کون بنے گا وزیراعظم
آدھا ملک گنوا کے انھی الیکشنوں اور سلیکشنوں کے چکر میں ہم کہاں سے کہاں آگئے۔
بہت سے سوالات ہیں جو 2018 کے الیکشن پر منڈلا رہے ہیں۔ بہت سے جوابات ہیں جو ہم چاہ رہے ہیں۔ بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ بہت کچھ بدل بھی گیا ہے۔ ''یہ کیا شہر ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے'' کی مانند کراچی کی سیاست پر، اس کے وارث پر بہت سے ابہام موجود ہیں۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ٹیلیفون سے بات ہوا کرتی تھی۔ کتنا بدل گیا ہے پاکستان۔ وہ جو بے نظیر کی پارٹی تھی، آج اس کے بیٹے کے جلسے تو معقول ہوئے ہیں مگر یہ پارٹی اب کہاں کھڑی ہے، صرف چند دنوں میں آپ کو پتہ چل جائے گا۔ کچھ تو اس کے دشمنوں نے ان کے خلاف کام کیے اور کچھ اپنوں نے بھی۔ آپ نے بلاول کو تو بھیجا مگر آپ خود کیوں نہ گئے ٹرکوں پر چڑھ کر لوگوں کے پاس یا آپ کی بہن جو حقیقتاً پارٹی میں معنی رکھتی ہے۔
ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔ میاں صاحب تو جیل میں ہی ہیں وہ جا نہیں سکتے، آپ تو جیل میں بھی نہیں ہیں۔ یوں نہیں تھی سندھ، جب آپ اقتدار میں دس سال پہلے آئے تھے۔ بدتر تو تھی مگر بدترین نہ تھی۔ یرقان، بھوک، افلاس، غیر صحت مند پانی سے پیدا ہوئی بیماریاں۔
آج یہ عالم ہے کہ بھٹو کی بنائی پچاس سال پہلے کی پارٹی کو ان لوگوں سے خطرہ ہے جو کل غیر جمہوری مقتدر قوتوں سے الحاق بناتے تھے اور آج GDA کے نام سے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ اور آج ٹھیک ہے دوسروں سے سندھ میں بہتر ہوگی مگر اپنی پچاس سالہ تاریخ میں اتنی غیر مقبول پہلے کبھی نہ تھی۔ کل یہ عوام میں بھی تھے، آج یہ صرف الیکٹیبلز میں ہے، اور جس لمحے الیکٹیبلز نے محسوس کیا یہ پارٹی اقتدار میں نہیں آئے گی وہ وہی کچھ کریں گے جو انھوں نے سائوتھ پنجاب میں یا بلوچستان میں نواز شریف کے ساتھ کیا۔
دھاندلی الیکشن کے دن نہیں ہوگی جس طرح 1990 کے انتخابات میں ہوئی تھی۔ دھاندلی اب کے ممکن بھی نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ماحول کس کے لیے بنا ہوا ہے۔ سندھ میں تو پی ٹی آئی میدان نہ مار سکی۔ پی ٹی آئی جو کراچی میں 2013 میں مقبول تھی، اس کے آدھے کی بھی اب نہیں رہی۔ لیکن سائوتھ پنجاب میں وہ میدان مارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کل جو زرداری تیس سیٹیں لے کر قومی اسمبلی میں پہنچیں گے اس سے وہ اس طرح نہیں کھیل سکتے جس طرح سینیٹ میں پی ٹی آئی سے اتحاد بنا کر کھیلے تھے۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ پی ٹی آئی کھیلے گی، اگر 80 سیٹیں یا 100 سیٹیں لے کر وہ آئیں گے۔ اب کے ایسا ایوان جڑے گا جس میں سادہ اکثریت کسی کے پاس بھی نہیں ہوگی۔ اور پھر وہی بنے گا وزیراعظم جس طرح سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوا تھا۔ ایوان کے اندر کیا ہوگا، اس کے اوپر لازم ہے کہ پردے کے پیچھے طے ہوگا۔ چیزیں اپنی شفافیت توڑ جائیں گی۔
مسلم لیگ اگر ہارنے کے قریب ہوگی تو وزیراعظم کا امیدوار ان کی طرف سے شہباز شریف ہوگا اور اگر جیتنے کے چکر میں ہوگی تو خاقان عباسی۔
سندھ سے GDA، تو خود پیپلز پارٹی بھی اور بلوچستان سے آزاد، بلوچستان عوامی پارٹی بنی تو اور کئی آزاد ارکان بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور انھیں وزیراعظم بنایا جائے گا اور اس کا گھیرا تنگ ہوگا ان لوگوں کا جو اس کو سنبھال کر رکھیں۔ وہ جو پھر ٹکرائو کی کیفیت ہے وہ کم از کم ایوانوں میں کم ہوجائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ بات پھر شاید پنجاب کی گلیوں میں نہ طے ہو۔
میاں صاحب ہیں جمہوری اقدار کے حوالے سے لوگوں کی آنکھوں میں سب سے بڑے لیڈر، وہ بھٹو اور بے نظیر کے بعد تاریخ کی شیلف میں اپنا مقام بنا تو گئے مگر یکساں مقبول نہیں۔ وہ جی ٹی روڈ کے لیڈر ہیں، جب کہ بھٹو اور بے نظیر اس کے برعکس یکساں مقبول لیڈر تھے۔ وہ چاروں صوبوں کی زنجیر نہیں ہیں، جس طرح بے نظیر ہوا کرتی تھی۔
عمران خان جو بھی میاں صاحب سے زیادہ دوسرے صوبوں میں بھی ہے، مگر وہ تاج اس کے سر پر نہیں جو بھٹو یا بے نظیر کے بعد میاں صاحب کے سر پر ہے۔ وہ پارٹی اقتدار کے خاطر بالآخر الیکٹیبلز کے سامنے جھک گئی۔
یہ وہ زمانے نہیں جب پیر پگارو کو، غلام مصطفیٰ جتوئی کو پیپلز پارٹی کا ایک چھوٹا موٹا امیدوار ہرا دیتا تھا۔ 2018 کے الیکشن میں الیکٹیبلز آگے آئیں گے، آزاد امیدوار جیتیں گے، کون بنے گا وزیراعظم اس کا فیصلہ الیکٹیبلز کریں گے۔ ستر سال کی تاریخ میں ہم اب بھی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے، اب بھی اس ملک میں الیکٹیبلز ایوان میں فیصلہ کریں گے کہ کون بنے گا وزیراعظم۔
ہم بھی الیکٹیبلز کی اطاعت پر ہیں۔ ہم بھی ایک ماڈرن قوم اس حوالے سے نہیں ہیں کہ ہمارے طبقات (class formation) وہ نہیں ہے جو کہ ایک ماڈرن جمہوریت کو درکار ہیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم جو بھی ہیں الیکٹیبلز کی مدد سے وزیراعظم نہیں بنے، یہ صحیح ہے کہ انھوں نے اور ان کے گرو ایڈوانی نے ہندوستان کے بیانیہ کو انتہا پرست کیا، جس کا فائدہ دونوں پاکستان اور ہندوستان کے انتہا پرستوں کو ہوا کہ ہمارا بیانیہ بھی ان کی زد میں آکر اپنے ہی لوگوں کو یرغمال کر بیٹھا۔ مگر ہندوستان کا بیانیہ واپس ٹھیک ہوجائے گا۔ کل جرمنی میں پہلے ہٹلر بیانیہ کو بگاڑ کر جرمنی کو یرغمال کر بیٹھا لیکن دیکھ لیجیے آج کا جرمنی یورپ کا لیڈر ہے اور دنیا کی مثبت حوالے سے رہبری کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چانسلر اینجلا مریکل کو دائیں بازو اتحادی اسے اپنی طرف گھسیٹ رہے ہیں، مگر یورپ کے اندر شام سے آئے مہاجرین کو جتنی جرمنی میں جگہ ملی وہ تو اور کہیں نہیں ملی۔
ہماری جہالت تو دیکھئے کہ موصوف نے کہا ہے کہ جو میاں صاحب کے استقبال کو گئے وہ گدھے تھے۔ کراچی میں بیچارا ایک گدھا ان کے ہاتھوں مارا گیا، اس کا قصور فقط یہ تھا کہ وہ گدھا کیوں تھا۔ اس شہر میں اب کائوس جی نہیں جو راہ چلتے بیمار گدھوں کو اپنے گھر لے آتا تھا اور ان کا علاج کرتا تھا۔
یوں لگتا ہے ہم جیسے تاریک راہوں پر مارے گئے، فاشزم کے سینگ نہیں ہوتے، ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہم اس طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ ہٹلر بھی محب وطن کے نام پر سب کچھ یرغمال کر بیٹھا۔ میرے ''عزیز ہم وطنو'' ملک بچانے کے لیے ہوا اور ملک کو کہاں لے گیا، وہ آپ ہی جانتے ہیں۔
پچیس جولائی کو سینٹرل پنجاب ایک طرف ہوگا اور سائوتھ پنجاب دوسری طرف۔ سائوتھ پنجاب کو اپنا بیانیہ مل ہی گیا اور عمران خان وہاں کے مقبول لیڈر بن کے ابھریں گے۔ اس طرح سندھ میں 1970 کے انتخابات میں بھٹو پاپولر بھی تھے اور اس کے پاس بیانیہ بھی تھا۔ آج سندھ میں بیانیہ سر نگوں ہوگیا۔ الیکٹییبلز کا پلڑا پھر سے بھاری ہوگا۔ سب پر بھٹو ازم بھاری نہیں، مگر زرداری اور اس کا زر ہوگا۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب میرا اور آپ کا پاکستان ہے، جو ان ساری حرکتوں کی وجہ سے balance of payment کے شدید بحران میں پھر سے پھنس گیا ہے۔
ہر ایک فرد سے لے کر ہر ایک ادارے کے اپنے مفاد ہیں، قوم کا، اس ملک کا کیا مفاد ہے، ہم اس کی بنیادوں میں جا ہی نہیں سکتے۔
اب بہت بڑا ماحولیاتی بحران ہماری دہلیر پر کھڑا ہے۔ پہاڑوں سے گلیشیئر ٹوٹ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے دنیا کے امن کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمیں لے بیٹھی ہے۔
یہاں نہ لیڈر ادارہ ہے اور نہ ادارہ لیڈر اور نہ ہی لیڈر لیڈر ہے۔ سب کے اندر ایک فرد ہے اور یہ افراد اور گروہوں کا مجمع ہے، ان کے اپنے اپنے مفاد ہیں۔ اس کے لیے بے دام ہمیں کبھی یہ سرد جنگ میں بیچ آتے ہے، کبھی مذہبی نفرتوں کی سولی پر چڑھا دیتے ہیں، کبھی یہ، کبھی وہ۔ یہ وہی نفسیات ہے جس کو اس خطے میں انگریزوں نے متعارف کروایا تھا۔
آج پھر ہم 25جولائی 2018 کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ آدھا ملک گنوا کے انھی الیکشنوں اور سلیکشنوں کے چکر میں ہم کہاں سے کہاں آگئے، دنیا بدل گئی مگر ہمیں اب بھی الیکٹیبلز درکار ہیں۔ تو کون بنے گا وزیراعظم؟ اس کا فیصلہ الیکٹیبلز کریں گے۔