عمران خان کا منشور
عمران خان اپنے منشور پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پانی کی قلت دورکرنے کے لیے ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔
کرپشن کا خاتمہ ، بیوروکریسی تبدیل، قرضوں میں کمی، ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، عافیہ صدیقی سمیت تمام قیدیوں کی واپسی اور جنوبی پنجاب کے صوبے کا قیام تحریک انصاف کے انتخابی منشور کے اہم نکات ہیں۔ عمران خان نے اپنا منشور پیش کرتے ہوئے اقرارکیا کہ وہ پختون خواہ میں احتساب کا شفاف نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
عمران خان اپنے منشور پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پانی کی قلت دورکرنے کے لیے ڈیم تعمیر کیے جائیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو عوام کے زیر استعمال لایا جائے گا۔ منشور میں عہدکیا گیا ہے کہ سی پیک کو حقیقی گیم چینجر میں تبدیل کریں گے۔ نوجوانوں پر خصوصی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ عمران خان نے منشور میں اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مدینہ جیسی فلاحی ریاست قائم کی جائے گی۔ عمران خان نے اپنے منشور کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے اقتصادی حالات انتہائی خراب ہیں، یوں عمران خان کے اس حقیقت پسندانہ اقرارکے تناظر میں تحریک انصاف کے منشور میں درج بالا نکات کا عملی طور پر انقلاب ایک خواب نظر آتا ہے۔ پاکستان کے انتظامی اور اقتصادی ڈھانچہ کو درست کرنے کے لیے عمومی طور پر ملک کے اندر اصلاحات اور بیرونی ممالک سے تعلقات کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔
ان اصلاحات کی کامیابی کے لیے عوام کی حمایت کے ساتھ ریاستی اداروں کی رضامندی بھی اشد ضروری ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کے پاس مخلص کارکنوں اور رہنماؤں کی ایک بڑی ٹیم موجود تھی۔ اس ٹیم میں سارے لوگ اپنے شعبوں کے ماہر اور سیاست میں نئے تھے۔ ان میں جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، معراج محمد خان، خورشید حسن، میر رفیع رضا، رسول بخش تالپور اور حفیظ پیرزادہ وغیرہ شامل تھے۔ ان میں سے بیشتر افراد کا تعلق متوسط طبقے سے تھا اور سب نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی تھی، جب ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی، تعلیمی، لیبر اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات نافذ کیں تو اس ٹیم نے اصلاحات کی تیاری اور اس پر عملدرآمد میں جذباتی کردار ادا کیا۔ پنجاب کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت کا تعلق متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تھا جس کے باعث پوری پیپلز پارٹی ان اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے تیار تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی ان اصلاحات کو قبول کرلیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک اور سوشلسٹ ممالک سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ سوویت یونین ، چین اور مشرقی یورپی ممالک کے علاوہ سعودی عرب، لیبیا اور خلیجی ممالک نے پاکستانیوں کے لیے دروازے کھول دیے تھے۔ عمران خان نے انتخابات کے آغاز کے ساتھ ہی یہ نعرہ لگایا کہ انتخابات کی کامیابی کے لیے الیکٹ ایبل (Electable) اور سرمایے کی ضرورت ہے، یوں دیگر جماعتوں کے آزمائے ہوئے وہ رہنما جو ماضی میں منتخب ہوتے رہے تھے۔
تحریک انصاف میں شامل ہونے والے صرف پنجاب اور سندھ کے لیے نامزد اراکین کی فہرست کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں سے اکثریت ان رہنماؤں پر مشتمل تھے جو مسلم لیگ کے مختلف گروپوں اور پیپلزپارٹی سے وابستہ رہے۔ یہ لوگ کسی قسم کی نظریاتی اور جذباتی وابستگی سے دور ہیں اور ہر دفعہ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نئی جماعت میں شمولیت کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ان امیدواروں میں خاصی تعداد کے ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ سے قریبی روابط ہیں۔
عمران خان مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ افغانستان سے اتحادی فوجیں چلی جائیں۔ وہ کبھی طالبان، حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کی عسکری تنظیموں پر پابندی کے معاملے کی حمایت نہیں کرتے۔ کراچی میں ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم سے اتحاد کیا ہے اور دارالعلوم حقانیہ کو کروڑوں روپے کی امداد دی ہے۔ انھوں نے اب تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا وعدہ بھی کیا ہے۔ امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں سزا دی ہے۔ اب یوں سعودی عرب نئے تضادات کا شکار ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں مختلف ممالک کے فوجی دستوں کی فوج قائم ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سعودی عرب حکومت کے دباؤ پر یمن میں فوج بھیجنے سے انکارکردیا تھا، سعودی عرب اور شریف خاندان کے درمیان فاصلے طویل ہوئے تھے۔ پیرس میں قائم فنانشل ٹیرر ازم کی نگرانی والی تنظیم نے پاکستان کو ''گرے ایریا'' میں شامل کیا ہوا ہے اور پاکستان کو یہ ہدف دیا گیا ہے کہ انتہا پسند تنظیموں سمیت تمام غیر ریاستی کرداروں (Non-State Actor) پر پابندی شامل ہے۔
عمران خان کا سارا زورکرپشن کے خاتمے پر ہے۔ ان کا یہ مفروضہ ہے کہ بہت سے پاکستانیوں کے اربوں روپے یورپی ممالک کے بینکوں کے اکاؤنٹس میں موجود ہیں۔ ان افراد کو عدالتوں سے سزا دلوا کر یورپی ممالک سے اربوں روپے واپس لائے جاسکتے ہیں، یوں بہت سے اقتصادی منصوبوں کی تکمیل ممکن ہے، مگر ان پاکستانیوں میں سیاست دانوں کے علاوہ بیوروکریٹس، سرمایہ کار اور تاجر حضرات بھی شامل ہیں۔ اس پوری کارروائی کے لیے احتساب کے لیے ایک غیر جانبدار ایسے ادارہ کی ضروت ہے جو پروفیشنلز پر مشتمل ہو۔ پھر وائٹ کالر جرائم کا پتہ چلانا اور یورپی ممالک کے بینکوں سے رقوم کی واپسی انتہائی مشکل عمل ہے۔ عمران خان برطانیہ کے امراء میں خاصے مقبول ہیں۔ ایک یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہے۔
جب 12 مئی 2007ء کو کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے جلوس کو ایم کیو ایم کے جنگجوؤں نے روکا اور شہر میں ہونے والے تصادم کے واقعات میں کئی درجن افراد جاں بحق ہوئے تو عمران خان نے برطانیہ میں ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف دہشت گردی پھیلانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ عمران خان اس مقدمے کے حوالے سے خاصے عرصے پرجوش رہے اور پھر کبھی دوبارہ اس مقدمے کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس تناظر میں یورپی ممالک کے بینکوں سے جمع شدہ رقم واپس لانا ایک ایسا مشن ہوگا جس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہونگے، پھر نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے نئی صنعتی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔
صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کا حصول ایک چیلنج ہے۔ امریکا نے ایران پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ افغانستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے جس کی بناء پر وسطی ایشیائی ممالک سے تیل اور گیس لینے کے منصوبے محض فائلوں میں موجود ہیں۔ عمران خان نے اپنے منشور میں آزاد خارجہ پالیسی کا ذکر کیا ہے مگر وہ بھارت اور افغانستان کے اچھے تعلقات کا ذکر نہیں کرتے۔ بھارت سے تو عمران خان کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر کسی قسم کے تعلقات کے مخالف ہیں۔ پھر ماحولیات کے نقصانات کا ادراک کرتے ہوئے 10 ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کرتے ہیں مگر عمران خان اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ ماحولیات کی تباہی کی ایک بڑی وجہ افغانستان اور کشمیر کی پہاڑیوں پر گولہ بارود کا استعمال ہے۔
تحریک انصاف نے سرائیکی صوبہ کے بجائے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کا عندیہ دیا ہے وہ سرائیکی قوم کی تاریخی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے ساتھ کراچی کی ترقی کے لیے میگا پروجیکٹ کا وعدہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس سے یہ تاثر لے رہے ہیں کہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کے بارے میں کچھ سوچتے ہیں۔ تحریک انصاف کے منشور میں زرعی اراضی کی کم ازکم حد مقررکرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی مزدوروں کے تحفظ کے لیے کسی نئی پالیسی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم شہریوں کے مسائل خاص طور پر متنازعہ مذہبی قوانین کو اس طرح بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ اس صدی کا ایک اہم مسئلہ شہریوں کا لاپتہ ہونا ہے۔
شہریوں کے لاپتہ ہونے کی ذمے داری ریاستی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف قبائلی علاقے میں طالبان کے خلاف آپریشن کی مذمت کرتی رہی مگر منظور پشتین کے مطالبات کی حمایت کو تیار نہیں۔ مگر اس کے منشور میں اس معاملے کے حل پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے منشور اور عمران خان کی تقاریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لچھے دار نعرے لگا کر وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں اور اس منشور پر مکمل عملدرآمد ان کا ایجنڈا ہے ہی نہیں۔ وہ اپنے مخالفین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر کے جمہوری کلچر کے حامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔