیے جو فوج کو انتخابات میں متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس کی پاک فوج کے ترجمان نے تردید اور مکمل وضاحت دی ہے۔
سندھ میں اس وقت تین چار سیاسی پارٹیاں اور اتحاد انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان ہی کی طرف سے عام انتخابات کا متنازعہ بنایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں کراچی میں مسلم لیگ ن کے زیر اہتمام آل پارٹیزکانفرنس ہوئی جس میں تحریک انصاف کے علاوہ متحدہ پاکستان، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی، جے یو آئی، جے یو پی ودیگر پارٹیوں نے شرکت کی اور متفقہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ تمام جماعتوں کو آزادانہ طور پر انتخابی مہم چلانے دی جائے۔ اے پی سی میں الیکشن کمیشن کے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ طور پر چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات اور رویہ تبدیل نہ ہونے پر مرکزی سطح پر احتجاجی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اگر الیکشن کو انجینئرڈ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہو گا۔
پیپلزپارٹی کے مقابلے میں سندھ میں بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے بھی الیکشن کمیشن اور سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ سمیت سندھ حکومت پر بھی الزامات لگائے گئے اور الیکشن کمیشن پر عدم اطمینان ظاہرکیا گیا جب کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کی نامزدگی پر مسلم لیگ ن اعتراضات کرچکی ہے، نگراں وفاقی وزیر داخلہ پربھی اعتراضات ہوچکے ہیں اور تیسرے بڑے صوبے کے پی کے میں اے این پی کے نامزد امیدوار ہارون بلور سمیت بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے وہاں کی نگراں حکومت کے دعوؤں کا پول کھل چکا ہے جو امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی اور وہاں اب بھی پی ٹی آئی دور کے لگائے ہوئے افسر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
سندھ میں متحدہ، پیپلزپارٹی، ایم ایم اے، اے این پی کو شکایت ہے کہ ان کے بینر، جھنڈے اور پوسٹر اتارے جارہے ہیں۔ متحدہ پاکستان کو تو ان کے دفاتر تک واپس نہیں ملے اور ڈاکٹر فاروق ستار کے مطابق متحدہ کو تنگ کرکے الیکشن کے بائیکاٹ پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں الیکشن کمیشن سے متعلق زیادہ شکایات ہیں جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بھی یہ بیان دے کر سیاسی حلقوں کو حیران کردیا ہے کہ سندھ میں انتخابی ضابطہ اخلاق پرعمل در آمد قابل تعریف ہے جب کہ سندھ کی سیاسی پارٹیاں جن میں پی ٹی آئی شامل نہیں الیکشن کیمشن کے خلاف احتجاج کا اعلان کرچکی ہیں۔
فوجی ترجمان نے تو پاک فوج سے متعلق وضاحت دے دی ہے جس پر ایکسپریس کے پروگرام ایکسپرٹس میں ممتاز تجزیہ کار کہہ چکے ہیں کہ پاک فوج نے وضاحت دے کر اچھا کیا مگر انتخابات سے متعلق سیاست دانوں کے شکوک تو برقرار رہیںگے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ایف آئی اے کی طرف سے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی طلبی پر پیپلزپارٹی بھی ناراض ہے اور بلاول بھٹو زرداری اور پی پی رہنما بھی موجودہ صورتحال پر برہم ہیں اور آصف زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ 2014ء کے معاملے کو 2018ء میں عین عام انتخابات کے وقت اٹھانا اور جواب طلبی ناقابل فہم ہے۔
پیپلزپارٹی ایف آئی اے پر، مسلم لیگ ن کو نیب پر تحفظات ہیں اور سندھ پنجاب اور کے پی کے میں نگراں حکومتوں سے شکایات ہیں، جہاں ذاتی تعلقات پر وزارتیں دی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مقررہ ضابطہ اخلاق کے مطابق بھی انتخابی مہم چلانے نہیں دی جا رہی ہے اور ان کے قانون کے مطابق بنے اور لگے بینر، پرچم اور پوسٹر بھی اتارے جا رہے ہیں اور ملک بھر میں پی ٹی آئی کو ان سیاسی جماعتوں جیسی کوئی شکایت نہیں ہے اور باقی پارٹیاں آزادی سے انتخابی مہم چلانے دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں تو وہ انتخابات کو متنازعہ ہونے کے ابھی سے الزامات لگا رہی ہیں تو 25 جولائی کو انتخابی نتائج بھی متنازعہ قرار پائیں گے۔ انتخابات منصفانہ نہ ہونے کی گونج تین صوبوں میں واضح طور پر سنائی دے رہی ہے تو نگراں حکومتوں، الیکشن کمیشن و دیگر اداروں کو بھی اعتراضات اٹھانے والوں کو مطمئن کرنا چاہیے۔