جاوید میر سے جاوید اختر تک
جاوید میر اور میں ملاقات کے پہلے ہی دن سے ایک دوسرے کی گڈ بک میں آ گئے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ریڈیو پاکستان کراچی سے بزم طلبا کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا، ایک دن میں جیسے ہی ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہوا میرے پیچھے پیچھے ہی ایک نوجوان بے ساکھیوں کے سہارے ریڈیو کی عمارت کے اندر آیا اور پھر تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہوا عمارت کی پہلی منزل میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا اسٹوڈیو میں چلا گیا۔
وہ نوجوان جو بیساکھیوں کے باوجود بھی عام نوجوانوں سے زیادہ اسمارٹ تھا وہ کراچی کے فنکشنوں کی ان دنوں جان سمجھا جاتا تھا اور اس کا نام جاوید میر تھا، جو ایک بہترین گلوکار بھی تھا اور ایک باصلاحیت موسیقار بھی۔ میری اس سے نہ صرف اچھی دوستی تھی بلکہ میں نارتھ ناظم آباد کے جس علاقے میں رہتا تھا اسی بلڈنگ میں اس کا بھی فلیٹ تھا اور جاوید میر کے علاوہ اسی بلڈنگ میں اداکار و صداکار قاضی واجد سینئر ریڈیو آرٹسٹ محمود صدیقی اور ریڈیوکی ایک ذہین پروڈیوسر خواجہ بیگم بھی اسی بلڈنگ میں رہتی تھیں۔
جاوید میر سے میری پہلی ملاقات بھی موسیقی کی ایک محفل میں ہوئی تھی جس کا میزبان معین اختر تھا، جاوید میر گلوکار محمد رفیع کے گیت بڑی جاندار آواز سے گاتا تھا۔ اس زمانے میں کراچی کے فنکشنوں میں احمد رشدی، ایس بی جون اور جاوید میرکی بڑی ڈیمانڈ ہوا کرتی تھی۔ جس محفل میں جاوید میر ہوتا تھا اس سے ایک گیت کی ضرور فرمائش ہوا کرتی تھی اور وہ گیت جو محمد رفیع کا گایا ہوا تھا جاوید میر نے اس گیت کو جیسے گھول کر پیا ہوا تھا۔ جس خوبصورت انداز سے وہ گیت گاتا تھا وہ اسی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور وہ انڈین فلم ''بوٹ پالش'' کا گیت تھا جس کے بول تھے:
لپک جھپک تو آ رے بدروا
سُر کی کھیتی سوکھ رہی ہے
برس برس تو گا رے بدروا
لپک جھپک تو آ رے بدروا
اور جاوید میر آخر میں یہ گیت گا کر ساری محفل لوٹ لیا کرتا تھا۔ اس گیت میں سروں کے جتنے لٹکے اور جھٹکے تھے وہ بڑی گھن گرج کے ساتھ ادا کیا کرتا تھا، اگر اس کو آنکھیں بند کرکے سنو تو یوں لگتا تھا کہ محمد رفیع کے گائے ہوئے گیت کا ریکارڈ سن رہے ہیں۔
جاوید میر اور میں ملاقات کے پہلے ہی دن سے ایک دوسرے کی گڈ بک میں آ گئے تھے۔ ان دنوں جاوید میر ریڈیو سے گاتا بھی تھا اور ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگراموں کوکمپوز بھی کیا کرتا تھا۔ اس نے کچھ عرصے تک ریڈیو سے بچوں کا پروگرام بھی کنڈکٹ کیا تھا۔ جاوید میر میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ موسیقی کی محفلوں میں گائیکی کے ساتھ ساتھ دلچسپ لطیفے بھی سنایا کرتا تھا اور اس کے جملوں میں بے ساختگی اتنی تھی کہ کبھی کبھی تو وہ معین اختر کی بھی بولتی بند کر دیا کرتا تھا اور معین اختر جملے کہنے میں جاوید اختر کو اپنا استاد مانتا تھا۔ اس کے جملوں اور فقروں کی تعریف ملک انوکھا اور فرید خان بھی کیا کرتے تھے۔ جب میر نے ریڈیو کے لیے گیت لکھنے شروع کیے تو ابتدا میں ریڈیو کے موسیقار لال محمد اقبال استاد امیر احمد خان، نیاز احمد اور جاوید میر کے ساتھ بھی کافی گیت لکھے۔ ایک گیت جو ان دنوں جاوید میر کی موسیقی میں میرا لکھا ہوا بہت مقبول ہوا تھا اسے ریڈیو کی گلوکارہ اسما احمد نے گایا تھا اور گیت کے بول تھے:
دور سجنا کا گاؤں
جانا ہے پاؤں پاؤں
کہیں سایا نہ چھاؤں
دور سجنا کا گاؤں
جاوید میر ایک باصلاحیت موسیقار بھی تھا راگ راگنیوں سے بھی اسے بڑی واقفیت تھی وہ کچھ عرصہ موسیقار لال محمد اقبال اور پھر موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ بھی بطور معاون کام کرتا رہا تھا۔ اسی زمانے میں کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ایک فلم ''گھر داماد'' کے نام سے بنی تھی جس کی موسیقی بھی جاوید میر ہی نے دی تھی۔ فلم کی ہیروئن روزینہ تھی اور ہیرو آج کے مشہور ٹیلی ویژن آرٹسٹ فیصل قریشی کے والد عابد قریشی تھے اور فلم ''گھر داماد'' کے ہدایت کار مسعود رضوی تھے جو کیمرہ مین سعید رضوی کے بڑے بھائی تھے۔
فلم ''گھر داماد'' فلاپ ہو گئی تھی اور فلم کے فلاپ ہونے سے مسعود رضوی بھی بڑے مایوس ہوئے تھے اور موسیقار جاوید میر بھی، پھر بطور موسیقار وہ ابھر نہ سکا تھا۔ اب میں آتا ہوں گلوکار جاوید اختر کی طرف جو پشاور سے کراچی آیا تھا اور وہ کراچی کے فنکشنوں سے پہلے اردو اور پشتو زبانوں میں گیت گا کر ابتدا میں پشاور ریڈیو اور پھرکراچی ریڈیوکا بھی کامیاب گلوکار ہوگیا تھا اور جاوید اختر کراچی میں جاوید اختر پشاور والا کے نام سے بالکل اس طرح مشہور ہوگیا تھا جس طرح کراچی میں پشاوری آئس کریم ان دنوں مشہور تھی ۔ ان دنوں کراچی کے فنکشنوں میں جاوید اختر پشاور والے کے جو چند گیت بڑے مشہور ہوئے تھے ان میں چند کے مکھڑے مندرجہ ذیل ہیں:
٭پشاور سے مری خاطر
دنداسہ لانا
او دل بر جاناں
٭ہولے ہولے رکھنا قدم او بلم
تیری قسم مٹ جائیں گے ہم
الفت کی راہوں میں ہیں پیچ و خم
ہولے ہولے رکھنا قدم
٭تجھ کو قسم ہے میری نہ آنا ہاتھ خالی
آنکھوں میں بسنے والے میرے چمن کے مالی
یہ گیت پشتو زبان میں تھے پھر ان گیتوں کو اردوکا روپ بھی دے دیا تھا اور مزے کی بات یہ ہوتی تھی کہ جاوید اختر سے موسیقی کی محفلوں اور فنکشنوں میں سامعین دونوں زبانوں میں یہ گیت سنا کرتے تھے اور پھر ان گیتوں کے دوران کچھ سامعین رقص بھی کیا کرتے تھے۔ جاوید اختر پشاور والا دیکھتے ہی دیکھتے دیکھتے یہ بھی کراچی میں ایک ہاٹ کیک سنگر مشہور ہو گیا تھا۔ اسی دور میں نوجوان گلوکار تحسین جاوید بھی منظر عام پر آگیا تھا اور اس کا بلوچی زبان میں گایا ہوا ایک گیت بھی بڑا مشہور ہوا تھا۔ جس کے بول اردو میں تھے اور دھن بلوچی لیوا کے انداز میں تھی۔ گیت کے بول تھے:
میں بھی کہوں تو بھی کہے
دم دما دم
پاس کوئی غم نہ رہے
دم دما دم
آج یہی شور اٹھے' دم دما دم
اس کے علاوہ اور ایک گیت بلوچی زبان میں بھی تحسین جاوید خوب گاتا تھا اور بڑا پسند کیا جاتا تھا اس کے بول تھے:
بابل سیرِ شما بے ملے
ماں وش ملے
بیادرِ سیر شما بے ملے
وش ملے' وش ملے
اس زمانے میں کراچی کے ہر فنکشن میں جاوید اختر پشاور والا اور تحسین جاوید اپنے پشتو اور بلوچی گیتوں کی وجہ سے بڑے پسند کیے جاتے تھے اور ان کے گیتوں کے دوران سامعین میں سے اٹھ کر بعض نوجوان اسٹیج پر آجاتے تھے اور پھر شاندار رقص بھی ایک سماں باندھ دیا کرتا تھا۔ کراچی کی محفلوں کا وہ دور بڑا شاندار دور تھا۔ ایک دن جاوید اختر پشاور والا نے کہا یار ہمدم! آپ کو کچھ غزلیں سنانی ہیں آپ کسی دن گھر آئیں۔ پھر ایک دن میں اس کے گھر گیا۔ اس نے ایک چھوٹی سی موسیقی کی محفل سجائی تھی اور پھر اس نے ہارمونیم پلے کرتے ہوئے اساتذہ کی کچھ غزلیں سنائیں۔ کچھ پنجابی کے گیت بھی سنائے جاوید اختر گیتوں سے ہٹ کر غزل کا بھی خوبصورت سنگر ہے۔
جاوید اختر کا تعلق تو پنجاب سے تھا مگر اس کا بچپن پھولوں کے شہر پشاور میں گزرا تھا۔ اس کی گائیکی میں سروں کا بڑا گہرا رچاؤ ہے۔ دو سال پہلے جب میں کراچی گیا تھا تو جاوید میر کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے اور پھر جب گزشتہ سال کراچی جانا ہوا تو میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد کراچی واپس آیا تو اسی رات نامور ٹی وی آرٹسٹ قاضی واجد کے بارے میں خبر ملی کہ وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گیا۔
اب میں گلوکار جاوید اختر سے ملنا چاہتا تھا مگر شاید وہ ان دنوں کراچی میں نہیں تھا۔ کراچی سے باہر کہیں فنکشن میں گیا تھا۔ پھر جب میں کراچی سے واپس نیوجرسی لوٹا تو چند دنوں کے بعد پتہ چلا کہ ایشین آرٹس کونسل کے اسلام محمود دہلوی لائق تحسین ہیں کہ وہ کراچی میں باصلاحیت فنکاروں کو ان کی زندگی ہی میں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خوبصورت محفلوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ ایشین آرٹس کونسل کی یہ خدمات قابل تحسین ہیں اس ادارے کی خدمات کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے۔