بادشاہ صحافت سید عباس اطہر
ان کا مقبول کالم ’’کنکریاں‘‘ ہم نہایت پابندی اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے تھے
کل نفس ذائقہ الموت۔ لیجیے عباس اطہر صاحب بھی راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کے ارتحال پرملال کی خبر سے قلب وذہن کو ایک زبردست دھچکا لگا۔ شاہ جی سے ملاقات کی خواہش بس جی کے جی میں رہ گئی۔
مدت دراز سے یہ خواہش دل میں کلبلا رہی تھی کہ لاہور جاؤں اور اپنے بہت سے پیاروں سے ملاقات کروں مگر افسوس صد افسوس کہ یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شاہ صاحب کے بارے میں لوگوں کی زبانی بہت کچھ سنا تھا اس لیے جی چاہتا تھا کہ ان سے بالمشافہ ملاقات کی جائے اور تھوڑا سا یادگار وقت ان کے ساتھ گزارا جائے لیکن قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ بس بندگی بے چارگی والا معاملہ ہے۔
مرزا غالب نے خط کو نصف ملاقات کہا ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم یہ کہیں کہ اپنے ہر دل عزیز روزنامے ''ایکسپریس'' کے توسط سے ہمیں بھی شاہ صاحب سے شرف ملاقات حاصل رہا ہے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کا مقبول کالم ''کنکریاں'' ہم نہایت پابندی اور بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے تھے اور بہت محظوظ ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ایکسپریس ٹی وی چینل پر ان کا پروگرام دیکھنا بھی ہمارے معمولات میں شامل تھا۔ اگر کبھی کسی مصروفیت کے باعث یہ پروگرام مس ہوجاتا تو بڑی کمی سی محسوس ہوتی تھی۔ ان کی برجستگی، بذلہ سنجی اور بے باکی ہمیشہ یاد آتی رہے گی۔
بعض لوگ لکھتے بہت اچھا ہیں اور بعض بولتے بہت اچھا ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لکھتے بھی خوب ہیں اور بولتے بھی خوب ہیں۔ شاہ جی کا شمار ان ہی لوگوں میں کیا جائے گا۔ بچپن میں پڑھے ہوئے فارسی کے ایک ضرب المثل قسم کے شعر کا یہ مصرعہ ہمیں اس وقت یاد آرہا ہے:
قلم گوید کہ من شاہ جہانم
اس حوالے سے شاہ جی واقعی قلم کے بادشاہ تھے۔ ان کے قلم میں تلوار کی سی کاٹ تھی جو ان کا طرہ امتیاز تھی۔ ان کی تمام تحریریں برجستہ ہوتی تھیں جن میں آورد کا نہیں آمد کا کمال نمایاں ہوتا تھا۔
شاہ جی کا صحافیانہ کیریئر پانچ عشروں پر محیط تھا بہ قول شاعر:
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
ان کی تمام عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری تھی۔ اس طویل عرصے کے دوران بڑے بڑے نشیب و فراز آئے لیکن ان کے پایہ استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی اور عزت سادات پر انھوں نے کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ سیاست کی طرح صحافت میں بھی اپنی دستار فضیلت کو سنبھالے رکھنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے جسے انھوں نے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھ کر نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔
شاہ جی نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز ''انجام'' سے کیا جو اپنے وقت کا ایک مانا ہوا روزنامہ ہوا کرتا اور جو اردو صحافت کی تاریخ میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔ آزادی سے قبل دلی میں یہ روزنامہ بڑی پابندی سے ہمارے گھر آیا کرتا تھا جوکہ ہمارے بچپن کی بات ہے۔ یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس اخبار کے ایڈیٹر اور بزرگ صحافی سردار علی صابری ریڈیو پاکستان میں ہمارے ہم رکاب رہے۔
شاہ صاحب کو اگر Born Journalist کہا جائے تو ذرا بھی مبالغہ نہ ہوگا۔ ابتداء سے ہی انھوں نے صحافت کے میدان میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے جوہر دکھانا شروع کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنا ایک نمایاں اور جداگانہ مقام پیدا کرلیا۔ ان کے قلم میں بڑا زور تھا اور سرخیاں تراشنے میں تو ان کا جواب نہیں تھا۔ اس میں تجربے سے زیادہ ان کی ذہنی اپچ کا بڑا دخل تھا۔ کسی بھی اخبار کی اشاعت میں فروغ کا دارومدار بہت بڑی حد تک اس کی سرخیوں پر ہوتا ہے۔ یہی سرخیاں اسٹال کے آگے سے گزرنے والے اخبار کے قارئین کو پہلی ہی نظر میں اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں اور ان ہی سرخیوں کی آوازیں لگاتے ہوئے اخبار فروش ہاکر راہ چلتے ہوئے لوگوں کو مقناطیسی قوت کے ساتھ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ شاہ جی کی اختراع کی گئی سرخیاں نوآموز صحافیوں اور صحافت کے مضمون کے طلباء و طالبات کے لیے ہمیشہ مشعل راہ کا کام انجام دیں گی۔
شاہ جی نے صحافت کے زینے بڑی تیزی سے طے کیے اور مختلف ادوار میں کئی روزناموں کے ساتھ وابستہ رہ کر طرح طرح کے تجربات سے اپنے کیریئر کو مزین کیا۔ جن میں روزنامہ ''امروز'' اور ''آزاد'' قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد وہ بھٹو صاحب کے دور میں پیپلزپارٹی کے ترجمان روزنامہ ''مساوات'' کے ایڈیٹر بنے اور تادم آخر پیپلز پارٹی کے نظریے اور فلسفے کے ساتھ وابستہ رہے۔ پھر اپنے تمام وسائل اکٹھے کرکے انھوں نے ''صداقت'' کے عنوان سے اپنا ایک ذاتی روزنامہ بھی نکالا لیکن محدود مالی وسائل کے سبب وہ اسے زیادہ عرصے تک نہ چلا سکے اور انجام کار یہ اخبار بند ہوگیا۔
جون 2006 میں وہ بحیثیت گروپ ایڈیٹر ''ایکسیرپس'' کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور تادم آخر اسی کے ساتھ جڑے رہے۔ اور مسلسل ریاضت کے بل بوتے پر وہ سب ایڈیٹر کی سیڑھی سے اوپر چڑھتے چڑھتے، نیوز ایڈیٹر، اس کے بعد ایڈیٹر اور بالآخر گروپ ایڈیٹر کے منصب پر سرفراز ہوئے۔ صحافت ان کا پیشہ نہیں بلکہ عشق تھا۔ یہ ان کا Profession نہیں بلکہ Passion تھا۔ یہ وہ نشہ اور خمار تھا جو ان کی آخری سانس تک ان پر سوار رہا بہ قول شاعر:
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
علالت کے باوجود وہ اپنے کام میں مصروف رہے اور ''ایکسپریس'' سجاتے اور سنوارتے رہے۔ وہ نہ صرف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے بلکہ سیکھنے والوں کے لیے ایک تربیتی ادارہ بھی تھے۔
شاہ صاحب صرف ایک بلند پایہ صحافی ہی نہیں بلکہ ایک سیکھنے والوں کے لیے ایک اعلیٰ درجے کے شاعر بھی تھے۔ اسی بناء پر انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح صحافت نے ان کی شاعری پر غلبہ حاصل کرلیا اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ البتہ شاعری کے ساتھ بھی ان کا رشتہ آخری وقت تک برقرار رہا۔شاہ جی ایک انسان دوست اور درویش صفت شخص کے طور پر پہچانے جاتے تھے وہ اپنے سینے میں ایک دھڑکتا پھڑکتا ہوا اور دردمند دل رکھتے تھے۔
صحافتی برادری کے کاز کو انھوں نے ہمیشہ بہت عزیز رکھا اور صحافیوں کی جدوجہد میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ صحافت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی وہ اپنے ساتھی صحافیوں کی فلاح و بہبود سے غافل یا لاتعلق نہیں رہے اور ان کے لگاؤ اور خلوص میں کوئی کمی نہیں آئی۔ عامل صحافیوں کے مشاہروں اور ان کے حالات کار میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کرنا ان کا ہمیشہ شیوہ رہا۔ وہ مزاجاً اور عملاً ایک سماجی کارکن تھے اور خدمت خلق کا جذبہ ان کے خون میں رچا بسا ہوا تھا۔ ان کا حلقہ احباب بھی بے انتہا وسیع تھا جس میں خواص و عوام کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی اور باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے جنازے میں لوگوں کا ایک جم غفیر شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے(آمین)۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا