کپتان پھر زخمی ہے……

کپتان کے سیاسی کیریئر پر نظردوڑاتا ہوں تو مجھے اس کے اسپورٹس کیریئر سے حیرت انگیز مماثلت لگتی ہے۔


Ayaz Khan May 10, 2013
[email protected]

عباس اطہر (شاہ جی) چلے گئے۔ چار دن سے کوشش کر رہا ہوں کہ ان کے ساتھ دو دہائیوں کی رفاقت کے بارے میں کچھ لکھوں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ ان کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں تو قلم جیسے رُک سا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں ضرور لکھوں گا، فی الحال عمران خان کے ساتھ پیش آنے والے حادثے پر بات کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے لفٹر سے گرنے کے باوجود ان کی جان بچ گئی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کسی اور بڑے لیڈر کی موت کا صدمہ سہنے کی اب ہم میں ہمت نہیں ہے۔ ہمارے لیڈر جو سیاسی میدان میں اُترے ہوئے ہیں، خدا ان سب کی حفاظت کرے۔ یہ دعا بھی ہے کہ الیکشن کا انعقاد خیر و عافیت سے ہو جائے اور قوم اپنی جمہوری حکومت کا انتخاب کر لے۔

کپتان کے سیاسی کیریئر پر نظردوڑاتا ہوں تو مجھے اس کے اسپورٹس کیریئر سے حیرت انگیز مماثلت لگتی ہے۔ وہ کرکٹ کے میدان میں اُترا اور فلاپ ہو کر باہر چلا گیا۔ سیاسی سفر بھی شروع میں کھوٹا ہو گیا۔ کرکٹ میں واپس آیا اور پھر ریٹائرمنٹ تک دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز کی صف میں شامل رہا۔ کرکٹ میں سب سے بڑا معرکہ ورلڈ کپ کی فتح تھی۔ پاکستان 1992ء سے پہلے اور بعد میں یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکا۔ کپتان کیریئر کے آغاز میں تین سال کے لیے باہر کر دیا گیا اور درمیان میں ڈھائی سال کے لیے پنڈلی کے زخم نے اسے بولنگ سے محروم رکھا۔ ڈاکٹروں نے صرف بیٹنگ کرنے کی اجازت دی۔

1992ء کے ورلڈکپ کے فائنل میں کپتان زخمی تھا۔ اس کا کندھا بری طرح مجروح تھا۔ درد تھا کہ رکنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ ڈاکٹروں نے انتباہ کیا ''اس حالت میں کھیلنے سے باز رہو ورنہ کندھا ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جائے گا۔'' اس نے ڈاکٹروں کی ہدایت سُنی ان سُنی کر دی۔ میدان میں اُترا، 7گھنٹے کے کھیل میں درد کی شدت کو کم کرنے کے لیے 7انجکشن لگوائے۔ بیٹنگ اور فیلڈنگ ہی نہیں بولنگ بھی کرتا رہا۔ بیٹنگ کے لیے میدان میں اُترا تو ون ڈاؤن پوزیشن پر آکرسب سے زیادہ 72 رنز بنا کر ٹیم کی فتح کے لیے پوزیشن مستحکم کی۔ گوروں کی بیٹنگ آئی تو زخمی کندھے کے ساتھ 6 اوور کر ڈالے، انگلینڈ کی آخری وکٹ اپنے نام کی اور پاکستان کو فتح دلا دی۔ یہ معرکہ سر کرنے سے پہلے جب کپتان ڈھائی سال کے لیے انجری کے باعث بولنگ نہیں کر سکا تو اس کی کیفیت کیا تھی... آئیے اسی کی زبانی سنتے ہیں...!

''سارے سپنے ٹوٹ گئے''۔'' صرف ایک کھلاڑی ہی محسوس کر سکتا ہے کہ جب ایک چوٹ سے اس کا کیریئر تباہ ہونے لگے تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ میری اب تک کی زندگی میں یہ سب سے بڑا حادثہ تھا۔ میں وہ اعتماد بھی کھو بیٹھا جو مدتوں کی محنت کا ثمر تھا۔ کامیابی حسد پیدا کرتی ہے اور اب مجھے اس کا سامنا تھا... میرے متعلق افسوس ناک مضامین چھپنے لگے۔ دو تین کھلاڑیوں نے، جو تب میرا مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے، غیبت کو شعار بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ میں ختم ہو چکا اور یہ قرض چکانے کا وقت ہے۔ ایسے لوگوں کا مقابلہ میں ہمیشہ میدان میں کرتا اور ان کا منہ بند کر دیا کرتا۔ اب میں بے بسی کا شکار تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کیا کروں۔ میں نے گوشئہ نشینی اختیار کر لی اور ایک ذہنی بحران نے مجھے آ لیا۔ اب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو محض چائے کی پیالی میں اٹھنے والا ایک طوفان تھا۔ بہت بعد میں... میں نے کرکٹ کے مورخ ڈیوڈ فرتھ (David Frith) کی کتاب پڑھی کہ کتنے ہی کھلاڑیوں نے اس حال میں خودکشی کر لی جب میں وہ میدان میں اُترنے کے قابل نہ رہے۔ اگرچہ میں اس کیفیت میں کبھی مبتلا نہ ہوا لیکن اب میں ان کی ذہنی اذیت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ ذہن میں اس سوال کے ساتھ کہ اب کبھی میں باؤلنگ کر سکوں گا یا نہیں، میں نے خود کو غیر محفوظ پایا اور اپنے آپ پر میرا اعتماد متزلزل ہونے لگا۔

میں ایک ستارہ شناس اور قسمت کا حال بتانے والے دو اور آدمیوں سے ملا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی ایسے لوگوں کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ کبھی مجھے ان کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ خود پر میرا اعتماد ایسا تھا کہ اپنی صلاحیت اور ریاضت سے جو چاہوں میں حاصل کر سکتا ہوں۔ میں ان کھلاڑیوں جیسا نہ تھا جو شگون لیتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں چیز یا عادت کی وجہ سے کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ نجومیوں سے میری ملاقاتیں بے ثمر رہیں۔ جو کچھ انھوں نے کہا اس کا بڑا حصہ بے بنیاد تھا۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ کبھی ان کے پاس نہ جاؤں گا۔ احتیاج اور پریشانی کے باوجود میں اللہ کی طرف متوجہ رہا، خاص طور پر اس وقت جب پنڈلی میں ٹیس اٹھتی۔ دو بار زخم کے مکمل طور پر مندمل ہونے سے پہلے میں نے گیند کرانے کا تجربہ کیا۔ تیسری بار میں محتاط رہا لیکن اپنے آپ سے میں نے کہا:... ''اللہ جانے اب کیا ہو گا، میں کبھی کھیل بھی سکوں گا یا نہیں؟''

کپتان آج پھر زخمی ہے۔ 1992ء میں وہ زخمی ہونے کے باوجود اپنی ٹیم کو لیڈ کرنے خود میدان میں اُترا اور وہاں سے فاتح بن کر نکلا۔ آج وہ اسپتال میں بستر پر پڑا ہوا ہے، اس کی ٹیم میدان میں ہے مگر وہ اسپتال سے لیڈ کر رہا ہے۔ خود میدان میں نہیں اتر سکتا۔ سیاسی میچ کے 'سیمی فائنل' تک وہ میدان میں اترتا رہا۔ فائنل میں میدان سے باہر بیٹھ کر اس نے اپنا کام کر دیا۔ کرکٹ کے میدان سے وہ فاتح بن کر نکلا تھا، آج سیاست کے میدان میں اس کی فتح یا شکست کا فیصلہ ووٹر کرینگے۔ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے''کا اختتام ایک نئے آغاز سے ہونے جا رہا ہے۔ مجھے ووٹروں کے فیصلے کا انتظار ہے، یقیناً آپ بھی منتظر ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں