چناؤ کے میدان میں عورتوں کی ریکارڈ تعداد

مخصوص کے ساتھ عام نشستوں پر بھی خواتین امیدوار مدمقابل


مخصوص کے ساتھ عام نشستوں پر بھی خواتین امیدوار مدمقابل

محترمہ فاطمہ جناح سے نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، نسیم ولی خان، بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز تک پاکستانی عورت نے سیاست میں اپنا لوہا منوایا ہے۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستانی سیاست اور انتخابات کے عمل میں خواتین کا کردار بڑھتا جارہا ہے۔ پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک کی تاریخ میں خواتین کی سب سے بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے اور171 خواتین امیدوار میدان میں ہیں۔ خواتین امیدواروں کا صوبہ وار مختصر جائزہ پیش ہے۔

اسلام آباد کے تین حلقوں میں سات خواتین امیدوار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔ این اے 52 سے آسیہ بی بی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ انھوں نے کاغذات نام زدگی تو جمع کرائے جو منظور بھی ہوگئے لیکن اس کے بعد وہ کہیں نظر نہیں آئیں۔

این اے 53 سے عائشہ گلالئی امیدوار ہیں، وہ پاکستان تحریک انصاف (عائشہ گلالئی گروپ) کی بانی سربراہ ہیں، انتخابی عمل کے آغاز میں وہ نظر آئیں لیکن اس کے بعد بہت زیادہ نمایاں نہیں رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں تحریک انصاف عمران خان گروپ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ این اے 54 سے صائمہ شیراز آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم اس قدر خفیہ انداز میں کہ کوئی اخبارنویس ان کا پتا نہیں چلاسکتا۔ عصمت رضا عوامی ورکرز پارٹی کی نام زد امیدوار ہیں۔ وہ پارٹی کی مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ اسی طرح ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی سربراہ بھی ہیں۔ وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف نظر آتی ہیں۔

فاطمہ ملک 'ہمدردانِ وطن پاکستان' کی نام زد امیدوار ہیں۔ میمونہ خان، پاکستان تحریک انصاف عائشہ گلالئی گروپ کی نام زد امیدوار ہیں اور پارٹی کی مرکزی کوارڈینیٹر بھی ہیں۔ بنیادی طور پر لکی مروت صوبہ خیبرپختون خوا سے تعلق رکھتی ہیں۔ نوشین گل کھرل سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی جماعت 'پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی' کی نام زد امیدوار ہیں۔

تحریم قاضی،پنجاب

پنجاب میں مختلف حلقوں سے خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں کچھ خواتین کے پاس مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ ہیں، جب کہ کچھ آزاد حیثیت میں انتخابات لڑ رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے نادیہ عزیز (این اے 90 سرگودھا)، غلام بی بی بھروانہ (این اے 115 جھنگ)، فاطمہ طاہر چیمہ (این اے 168 بہاولنگر)، خدیجہ عامر (این اے 173بہاولپور)، تہمینہ دستی (این اے 182 مظفر گڑھ)، سیدہ زہرہ باسط بخاری (این اے 184 مظفر گڑھ)، زرتاج گل (این اے 191 ڈیرہ غازی خان) کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ ن لیگ کی طرف سے سائرہ افضل تارڑ (این اے 87 حافظ آباد)، اور شیزرہ منصب علی خان کھرل (این اے 118 ننکانہ) خواتین امیدوار ہیں۔

ملک کی بڑی جماعتوں میں سے پیپلزپارٹی نے مجموعی طور پر خواتین امیدواروں کو نسبتاً زیادہ ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ ان میں مہرین انور راجہ (این اے 57 راولپنڈی) ، سمیرا گل (این اے 62 راولپنڈی) اور نتاشہ دولتانہ (این اے 163 وہاڑی) شامل ہیں۔ آزاد حیثیت میں بھی خواتین الیکشن لڑ رہی ہیں، جن میں سیدہ صغرا امام (این اے 115جھنگ)، عائشہ نذیر (این اے162 وہاڑی) اور عارفہ نذیر (این اے163 وہاڑی) قابل ذکر ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے بھی بہت سے حلقوں میں خواتین امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

عام انتخابات میں حصہ لینے والی چند نمایاں ترین خواتین یہ ہیں: تحریک انصاف کی سرگرم راہ نما ڈاکٹر یاسمین راشد کا شمار ملک کے ممتاز ڈاکٹروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 2013میں لاہور کے ایک حلقے سے انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے مقابلے میں 50 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

نوازشریف کی نااہلی کے بعد بیگم کلثوم نواز نے اس حلقے سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا، جن کے مقابلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے 47ہزار ووٹ اپنے نام کیے۔ نئی مردم شماری کے تحت تشکیل دیے گئے لاہور کے حلقے این اے 125سے ایک بار پھر وہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس مرتبہ ان کا مقابلہ ن لیگ کی مرکزی راہ نما مریم نواز سے متوقع تھا، لیکن مریم نواز نے اپنا حلقہ تبدیل کرلیا، تاہم اب وہ سزا کے نتیجے میں ہونے والی نااہلی کی وجہ سے الیکشن عمل سے ہی باہر ہوچکی ہیں۔ ان کے مقابلے میں وحید عالم مسلم لیگ ن اور حافظ سلمان بٹ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ہیں۔

تہمینہ دولتانہ نے 1993ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر وہاڑی کے حلقہ این اے 130سے پہلی مرتبہ کام یابی حاصل کی۔ 1997ء کے الیکشن میں انہوں نے اس حلقے سے دوبارہ کام یابی حاصل کی اور انہیں وومین ڈویلپمنٹ، سوشل ویلفیئر اور اسپیشل ایجوکیشن کا وزیر بنایا گیا۔ 1999ء میں پرویزمشرف کے مارشل لا کے بعد انہوں نے بیگم کلثوم نواز کے ساتھ مل کر آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ 2002ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن دونوں میں ناکامی ہوئی۔

انہیں مسلم لیگ ن کی طرف سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنا دیا گیا۔ 2008ء میں انہوں نے قومی اسمبلی کی ایک نشست پر انتخابات میں کام یابی حاصل کی، جب کہ 2013ء میں ناکامی کے بعد انہیں دوبارہ مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنایا گیا۔ اب وہ وہاڑی کے حلقہ این اے 164 سے میدان میں ہیں، ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے طاہراقبال اور پیپلزپارٹی کے غلام سرورخان کھیچی ہیں۔

فردوس عاشق اعوان 2002ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2008ء کے الیکشن میں انہوں نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کام یابی حاصل کی اور وفاقی وزیر اطلاعات بنیں۔ 2013ء کے انتخابات میں انہیں ناکامی ہوئی۔ گذشتہ سال تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد اس مرتبہ وہ سیالکوٹ کے حلقہ این اے 72 میں پارٹی کی امیدوار ہیں۔ ان کے مقابلے میں چوہدری ارمغان سبحانی ن لیگ اور سید اشتیاق الحسن پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں۔

ثمینہ خالد گُھرکی نے 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر لاہور کے ایک حلقے سے کام یابی حاصل کی۔ 2013ء میں انہیں شکست ہوئی۔ اب وہ لاہور کے حلقہ این اے 132 میں پیپلزپارٹی کی امیدوار ہیں۔ ن لیگ کے صدر شہبازشریف، برابری پارٹی پاکستان کے جواد احمد اور تحریک انصاف کے منشاء سندھو بھی اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

روخان یوسف زئی ، خیبرپختون خوا

عام انتخابات کے لیے خیبرپختون خوا سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پی ٹی آئی گلالئی کی سربراہ عائشہ گلالئی سمیت مجموعی طور پر50خواتین امیدوار میدان میں اتری ہیں۔ صوبے سے قومی اسمبلی کی39نشستوں پر 16خواتین میدان میں ہیں، جب کہ 27حلقوں پر کوئی بھی خاتون امیدوار نہیں۔ صوبائی اسمبلی کے 99 حلقوں پر 33 خواتین میدان میں آئی ہیں اور71حلقے خواتین امیدواروں سے خالی ہیں۔

عام انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے13مانسہرہ اور این اے 27 پشاور پر سب سے زیادہ تین تین خواتین امیدوار میدان میں ہیں جب کہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے42 پر سب سے زیادہ 3 خواتین امیدوار میدان میں ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے سب سے زیادہ خواتین آزاد حیثیت میں میدان میں اتری ہیں، جن کی تعداد 5 ہے، جن میں سابق فاٹا کے علاقے سے انتخابات میں حصہ لینے والی پہلی خاتون امیدوار علی بیگم خان بھی شامل ہیں، جب کہ دیگر میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی تین تین، عوامی نیشنل پارٹی کی دو اور مسلم لیگ (ق)، پاک سرزمین پارٹی، تحریک انصاف (گلالئی) اور تحریک لبیک پاکستان کی ایک ایک خاتون امیدوار میدان میں ہے۔

صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف، اے این پی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) چاروں پارٹیوں نے پانچ پانچ خواتین امیدوار میدان میں اتاری ہیں، چار خواتین امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ قومی وطن پارٹی نے تین، ایم ایم اے اور تحریک لبیک پاکستان نے دو دو اور مجلس وحدت المسلمین اور عوامی پارٹی نے ایک ایک خاتون امیدوار میدان میں اتاری ہے ۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقوں پر این اے ون چترال سے آزاد امیدوار تقدیرہ اجمل، این اے 7دیرلوئر سے ن لیگ کی ثوبیہ شاہد، این اے13مانسہرہ سے اے این پی کی عفت کلثوم، مسلم لیگ ق کی نرگس علی اور آزاد امیدوار عنبرین احسن، این اے15سے پاک سرزمین پارٹی کی نصرت انجم، این اے17ہری پور سے اے این پی کی ارم فاطمہ اور پیپلزپارٹی کی شائستہ ناز، این اے23 چارسدہ سے مسلم لیگ(ن) کی بیگم طاہرہ بخاری، این اے25 نوشہرہ سے تحریک انصاف گلالئی کی سربراہ عائشہ گلالئی، این اے27 پشاور سے ن لیگ کی ثوبیہ شاہد، پیپلزپارٹی کی عاصمہ عالمگیر اور آزاد امیدوار سدرہ قدیم، این اے31سے تحریک لبیک پاکستان کی یاسمین، این اے 32 کوہاٹ سے آزاد امیدوار مدیحہ فراز، این اے35 بنوں سے پیپلزپارٹی کی سیدہ یاسمین صفدر اور این اے 46 فاٹا سات سے آزاد امیدوار علی بیگم خان میدان میں ہیں۔

خیبرپختون خوا اسمبلی کی 33 امیدواروں میں پی کے10دیر بالا سے پی ٹی آئی کی حمیدہ شاہد، پی کے15دیر لوئر سے آزاد امیدوار سمیرا، پی کے 26کوہستان سے پی ٹی آئی کی سدرہ خالد، پی کے30 مانسہرہ سے پی ٹی آئی کی ماریہ فاطمہ، پی کے 34 مانسہرہ سے پی ٹی آئی کی زاہدہ سہیل، پی کے36ایبٹ آباد سے اے این پی کی روبینہ زاہد، پی کے37 ایبٹ آباد سے اے این پی کی رخسانہ بی بی اور قومی وطن پارٹی کی رابعہ گل، پی کے38 ایبٹ آباد پر اے این پی کی بی بی شہنازراجہ اور پیپلزپارٹی کی شازیہ طہماس، پی کے 39 ایبٹ آباد سے تحریک لبیک پاکستان کی قاسمہ شاہین، پی کے40 ہری پور سے مجلس وحدت المسلمین کی راضیہ جعفری اور اے این پی کی فرازیہ شاہین، پی کے41 ہری پور سے اے این پی کی سائرہ سید اور متحدہ مجلس عمل کی فرزانہ ریحان، پی کے42 ہری پور سے پی ٹی آئی کی صائمہ خالد، ایم ایم اے کی نسیم اختر اور آزاد امیدوار فائزہ بی بی رشید،

پی کے49 مردان سے سابق اسپیکر عبدالاکبرخان مرحوم کی بیوہ پیپلزپارٹی کی خائستہ بیگم، پی کے51 مردان سے قومی وطن پارٹی کی امتیاز بی بی، پی کے 52 مردان سے عوامی ورکر پارٹی کی ریحانہ بی بی، پی کے 58 چارسدہ سے ن لیگ کی سمیراخان، پی کے60 چارسدہ سے ن لیگ کی فرح خان، پی کے62 نوشہرہ سے آزاد امیدوار بی بی سعیدہ، پی کے 72 پشاور سے قومی وطن پارٹی کی نرگس ثمین، پی کے77 پشاور سے تحریک لبیک پاکستان کی صائمہ شہزاد، پی کے78 پشاور سے آزاد امیدوار ثریاشہاب، پی کے80 اور 82 کوہاٹ سے ن لیگ کی جمیلہ پراچہ، پی کے88 بنوں سے پیپلزپارٹی کی سیدہ یاسمین صفدر، پی کے89 بنوں سے پیپلزپارٹی کی مہرسلطانہ، پی کے91 لکی مروت سے پی پی پی کی فرزانہ شیرین اور پی کے 98 ڈی آئی خان سے ن لیگ کی خورشید بی بی شامل ہیں۔

ندیم سبحان میو، سندھ

سندھ میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مجموعی طور پر 139 خواتین مختلف جماعتوں کی نمائندگی کررہی یا آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کے علاوہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین امیدوار میدان میں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اسی جماعت نے سب سے زیادہ تعداد میں خواتین امیدواروں کو نام زد کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی پی پی پی کی جانب سے پی ایس 10لاڑکانہ کی نشست پر امیدوار ہیں۔ پارٹی کی بااثر ترین شخصیات میں شمار ہونے والی فریال تالپور 2008ء میں این اے 207 لاڑکانہ سے ضمنی الیکشن میں کام یاب ہوئی تھیں۔ بعدازاں 2013ء میں انھوں نے اسی حلقے سے ایک بار پھر کام یابی حاصل کی۔ قبل ازیں وہ نواب شاہ (بے نظیرآباد) کی میئر بھی رہ چکی تھیں۔ آصف علی زرداری کی دوسری ہمشیرہ عذرا فضل پیچوہو پی ایس 27 شہید بے نظیر آباد سے پارٹی کی امیدوار ہیں۔ پہلی بار وہ 2002ء کے عام انتخابات میں کام یاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں۔ بعدازاں 2008ء اور 2013ء میں بھی این اے 213 شہید بے نظیر آباد کے ووٹروں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔

شازیہ عطا مری سندھ کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ 2002ء، 2008ء اور پھر 2013ء میں وہ سندھ سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کام یاب ہوئی تھیں۔ 2008ء میں سندھ میں پی پی پی کی حکومت کے قیام کے بعد دو سال تک انھوں نے وزیرتوانائی اور وزیراطلاعات کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2013ء میں وہ این اے 235 سانگھڑ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ واضح رہے کہ اس حلقے سے پیرپگار کے نام زد کردہ امیدوار ہی کام یاب ہوتے تھے، تاہم 2013ء میں شازیہ مری نے کام یابی حاصل کرکے سب کو حیران کردیا تھا۔ موجودہ انتخابات میں وہ این اے 216 سانگھڑ سے قومی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی دختر نفیسہ شاہ بھی میدان میں ہیں۔ وہ این اے 208 خیرپور سے پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہی ہیں۔ قبل ازیں وہ خیرپور کی ناظم رہ چکی ہیں۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے والی نفیسہ شاہ گذشتہ دونوں انتخابات میں پی پی پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔

کراچی سے پیپلز پارٹی نے سات خواتین کو ٹکٹ دیے ہیں مگر تمام امیدواروں کو ان حلقوں سے نام زد کیا گیا ہے جہاں پارٹی کا ووٹ بینک نسبتاً کم زور ہے۔ 2008 ء اور 2013ء میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر کے فرائض نبھانے والی سیدہ شہلا رضا این اے 243 ( ضلع شرقی) سے انتخابی میدان میں اتری ہیں۔ جامعہ کراچی سے نفسیات میں ماسٹرز کی سند کی حامل شہلا رضا کا اس حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی سے مقابلہ ہے۔ تحریک انصاف کی سابق راہ نما ناز بلوچ پی پی پی میں شمولیت کے بعد پی ایس 127 (ضلع وسطی) سے چُناؤ لڑ رہی ہیں۔ ناز بلوچ پی پی پی کے سابق وزیر عبداﷲ بلوچ کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے 2013ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر این اے 240 سے انتخاب لڑا تھا اور دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے گذشتہ برس جولائی میں پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔

پی پی پی نے گذشتہ دورحکومت میں وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر رہنے والی شمیم ممتاز کو پی ایس 124 (ضلع وسطی) سے امیدوار نام زد کیا ہے، جب کہ ڈاکٹرشاہدہ رحمانی پی ایس 118 (ضلع غربی) سے قسمت آزمائی کریں گی۔ ضلع کورنگی کی نشستوں پی ایس 93، 94 اور 95 سے بالترتیب انجم نذیر، گل رعنا اور رابعہ عباسی کو انتخابات میں پی پی پی کی نمائندگی دی گئی ہے۔ یہ تمام غیرمعروف خواتین ہیں۔

آصف علی زرداری کے سابق دیرینہ رفیق ڈاکٹرذوالفقار مرزا کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، پیر پگارا کی سربراہی میں تشکیل پانے والے سیاسی جماعتوں کے اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پرچم تلے بدین سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 230 اور صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 73 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں قومی اسمبلی کی اسپیکر رہ چکی ہیں۔ آصف زرداری کے ساتھ اختلافات کے بعد جب ان کے شوہر ذوالفقار مرزا نے پی پی پی سے راہیں جُداکیں تو ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی شہید بے نظیر بھٹو کی پارٹی سے منھ موڑ لیا۔

سترہ سال تک پاکستان تحریک انصاف سے جُڑی رہنے کے بعد فوزیہ قصوری رواں سال مئی میں مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا حصہ بن گئیں۔ پی ٹی آئی کی بانی رکن کے عمران خان کی پارٹی سے منھ موڑنے کے فیصلے سے زیادہ پی ایس پی میں شمولیت حیرانی کا باعث تھی۔ اب وہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 247 سے پی ایس پی کی امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ حمید این اے 249 سے پی ایس پی کی نام زد کردہ امیدوار ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان نے کشور زہرا کو قومی اسمبلی کی نشست این اے 242 سے میدان میں اتارا ہے۔ پچھلے دونوں انتخابات میں جیت کر بعد وہ قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ این اے 248 کی نشست پر ایم کیو ایم پاکستان نے افشاں قمبر علی کو نام زد کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے این اے 238 ملیر سے زنیرہ رحمان کو اپنی امیدوار نام زد کیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے این اے 245کراچی ایسٹ سے ثمینہ ہما میر میدان میں ہیں۔ اے این پی نے این اے 256 ضلع وسطی سے صوفیہ یعقوب کو انتخابی میدان میں اتارا گیا ہے۔ اسی طرح این اے 244 کراچی فائیو سے اے این پی کی قیادت نے شازیہ رزاق خان پر اظہار اعتماد کیا ہے۔ سندھ اسمبلی کی نشستوں PS-103 کراچی ایسٹ سے معصومہ نور ترین اور پی ایس 87 ملیر سے صائقہ نور اے این پی کی نمائندگی کررہی ہیں۔

عارف محمود ،بلوچستان

بلوچستان جیسے قبائلی معاشرے میں بھی خواتین نے سیاست اور انتخابات میں اپنی اہمیت منوائی ہے اور کئی خواتین اُمیدوار بھی اس الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ گذشتہ انتخابات تک خواتین کے ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح کم تھی، لیکن اس مرتبہ اس شرح میں بہت زیادہ اضافہ متوقع ہے۔ خواتین اُمیدواروں کی کارنرمیٹنگز میں مردوں کی بڑی تعداد کے ساتھ خواتین بھی کثیر تعداد میں شرکت کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں لگ بھگ 83 خاتون امیدوار عام نشستوں اور مخصوص نشستوں پر مقابلہ کررہی ہیں۔ کم از کم 25خواتین عام نشستوں کے لیے، سات قومی اسمبلی کے لیے اور 18صوبائی اسمبلی کے لیے مقابلے میں حصہ لے رہی ہیں۔ 25 امیدواروں میں سے 13کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے جب کہ12بہ طور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

صوبے سے الیکشن کے میدان میں موجود خواتین میں بلوچستان اسمبلی کی سابق اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی کا نام نمایاں ہے۔ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ وہ کوئٹہ کے حلقہ این اے265 اور پی بی 29 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

ایک اور خاتون امیدوار مس حمیدہ ہزارہ ہیں۔ ان کا تعلق جمہوری وطن پارٹی سے ہے اور وہ پارٹی کی مرکزی سیکرٹری برائے خواتین کے عہدے پر فائز ہیں۔ مس حمیدہ ہزارہ کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارہ ٹاؤن میں بڑی جرأت کے ساتھ ریسٹورنٹ چلارہی ہیں، جس کا تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔ وہ سماجی کاموں کی دل دادہ ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔1982ء میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والی مس حمیدہ نے بلوچستان یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں گذشتہ8 سال سے سماجی شعبے سے وابستہ ہوں اور خواتین ووٹرز کی جانب سے مجھے بڑی پذیرائی مل رہی ہے، جب کہ مرد ووٹر بھی مجھے سپورٹ کررہے ہیں۔

یاسمین لہڑی NA-265کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے مقابلہ کررہی ہیں۔ یاسمین لہڑی مخصوص نشست پر بلوچستان اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔مزید دو خواتین امیدوار صوبائی اسمبلی کے حلقوں PB-13، PB-29 اورPB-47سے ان مقابلوں میں شامل ہیں۔ خواتین امیدوار جو PB-13 سے مدمقابل ہیں، ان میں زریں گل (پاکستان پیپلز پارٹی) اور راحت جمالی (آزاد امیدوار) شامل ہیں۔

PB-29 سے آزاد امیدوار مومنہ بابر ن لیگ کی راحیلہ حمید درانی کے مقابل ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بشریٰ اور متحدہ مجلس عمل کی عاصمہ PB-47 کی نشست کے لیے آمنے سامنے ہوں گی۔ زبیدہ جلال جو 2002کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کی جانب سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں، وہ بھی عام نشست کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر مقابلہ کررہی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 26 کوئٹہ تھری کے لیے اے این پی نے جمیلہ کاکڑ کو ٹکٹ دیا ہے۔

جہاں عورتیں ووٹ بھی نہیں دے سکتی تھیں۔۔۔

خیبرپختون خوا کے علاقے دیربالا کی حسین مگر پس ماندہ وادی عشیری درہ سے تعلق رکھنے والی پی کے 10سے پاکستان تحریک انصاف کی خاتون امیدوار حمیدہ شاہد علاقے کی پہلی خاتون ہیں جو جنرل نشست پر انتخاب لڑرہی ہیں۔ انہوں نے نہ صرف عام لوگوں بل کہ میڈیا کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروائی ہے کیوں کہ وہ جس سخت روایتی علاقے اور ضلع سے تعلق رکھتی ہیں وہاں کسی خاتون کا الیکشن میں حصہ لینا بڑی جرأت کا کام ہے۔ اس علاقے میں ماضی میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

لوگ اس وقت حیران رہ جاتے ہیں جب حمیدہ شاہد علاقے کی مخصوص شٹل کاک برقع کے بغیر گھرگھر جاتی ہیں، ساتھ راستے میں مردوں میں اپنے پروگرام پر مبنی پمفلٹ بھی تقسیم کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس حلقے میں رواں برس فروری میں ضمنی انتخابات میں خواتین نے تقریباً چار دہائیوں کے بعد پہلی بار حق رائے دہی استعمال کیا۔ حمیدہ شاہد کے مطابق وہ اپنے علاقے کی خواتین کے لیے ایک روایت اور مثال بننا چاہتی ہیں اور ان میں اپنے حقوق کا شعور اجاگر کرنا چاہتی ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران حمیدہ شاہد گھر گھر جاتی ہیں۔ پہلے مَردوں سے ملتی ہیں پھر گھر کی خواتین کو سمجھاتی ہیں کہ ووٹ کی طاقت کتنی ہے؟ اس سے آپ کیا تبدیلی لاسکتی ہیں اور اس کا استعمال کیوں اور کیسے کرنا چاہیے؟ حمیدہ شاہد جس حلقے پی کے 10دیر بالا سے الیکشن لڑ رہی ہیں یہ حلقہ جماعت اسلامی کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں یہاں صرف ایک خاتون نے ووٹ ڈالا تھا، جب کہ یہاں تقریباً ایک لاکھ 40ہزار خواتین ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ (روخان یوسف زئی)

سنیتا پرمار (صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر الیکشن لڑنے والی پہلی ہندو خاتون)

صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر سے پہلی بار ایک ہندو خاتون جنرل نشست پر عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ 30 سالہ سنیتا پرمار ضلع تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ کی سندھ اسمبلی کی نشست حلقہ پی ایس 56 اسلام کوٹ سے بہ طور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ سنیتا کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلزپارٹی سمیت دیگر حکم راں جماعتیں ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پیپلزپارٹی گذشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کا استحصال کیا جاتا رہا۔ اسی عنصر نے انھیں تھر کی عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کی تحریک دی۔ سنیتا کا علاقہ اسلام کوٹ ہندو اکثریتی علاقوں میں شمار ہوتا ہے جن میں میگھواڑ، بھیل اور کوہلی برادری کا ووٹ بینک دوسروں کے مقابلے میں 70 فی صد ہے۔ سنیتا کی انتخابی مہم میں ان کے گھر والے اور برادری ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ ان کی کاغذاتِ نامزدگی کی فیس بھی برادری نے پیسے جمع کرکے ادا کی۔ (ندیم سبحان)

علی بیگم کرتی ہیں تاریخ رقم

سابق فاٹا سے پہلی بار ایک خاتون امیدوار میدان میں آئی ہیں۔ کرم ایجنسی کے حلقے سے الیکشن لڑنے والی یہ امیدوار علی بیگم سابق بیوروکریٹ ہیں اور خیبرپختون خوا میں مختلف سرکاری محکموں میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں۔ 2009ء میں ریٹائر ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ امریکا میں رہیں، کیوں کہ اس وقت فاٹا سمیت پورے صوبے کے حالات انتہائی مخدوش تھے۔ بعد میں جب حالات نارمل ہوگئے تو وہ واپس اپنے آبائی گاؤں میکے کرم ایجنسی آئیں، اور فاٹا کا صوبے میں انضمام کے بعد ضلع کرم ایجنسی سے این اے46کی جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ علی بیگم آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ ان کے بقول تعلیم اور صحت ان کی اولین ترجیح ہے اور کرم ایجنسی کی تعمیر اور ترقی میرا سب سے بڑا خواب ہے۔ (روخان یوسف زئی)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں