عوامی احتساب

آج ملک میں جو سیاسی افراتفری اور عدم استحکام نظر آ رہا ہے اس کی وجہ بھی ہمارے سیاستدان ہی ہیں۔


عثمان دموہی July 22, 2018
[email protected]

موجودہ الیکشن کو ماضی کے الیکشنوں سے اس لحاظ سے مختلف کہا جا سکتا ہے کہ اب عوام شخصیت پرستی کے سحر سے نکل کر انتخابی امیدواروں کا خود ہی احتساب کرنے لگے ہیں۔ چنانچہ اس وقت پرانے امیدواروں کو اپنے حلقوں کا دورہ کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ جب بھی اپنے پرانے حلقوں میں جاتے ہیں وہاں کے عوام انھیں گھیر لیتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھانے لگتے ہیں۔

ووٹرز کی جانب سے زیادہ تر سوالات ان حلقوں کے حالات خصوصاً پانی، بجلی، صفائی اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ ان سے یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ گزشتہ الیکشن کے بعد سے وہ پورے پانچ سال کہاں غائب رہے اور ان کے مسائل سے کیوں لا تعلق رہے۔ اس دفعہ تو نامی گرامی سیاستدانوں کو بھی ان کے حلقے کے لوگوں نے نہیں بخشا اور ان کا پہلے کی طرح استقبال کرنے کے بجائے انھیںکھری کھری سنائی ہیں۔

پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا لوگ مسائل سے زیادہ شخصیات کو اہمیت دیا کرتے تھے اور ان کی بلند شخصیت کے سحر میں جکڑ کر اپنے مسائل ہی بھول جاتے تھے۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اور وہ شخصیات پرستی سے بیزار ہو کر اب اپنے مسائل کی بات کرتے ہیں اور انھیں حل کرانے پر اصرار کرتے ہیں۔ دراصل اس ذہنی بیداری کی وجہ ہمارے سیاست دانوں کی خود غرضی اور بے حسی ہے وہ الیکشن جیت کر خود اپنے مسائل تو حل کر لیتے ہیں یعنی خودکو مالی طور پر اتنا طاقتور بنا لیتے ہیں کہ اس سے ان کی آئندہ نسلیں بھی مستفید ہوتی رہتی ہیں مگر انھیں عوامی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

آج ملک میں جو سیاسی افراتفری اور عدم استحکام نظر آ رہا ہے اس کی وجہ بھی ہمارے سیاستدان ہی ہیں۔ اب تک ملک میں چار مارشل لا لگ چکے ہیں۔ ایسا ماجرا کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہ کسی جمہوری ملک کو زیب نہیں دیتا کہ اس کے سیاستدان ملک کو چلانے میں ناکام ہو کر غیر جمہوری طاقتوں کی حمایت کریں۔ خدا کا شکر ہے کہ ملک پھر بھی آگے بڑھتا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہم نے بھارت کے مقابلے میں ترقی کا سفر زیرو سے شروع کیا تھا جو خوش قسمتی سے اب ملک کے ایٹمی طاقت بننے تک پہنچ چکا ہے۔ ملک میں اگر خود غرض سیاست دانوں کی کمی نہیں تو ملک کے مفاد میں سوچنے والے بھی موجود ہیں۔

ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا خیال سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو آیا وہ اس لیے کہ جب انھوں نے اقتدار سنبھالا دشمن آدھا ملک توڑ چکا تھا اور بقیہ آدھے کو توڑنے کی فکر میں تھا۔ بھٹو نے دشمن کو خبردار کر کے کہا تھا کہ اب دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ ہم گھاس کھا لیںگے مگر ایٹم بم بنا کر دم لیںگے۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ اول تو وسائل ہی کہاں تھے، پھر استعماری قوتیں پاکستان جیسے کٹر اسلامی نظریات رکھنے والے ملک کو ایک ایٹمی طاقت کے طور پر کیونکر برداشت کر سکتی تھیں۔

دشمنوں کی دھمکیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت میں ایٹم بن بنانے کا کام شروع ہوا جو مسلم لیگ ن کی حکومت میں چھ بم دھماکوں کے ساتھ تکمیل کو پہنچ گیا۔ آج پاکستان دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہے۔ پاکستانی فوج دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ایک ہے جو ہر طرح کے جدید اسلحے سے لیس ہے۔

اب پاکستان بے شک ناقابل تسخیر بن چکا ہے، مگر بد قسمتی سے معاشی طور پر انتہائی کمزور ہے۔ اس کا خزانہ ہمیشہ ہی خالی رہتا ہے یہ دراصل ملک کی دائمی بیماری بن چکی ہے جس کی وجہ سے ملک میں ہر سطح پر پھیلی ہوئی کرپشن ہے۔ اب زمانہ بدل چکا ہے، معاشی استحکام ہی ہر ملک کی بقا کا ضامن ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کی حالت اتنی دگرگوں ہو چکی ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ایک مہینے کی بھی در آمدات کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف سے امداد لینے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے جاتے جاتے گنگال کر کے ملک کو نگراں حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔

ملک میں یہ بھی ایک روایت بن چکی ہے جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے وہ جانے والی حکومت کو ملکی خزانے کو خالی کرنے کا ذمے دار ٹھہرا دیتی ہے۔ خوش قسمتی سے ملک کو تمام سیاسی پارٹیاں موجودہ الیکشن میں ملک کی خستہ معیشت کو سدھارنے کے عزم کے ساتھ حصہ لے رہی ہیں۔ ہر پارٹی ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کا نعرہ لگا رہی ہے ان انتخابات میں ملک کی تین سیاسی پارٹیاں عوام میں مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں مگر ان تمام میں ہی کرپٹ افراد شامل ہیں۔

مسلم لیگ کے رہنماؤں پر تو باقاعدہ کرپشن کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں اور نیب کی عدالت نے تو میاں نواز شریف کی بیٹی اور داماد کوکرپشن کا مجرم قرار دے کر اڈیالہ جیل بھیج دیا ہے۔ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف پر بھی کرپشن ثابت کرنے کی تیاری جاری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کے بعد پھر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے کرپٹ رہنماؤں کا کیا بنے گا؟ اصولاً تو پارٹی کو خود ہی انھیں نکال باہرکر دینا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو پھر ان کے کرپشن کے خلاف نعرے کھوکھلے ہی رہیں گے اور اس طرح تو ملک کے بگڑے ہوئے معاشی حالات میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی۔

خاص طور پر تحریک انصاف ملک میں تبدیلی لانے اور نیا پاکستان بنانے کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف سے پہلے لوگوں کو بہت امیدیں تھیں کہ وہ ملک کو واقعی کرپشن سے پاک کر دے گی مگر جب سے اسے ایک طاقتور انتخابی پارٹی بنانے کے لیے الیکٹیبلز یعنی لوٹوں اور بد عنوان عناصر کو ٹکٹ جاری کیے گئے، اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگئی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا واضح کہنا ہے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں کوئی فرق نہیں ہے ایسی صورتحال میں ووٹرز ایک بڑے امتحان میں گھر گئے ہیں کہ وہ کس پارٹی کا ساتھ دیں۔

تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ اس صورتحال کا نئی ابھرنے والی سیاسی پارٹیوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ ان کے رہنماؤں کے دامن ابھی تک توکرپشن سے پاک ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی بھی اسی زمرے میں آتی ہے گو کہ یہ ایک نئی پارٹی ہے مگر اس کے قائد مصطفی کمال ایک جانی پہچانی اور آزمودہ شخصیت ہیں۔ انھوں نے کراچی کے میئر کی حیثیت میں شہر میں کئی میگا پروجیکٹس تعمیر کروائے تھے۔ اب اربوں روپوں کے پراجیکٹس مکمل کرانے میں ان کا دامن کرپشن سے پاک رہا تھا۔

اسی وجہ سے ان کے انتخابی امیدواروں کو کسی بھی حلقے میں عوام کی جانب سے کسی بھی قسم کی باز پرس کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے جب کہ کراچی کی روایتی پرانی پارٹیوں کو اپنے حلقوں میں سخت عوامی احتساب کا سامنا ہے اس الیکشن میں ووٹرز کی جانب سے انتخابی امیدواروں کے احتساب کرنے کی نئی روایت نے ہمارے سیاست دانوں کی ووٹرز سے متعلق گزشتہ تمام خوش فہمیوں کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ لگتا ہے اب وہ آئندہ اپنے حلقے کے ووٹرز کے مسائل سے غافل نہیں رہیںگے اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں