سیاست کے پیچ وخم

ایک کہرام اور ماتم بپا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بڑی زیادتی اور دھاندلی ہونے جاری رہے۔


Zamrad Naqvi July 23, 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے ایکسپریس کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا نواز شریف کی 13جولائی آمد پر صورتحال اتنی ڈرامائی نہیں تھی جتنی پیش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ شہباز شریف کا جلوس جہاں تک جا سکتا تھا گیا۔ ان کے جلوس کے راستے میں کنٹینرز نہیں تھے۔ تاریخ میں حکمرانوں نے مخالفین کے لیے وہی حربے استعمال کیے، بعد میں وہی ان کے خلاف استعمال ہوئے۔

''نگران وزیراعلیٰ کا اشارہ ماڈل ٹائون سانحہ کی طرف تھا کیونکہ نواز شریف سزا یافتہ ہیں اس لیے قانوناً اپنے حمایتوں سے خطاب بھی نہیں کر سکتے۔ میڈیا کو اس بات کی تعریف کرنی چاہیے وہ دن بڑے حادثے کے بغیر امن سے گزرگیا۔ جس کے شدید خدشات تھے۔ کوئی جانی نقصان ہوا نہ کوئی شدید زخمی۔ (ن) لیگ کی قیادت کا دعویٰ غلط ہے کہ لاہور کی سڑکوں پر لاکھوں لوگ تھے۔ حقیقت میں دس سے پندرہ ہزار لوگ نکلے۔ فورس استعمال نہ کرنے کی تعریف کرنی چاہیے۔

نگران وزیراعلیٰ نے پی ٹی آئی کی طرف مبینہ جھکائو کے الزام کے متعلق سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان یا شہباز شریف کے ساتھ کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نواز شریف کو جیل میں بی کلاس کی سہولتیں میسر ہیں۔ انھیں ملاقاتیوں کی فہرست دی جاتی ہے جس پر وہ نشان لگاتے ہیں۔ اس کے ساتھ مقررہ دن مقررہ وقت پر ملاقات کرا دی جاتی ہے۔ نگران وزیر قانون پنجاب نے کہا ہے کہ شہباز شریف کے دعوے کچھ لیکن حقیقت کچھ اور ہے چاہیں تو بہت کچھ بتا سکتے ہیں، مجبور نہ کیا جائے۔ شہباز شریف الزام تراشی نہ کریں، ہمارا یہ مینڈیٹ نہیں کہ کسی پر الزام لگائیں۔ اگر بولے تو کہیں گے غلط کر رہے ہیں۔ اڈیالا جیل میں سب ٹھیک ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل میں بی کلاس سہولیات دی جا رہی ہیں۔ قانون سے ہٹ کر کسی کو سہولیات نہیں دی جا سکتیں۔ کسی کو گلا سڑا یا خراب کھانا نہیں دیا جاتا، جھوٹ نہ بولا جائے۔

دوسری طرف میئر لاہور نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کے استقبال کے لیے آنے والوں کی تعداد بے نظیر کے استقبال سے زیادہ تھی۔ 1985ء میں بے نظیر کی واپسی ہوئی تو اس وقت لاہور کی آبادی 35 لاکھ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت لاہور کی تقریباً نصف آبادی بے نظیر کے استقبال کے لیے سڑکوں پر تھی۔ ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک سر ہی سر تھے۔ ذیلی سڑکوں اور گلیوں کا بھی یہی حال تھا۔ چلنا محال تھا، یہ ہے حقیقی عوامی لیڈر کا استقبال۔ یہ استقبال صرف بینظیر کا نہیں حقیقی معنوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ قوم نے اپنی کمزوری' احساس جرم اور پست ہمتی کا داغ اس طرح دھویا کہ یہ استقبال تاریخ میں زندہ جاوید ہو گیا۔ یہ عوام کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین تھا کہ جس نے اپنی جان بچانے کے لیے کسی قسم کی ڈیل اور سودے بازی سے انکار کر دیا۔ ایک طرف زندگی تھی، دوسری طرف موت لیکن اس نے کسی کمزوری کا مظاہرہ کیے بغیر پھانسی کے پھندے کو قبول کیا۔

آج لاہور کی آبادی سوا کروڑ سے زائد ہے لیکن صرف پندرہ سے بیس ہزار لوگ سڑکوں پر نکلے۔ سخت گرمی میں لوگ سڑکوں پر تھے اور شہباز شریف اپنے بیٹے حمزہ کے ہمراہ اپنی شاندار ٹھنڈی گاڑی میں تھے۔ ایک طرف نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ، دوسری طرف شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ۔ یہی وجہ ہے کہ ریلی ایئرپورٹ نہ پہنچ سکی۔ نہ لاہور سے لوگ بڑی تعداد میں نکلے اور نہ ہی دوسرے شہروں سے۔ لاہور کے علاوہ بھی ن لیگ پنجاب کے کسی بھی شہر بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا نہ کر سکی۔ خود لاہور میں ن لیگ کے کارکنوں نے کنٹینروں کی شکل میں لگی رکاوٹوں کو ہٹا دیا۔

ماضی کی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو پیپلز پارٹی پر برتری دلانے کے لیے ہر طرح کیمدد فراہم کی۔ 1990ء میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دلائی، تیس سال تک یہ واردات ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا۔ تیس سال ایک طویل مدت ہے جس میں بچہ نہ صرف جوان ہو جاتا ہے بلکہ اس کی اپنی اولاد بھی ہو جاتی ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی مہربانیاں ہی تھیں کہ نواز شریف عوامی لیڈر بھی بن گئے۔ اب پنجاب کی بڑی آبادی ان کی حمایتی ہے۔

ایک کہرام اور ماتم بپا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بڑی زیادتی اور دھاندلی ہونے جاری رہے۔ ہاں وہ دھاندلی جس کا آغاز 80ء اور 90ء کی دہائی سے ہوا اب وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے جا رہی ہے۔ اسے ہی قدرت کا مکافات عمل کہتے ہیں۔ بہرحال حالات جس سمت جا رہے ہیں' وہ خطرات کا گھر ہے' عمران خان کا امیج تاحال ایک مدبر یا اسٹیٹس مین کا نہیں بن سکا' یہ بھی ایک المیہ ہے' مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا متبادل اگر پی ٹی آئی ہے تو اسے ان دونوں جماعتوں سے بڑھ کر جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا' اگر نواز شریف اور زرداری کرپٹ یا نااہل ہیں تو عوام محض نعروں سے مطمئین نہیں ہوں گے ۔ عمران خان کو ثابت کرنا ہو گا کہ وہ کرپٹ بھی نہیں ہے اور ان دونوں سے زیادہ میچور اور سیاسی ویژن رکھنے والا مدبرہے۔ اگر عمران خان میں یہ اوصاف نہیں ہیں تو پھر انھیں حکومت مل بھی جائے تو یہ ماضی کی خرابیوں کا ہی تسلسل ہو گا۔ اس کا ملک یا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

نواز شریف، بیگم کلثوم اور مریم کے حوالے سے مزید اہم تاریخیں 27,26,25,24 جولائی ہیں۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں