انتخابات توقعات اور خدشات
انتخابات 2018ء کی شفافیت پر سیاسی اور عوامی ہی نہیں بلکہ تکنیکی طور پر بھی اندیشے سر اٹھا رہے ہیں۔
انتخابات میں پانچ دن باقی ہیں، مگر پورے ملک کا منظر ہمیشہ سے بہت مختلف ہے۔ ایک جانب نیب کی کارروائیاں، دوسری جانب الیکشن کمیشن کی کارکردگی۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے باعث نہ وہ گہما گہمی ہے نہ جوش وخروش ۔ کے پی کے اور بلوچستان میں کارنر میٹنگزکے دوران دہشتگردی کے واقعات نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی، جلسے جلوس کی وہ بھرمار نظر آتی ہے ، جگہ جگہ نعرے بازی کے مناظر، حتیٰ کہ اب تو سیاسی پارٹیاں کارنر میٹنگ سے بھی کترانے لگی ہیں۔
ایک جانب تو انتخابات میں اظہار رائے کی یہ صورتحال ہے کہ سوائے پی ٹی آئی (جب کہ گزشتہ انتخابات میں (ن) لیگ کے لیے بھی) کسی اور پارٹی کو بڑے جلسے کرنے کی یا تو اجازت نہیں یا پھر خود انھیں ہمت نہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے لیے ذمے داران کی جانب سے مطلوبہ حفاظتی انتظامات ناکافی ہوں۔ بہرحال کراچی میں کسی حد تک پی ایس پی (جنھوں نے گزشتہ دنوں آٹھ گھنٹے اور طویل راستوں پر ریلی نکالی) کی کچھ سرگرمیاں جاری ہیں اور ملکی سطح پر بڑے جلسوں کی حد تک پی ٹی آئی سرگرم ہے (اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ملک کے تمام ووٹرز ان کے ساتھ ہیں) اس صورتحال میں دیگر جماعتوں کی جانب سے خدشات کا اظہار فطری ہے۔
انتخابات 2018ء کی شفافیت پر سیاسی اور عوامی ہی نہیں بلکہ تکنیکی طور پر بھی اندیشے سر اٹھا رہے ہیں اورکئی جانب سے کئی ماہ قبل ہی مردم شماری پر اعتراض کے ساتھ قبل از انتخابات دھاندلی کرنے کی طرف اشارے کیے گئے تھے جو کسی حد تک درست بھی ہیں کہ ملکی آبادی کے بے انت بڑھنے کے ساتھ ساتھ مردم شماری میں آبادی کم بتائی گئی خاص کر سندھ اور خصوصاً کراچی کی جہاں ہر روز ملک بھر سے ہزاروں نہ سہی سیکڑوں کی تعداد میں لوگ آکر آباد ہو رہے ہیں (بطور ووٹر بے شک ان کا اندراج ان کے آبائی علاقوں میں ہوگا) لہٰذا کراچی کی آبادی پہلے کے مقابلے میں کم کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ مسئلہ تو پھر ذرا پرانا ہوگیا اس پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آواز بھی اٹھائی گئی مگر اس آواز میں زیادہ گھن گرج نہ ہونے کے باعث معاملہ کچھ دب سا گیا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ تمام سیاسی عناصر انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے۔
اب تازہ صورتحال جو سامنے آئی ہے اور آتی جا رہی ہے وہ الیکشن کمیشن کی ''کارکردگی'' ہے جس کے باعث انتخابات کی شفافیت پر بھی انگلیاں خودبخود اٹھ رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے یہ خبر منظر عام پر آئی تھی کہ انتخابی عملے کی ازسر نو فہرست تک کمیشن کی جانب سے تیار نہیں کی گئی بلکہ گزشتہ انتخابات 2013ء کی پرانی فہرست نکال کر اسی پر عملے کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں۔ یہ انکشاف اس طرح ہوا کہ ان میں وفات پا جانے والے اور معذور ہوجانے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ایک دوسری خبر کے مطابق بعض افراد کو یہ تو معلوم ہے کہ انھیں دوران انتخابات ڈیوٹی کرنی ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ انھیں کس علاقے (پولنگ اسٹیشن پر) کام کرنا ہے ابھی تک (خبر آنے تک) انھیں اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ (اب شاید یہ شکایت دور ہوگئی ہو) اگر انتخابی عمل کے ذمے داران کی غفلت کا یہ عالم ہے تو دیگر معاملات کیسے درست ہوں گے؟ ووٹر یہ تو سوچ سکتا ہے۔
کراچی کے ووٹر کی تعداد کم کرنے کے علاوہ سابقہ حلقوں میں بالکل غیر فطری رد و بدل کرنا بھی سوائے ووٹر کی مشکلات میں اضافے کے اور کچھ نہیں، حلقے چھوٹے بڑے تو کیے جاسکتے تھے مثلاً دو بڑے حلقوں میں سے کتربونت کرکے درمیان میں ایک اور حلقہ بنادیا جاتا مگر اس طرح کے حلقے جن میں شہری علاقوں کے ساتھ گوٹھ شامل کرنا کسی جماعت کی متوقع نشست کو متنازعہ وغیر فعال بنانے کی بھونڈی کوشش ہی کہی جاسکتی ہے۔ چلیے یہاں تک بھی کچھ ''مجبوریوں'' کو مان لیتے ہیں مگر جو انتخابات کی شفافیت پر سب سے گمبھیر اور فکرمندانہ تاثر (بلکہ حقیقت) ہے وہ یہ کہ کالعدم (دہشت گرد) تنظیمیں نام بدل کر، مشکوک افراد دوسری پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے یا آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے کاغذات منظور بھی ہوگئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرنے والے ذمے داران کے پاس ان کا کوئی سابقہ ریکارڈ ہی نہیں، سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر ان کو کس قانون کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے؟ اس طرح تو دہشت گردوں، مذہبی انتہا پسندوں کو ایوان تک رسائی کو گویا ممکن بنایا گیا ہے (خدا کرے یہ ہمارا شک ہی ہو)۔ کیا ہمارے انتخابی اداروں کے ذمے داران یہ نہیں جانتے کہ ایوان میں مشکوک و انتہا پسندوں کے پہنچنے کا مطلب کس حد تک خوفناک ہوسکتا ہے؟ گزشتہ کئی عشروں سے ملک میں ہر طرح کی انتہا پسندی نے جو صورت اختیار کی ہے وہ ہمارے کتنے شہریوں اور افواج پاکستان کے کتنے جوانوں کو نگل چکی ہے۔
آپریشن ضرب عضب، ردالفساد اور جوانوں کی جانبازی کے باعث اس پر کچھ قابو پایا گیا اور ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی تھی، مگر اب انتخابات کے نزدیک آتے ہی پھر سے دہشت گردی کی نئی لہر نے سر اٹھا لیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور انتخابی امیدوار عالم خوف میں نہ اپنی باقاعدہ انتخابی مہم چلا پا رہے ہیں اور نہ اپنے ووٹروں سے رابطہ بحال کر پا رہے ہیں، اگر خدانخواستہ پولنگ کے دن ووٹرز خوفزدہ ہوکر گھر سے نہ نکل سکے تو ملک دشمنوں کی تو دلی مراد بر آئے گی۔ یہ تو تھی انتخابات کے بارے میں عوام کے خدشات کی بات۔
اب آتے ہیں اپنے امیدواروں (بطور خاص وزیر اعظم) کے رویوں کی جانب سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان کیا کسی کے اجداد کی املاک ہے یا کسی کے باپ کی جاگیر۔ جو چاہے اس کا حقدار بن جائے۔ پاکستان پر تمام پاکستانیوں کا برابر کا حق ہے۔ اس کے بڑے عہدوں پر ان کا حق ضرور تسلیم کیا جاسکتا ہے جو عوام کی خدمت کریں (عوام کی خدمت وہی کرسکتے ہیں جو عوام میں سے ہوں) جو ملک کو لوٹنے اور اپنے اثاثے بڑھانے کے لیے پاکستانی نہ ہوں اور وہ بھی نہیں جو سرکاری وسائل مثلاً ہیلی کاپٹر کو اپنے ذاتی کاموں کے لیے استعمال کریں جو زمین پر چند قدم چل نہ سکیں وہ عوام کے دکھ درد کو کیا سمجھیں گے اور کیا کم کریں گے؟
جو خدا کے حضور بھی چارٹرڈ طیاروں میں پیش ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ اس کے بندے بھوک و بیماری میں تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں اور ان کے سر پر بطور حکمران مسلط ہونے والے عمرہ (عبادت) کو بھی لگژری سیاحت کے طور پر ادا کریں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ بہتر فیصلہ کرنے والی ذات ہے، ہم کون ہوتے ہیں فیصلہ سنانے والے؟ مگر وزارت عظمیٰ پر اپنا حق بلا کسی نمایاں خصوصیت کے جتانے کے بیان کا الیکشن کمیشن کو فوراً نوٹس لینا چاہیے۔ بصورت دیگر الیکشن کمیشن پر بھی کئی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ ہمارا متوقع وزیر اعظم وہ زبان استعمال کرے جو مہذب گھرانوں میں بچہ بھی کرے تو اس کی تربیت پر شک ہونے لگتا ہے۔ گالی، انسانوں کو جانوروں سے مماثلت دینا کسی مہذب انسان کا طرز گفتگو تو نہیں ہوسکتا۔