عام انتخابات اور نظریاتی ووٹرز
تمام جماعتوں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے فیصلے میں آسانی فراہم کریں۔
عام انتخابات قریب تر آگئے ہیں اور مختلف جماعتوں کی انتخابی مہم بھی عروج پرپہنچ چکی ہے۔ کہنے کو تو ملک ایک ہے اور قوم بھی ایک، یعنی پاکستانی، مگر انتخابی مہم کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ قوم ان انتخابات میں نظریاتی طور پر بھی تقسیم ہے اور امیدوار ووٹرز سے نظریاتی بنیادوں پر بھی ووٹ ڈالنے کی اپیل کررہے ہیں۔
راقم نے اپنے گزشتہ دو کالم میں اس بات پر زور دیا تھا کہ ووٹ صاحب کردار اور کرپشن سے پاک امیدواروں کو دیا جائے۔ اس پر ہمارے ایک کرمفرما کا کہنا تھا کہ جناب آپ نے یہ کیوں نہیں لکھا کہ ووٹ نظریاتی اعتبار سے دینی جماعتوں کو دیا جائے، جب کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت پارلیمنٹ میں نظریاتی جنگ جاری ہے اور آئے دن ایسی قانون سازی ہوتی نظر آتی ہے کہ جو دینی عقائد کے برخلاف ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں عرض ہے کہ عام انتخابات میں تو بعض جگہ ایک ہی حلقے سے ایک سے زائد دینی جماعتوں کے امیدوار کھڑے ہوئے ہیں، عوام آخر کسی ایک کا انتخاب کیسے کریں، جب کہ ان امیدواروں میں کردار کے اعتبار سے سب ایک جیسے نہیں ہوسکتے، نیز کسی دیندار اور ایماندار امیدوار کا تعلق آزاد یا کسی بھی جماعت سے ہوسکتا ہے، لہٰذا ایسے میں ایک اصول ہی بہتر ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ جس کا کردار سب سے اچھا یا بے داغ ہو، عوام اس کو ووٹ ڈالیں۔
راقم کا ووٹ جس حلقے میں ہے وہاں اب تک کی معلومات کے مطابق ایم ایم اے کے امیدوار ڈاکٹر معراج الہدیٰ بھی ہیں، جو جماعت اسلامی کی ایک معروف شخصیت ہیں اور جب راقم اس حلقے کے تمام امیدواروں کا جائزہ لیتا ہے تو ان میں ان کا کردار سب سے زیادہ صاف لگتا ہے، جن پر ماضی میں کسی قسم کی کرپشن کا معمولی سا الزام بھی سننے میں نہیں آیا۔
بات یہ نہیں کہ ان کے مقابلے میں جو امیدوار کھڑے ہیں وہ کرپٹ ہیں، ان میں بھی اچھی شہرت کے امیدوارشامل ہیں لیکن جب کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو میری معلومات کے مطابق ان کا نام سرفہرست آتا ہے جن کو پورے اعتماد سے ووٹ دیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پورے ملک میں ایم ایم اے کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں سرفہرست ہوں اور انھیں آنکھ بند کرکے صرف اس بنیاد پر ووٹ ڈال دیا جائے کہ ان کا انتخابی نشان 'کتاب' ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کوئی بھی امیدوار جیت کر جب اسمبلی جاتا ہے تو اس کا کردار دو بڑے حصوں میں واضح طور پر تقسیم ہوتا ہے، ایک وہ پیسہ جو اس کو اس اختیار کے ساتھ ملتا ہے کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے خرچ کرے، دوسرے یہ کہ وہ اختیارات جس کے تحت وہ اس ملک کی قانون سازی میں حصہ لیتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ہمیں ایک ایسا امیدوار منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجنا ہوتا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کو تہہ دل سے ماننے والا بھی ہو اور امانت دار اور ایماندار بھی ہو، تاکہ جو پیسہ بھی حکومت کی طرف سے ملے اس کی ایک ایک پائی کو وہ عوام کی امانت سمجھ کر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے۔
چنانچہ ایسی صورتحال میں اس امیدوار کو ووٹ دینا عقلمندی نہیں ہوگا جو بظاہر مذہبی جماعت سے تعلق تو رکھتا ہے مگر امانت دار اور ایماندار نہ ہو، اس پر کرپشن کا الزام ہو، اسی طرح اس امیدوار کو ووٹ دینا بھی درست فیصلہ نہ ہوگا کہ جو کرپٹ تو نہ ہو مگر دینی سوچ رکھنے والا نہ ہو اور خدشہ ہو کہ وہ اسمبلی میں جاکر غیر دینی نظریات کے لیے قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا، جیسا کہ بعض دینی معاملات میں گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ہی منتخب کردہ لوگ نظر آئے۔
راقم کی نظر میں یہ دونوں قسم کے معاملات اس ریاست کے اہم ترین مسائل ہیں۔ چنانچہ بحثیت ووٹر ہم پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ اگرچہ جمہوری نظام کے اس انتخابی عمل سے اس ملک میں کوئی بڑا انقلاب برپا نہیں ہوتا، مگر پھر بھی ہمیں ووٹ ڈالتے وقت کسی بھی امیدوار کے دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا، تاکہ اس عمل میں زیادہ سے زیادہ وہ لوگ منتخب ہوکر آگے آئیں جو اس ملک کے عوام کی خدمت کرتے ہوئے نہ کرپشن کریں اور نہ ہی اس ریاست کو لادین ریاست کے نقش قدم پر لے جانے کے لیے کوئی قانون سازی کریں۔
اب یہ بھاری ذمے داری ہماری تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ہے کہ وہ خود سے بھی ان پہلوؤں پر غور کریں اور اپنے اپنے امیدواروں کا جائزہ لیں کہ دوسرے امیدوار کے مقابلے میں ان کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مذہبی جماعتوں کے امیدوار بہت سے حلقوں سے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، جب کہ ان کا نعرہ ہے کہ دین کے نظریاتی معاملات کو تحفظ دینے کے لیے اس انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں، لہٰذا عوام انھیں ووٹ دیں۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایسے امیدواروں میں سے صرف اس امیدوار کو متفقہ طور پر انتخاب لڑنے دیا جائے جو کردار اور شہرت کے اعتبار سے سب سے زیادہ ایماندار اور امانتدار ہو، کیونکہ نظریاتی معاملات پر تو ہر امیدوار اپنا کردار ادا کردے گا مگر جو ایمانداری کی شہرت زیادہ رکھتا ہوگا اس کو ووٹ بھی زیادہ لوگ دیں گے اور وہ منتخب ہونے کے بعد عوام کی خدمت بھی زیادہ بہتر کرسکے گا بغیر کسی کرپشن کے۔ واضح رہے کہ کرپٹ لوگ تو دینی جماعتوں کی چھتری بھی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، اب یہ دینی جماعتوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ خود سے کوئی فیصلہ کرکے عوام کے ووٹ ڈالنے کے فیصلے کو آسان بنائیں۔
کراچی شہر میں مڈل اور خاص کر لوئر مڈل کلاس میں توقع ہے کہ نئی ابھرنی والی ایک مذہبی جماعت کو ووٹ زیادہ ملیں گے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں اس کی حامی آبادی زیادہ ہے، پھر یہ ایک نئے 'آپشن' کے طور پر بھی ووٹرز کی توجہ حاصل کررہی ہے، نیز ان کا یہ بیانیہ بھی بڑا اہم ہے کہ حلقہ کوئی بھی ہو، شہر کوئی بھی ہو اور امیدوار کوئی بھی ہو، بسہمیں ووٹ ڈالنا ہے ۔ کراچی میں ایک مذہبی جماعت کو جن علاقوں سے زیادہ ووٹ ملنے کی توقع ہے، ان علاقوں میں پہلے ایم کیو ایم کو ووٹ ملتے تھے، لہٰذا اب ایم کیو ایم کے ووٹ کم ہوں گے چاہے وہ کوئی بھی گروپ ہو۔
مختصر یہ کہ اس مرتبہ صرف ووٹرز پر ہی نہیں، تمام جماعتوں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے فیصلے میں آسانی فراہم کریں اور سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کرکے امیدواروں کی تعداد خود ہی کم کردیں تاکہ کوئی عام ووٹر ہو یا نظریاتی، اسے ووٹ ڈالنے کے لیے امیدوار کا انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔