ووٹ اور ریزہ ریزہ منشور
اب تو اس پاکستانی قوم کو شخصیت کی کھدائی کرنے کے بعد ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔
گزشتہ بیس برس سے سیاست دانوں نے قوم کو اپنے دلوں سے نکال کر روایات کی پاسداری کو ختم کرکے بیرون ملک بیٹھ کر قوم کو امن و محبت کا درس دیتے رہے اور ان کے بڑے بڑے سیاسی فیصلے قوم کے لیے نہیں بلکہ خود ان کی ذات سے وابستہ ہوتے ہیں کہ کس طرح کرپشن اور لوٹا ماری سے، افراتفری سے مال کمایا ہے، اسے کیسے قانون کے حصار سے بچا کر رکھنا ہے، جہاں انھیں قانون کی لٹکتی ہوئی تلوار نظر آتی ہے یہ بیماری کا بہانہ بناکر مال سمیٹ کر بیرون ملک نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد یہاں کے قانونی ماہر ان کا نام ای سی ایل میں ڈالتے ہیں، کسی کو انٹرپول سے بلانے پر اصرار کیا جاتا ہے اور پھر یہ طبقہ دولت کا انسائیکلوپیڈیا بن کر آنے والے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر یہاں ادارے ان کو لانے کے لیے وقت کا ضیاع کرتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے بچے غیر ممالک میں رہتے ہیں، اور یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ کے حقوق کے لیے بھی نہیں نکلتے اور پھر یہ سیاسی حضرات جو اس قوم کو ملیامیٹ کرکے گئے تھے وہ اس قوم کے بچوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں، ان میں کچھ زخمی ہوتے ہیں اور کچھ مارے جاتے ہیں۔
اور یہ قوم کے لیے لمحہ فکریہ اور افسوس کا مقام ہے۔ ماضی کے پردے اٹھا کر دیکھیں تو لندن اور دبئی میں پوری پوری کابینہ مشورے کرنے جاتی رہی، مگر یہ سیاسی لوگ قوم کو ایک معتبر جمہوری نظام یا ان کے حقوق تو نہ دے سکے ہاں اپنے حقوق کے جھنڈے انھوں نے آسمان کی وسعتوں پر پہنچا دیے ہیں اور ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد عوام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاید ان کی بہتر تقدیر کا فیصلہ عدلیہ یا (خلائی مخلوق) جسے ہم ''رب کی مخلوق'' کہتے ہیں، وہی کرے گی۔ کیونکہ گزشتہ بیس سال سے ان سیاستدانوں نے ملک پر کیا خود یا اپنی اولاد کو قربان کیا؟ بلکہ کچھ کی اولاد تو برطانیہ پاسپورٹ دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے اور جو ان کے بڑے ہیں وہ استغفار کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس بیکار قوم کی اولاد ہماری زرخرید غلام ہیں۔
پاک فوج نے ملکی بقا کے لیے جو اعلیٰ و ارفع کام کیے اور دہشت گردی کے خلاف اتنی قربانیاں دیں وہ مصنوعیت سے برملا ہیں، انٹرنیشنل سروے ''دنیاوی تحقیقات'' کے مطابق ہماری فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس کے جوان اور افسروں کی شہادت کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور تقریباً 7 فوجیوں کے ساتھ ایک آفیسر بھی اپنی جان کا نذرانہ رب کو بحیثیت مسلمان اور پھر اس قوم کو دیتے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا تو پاکستان کی سرحدیں ہیں مگر جب یہ سیاستدان اور ان کے حواری ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر یہ آئین کے تحت منصفانہ تحقیقات کے لیے اس فوج کو بلاتے ہیں۔ اس سے زیادہ ان سیاستدانوں کی ناکامی کیا ہوگی۔
اب قوم شعور کی دہلیز پر سوشل میڈیا کے توسط سے کھڑی ہوگئی ہے اور جس طرح سابق وفاقی وزرا، صوبائی وزرا، ایم این اے، ایم پی اے اپنے حلقوں میں جاکر عوام کے سامنے شرمندہ ہوکر ریت کی دیواریں ثابت ہو رہے ہیں، صرف اس لیے کہ انھوں نے 5 سال قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی۔
مزے کی بات دیکھیں کہ یہ مفلس، نادار، غریب، لاچار، زبوں حالی کا شکار جن کے قدموں میں بھی غربت کی لرزش ہے، وہاں یہ دھڑا دھڑ کروڑوں کی گاڑیوں میں جاتے ہیں، جو پھولوں سے لدی ہوتی ہیں اور ہر گاڑی کے دروازے پر ان کے ذاتی کارندے ہوتے ہیں، یہ کارندے غریب کارکنان نہیں ہیں، بلکہ یہ لکھ پتی افراد ہوتے ہیں اور چہروں سے ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، جو اندر بیٹھے ہوتے ہیں وہ وفاداری کا حلف اٹھا کر 5 سال غائب رہنے کے بعد جب ان سے ملنے پہنچے تو سوشل میڈیا کے توسط سے ان کی روحانی دکانیں ریزہ ریزہ ہوگئیں اور پھر انھوں نے عزت بچا کر جانے میں ہی عافیت سمجھی اور ان عہد ساز شخصیات کو لال بجھکڑ نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے۔
راقم ایک ایسے دودھ فروش کو بھی جانتا ہے جو دودھ سائیکل پر گھروں پر دیتا ہے، وہ نیٹ لے کر سوشل میڈیا پر ان سیاستدانوں کے کرتوت سے بخوبی واقف ہے، میں نے اس سے پوچھا کہ کس کو ووٹ دو گے تو اس نے بڑی عجیب نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا کہ کیا بے تکا سوال کیا ہے، آپ تو پڑھے لکھے انسان ہیں، کیا یہ ووٹ کے قابل ہیں، اب تو ان کی اولاد کمر کس کر ہمارے تحفظات کے لیے میدان میں اتر گئی ہیں، میرے پاس ان سیاستدانوں کے لیے کوئی تعریف و تحسین کا جملہ نہیں ہے۔ جب اس نے یہ جملہ کہا تو راقم سوچ میں پڑگیا کہ پڑھا لکھا طبقہ کس کو اپنا نجات دہندہ سمجھے؟ جب ایک غیر تعلیم یافتہ پاکستانی کی یہ سوچ ہے تو مجھے اس کی بات سے اتفاق کرنا پڑا۔
تمام سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لوگ ایک دوسرے پر محاذ آرائی کے نشتر چلاتے ہیں اور خوب دست و گریباں ہوتے ہیں، انھوں نے گزشتہ بیس سال میں کبھی جنونی کیفیت میں مبتلا ہوکر آبدیدہ نظروں سے قوم کو کڑی آزمائشوں سے نکالنے کی کوشش نہیں کی، ان کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہا، جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ صدر پاکستان ہو، قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران ہوں، سینیٹ کے ممبران ہوں، بیورو کریٹس ہوں، یہ سب اپنی مراعات کے لیے مراعات کی ٹرین میں ایک ساتھ سفر کرتے ہیں، ان کی تنخواہوں میں گزشتہ بیس سال میں بے شمار مرتبہ اضافہ ہوا اور ایسے سیاستدان چاروں صوبوں میں پائے جاتے رہے، جب کہ قومیت کے نام پر ووٹ لینے والے چاروں صوبوں میں عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے حقوق کے لیے تیار رہتے ہیں، جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ جو نااہل ہوا اس نے اپنی جگہ بیٹے اور بیٹیوں کو کھڑا کردیا ہے تاکہ پاکستانی جھنڈا درخشندہ ستارے کی طرح مستقبل میں بھی ہماری گاڑی پر لہراتا رہے۔
اس وقت پاکستان میں تین بڑی پارٹیاں 2018 کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں، دو تو آزمائی ہوئی ہیں اور تیسری اگر کامیاب ہوگئی تو آزمائی جائے گی۔ ایک دینی جماعت نے بڑی ریسرچ اور تحقیق کے بعد ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ پرانی جماعت کو یکجا کیا ہے اور یکجا کرنے والوں نے پچھلے پانچ سال میں نہ تو خیبرپختونخوا میں اسلامی نظام نافذ کیا اور نہ اس کے روح رواں پچھلی حکومت میں فعال رہنے کے باوجود وفاق پر اسلامی نظام نافذ کرنے کے معاملے پر لب کشائی کرسکے۔
اب تو اس پاکستانی قوم کو شخصیت کی کھدائی کرنے کے بعد ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا اور سیاستدانوں کی بے رحم ڈرائی کلیننگ کرنی ہوگی اور اپنی نگاہ انتخاب کو ان سیاستدانوں سے بچانا ہوگا جو آج تک قول و فعل کے تضاد میں اس عوام کو ملیا میٹ کرگئے۔ تین سال پہلے تھوڑی بہت خوشحال تھی، یہ قوم اب تو آہوں کراہوں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گزار رہی ہے، اب 25 جولائی الیکشن کے دن پاکستانی قوم کو چاہیے کہ ان جماعتوں کو ووٹ دے جن کا منطقی منشور ہو، جو شہیدوں کی سیاست سے برملا ہو، جو قومیت کی سیاست سے برملا ہو، جو کرپشن ، لوٹا ماری سے لتھڑے ہوئے نہ ہوں۔