کاش ہمارا ملک اِس طرح برباد نہ ہوتا
عوام اب صرف ووٹ کے ذریعے اپنے احساسات کا اظہارکر سکتے ہیں
پاکستان سے محبت رکھنے والے لاکھوں درد مند لوگوں کے دل ملک کی کشیدہ صورتحال سے بہت رنجیدہ اور افسردہ ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھا نہیں ہو رہا۔اِس ساری اکھاڑ پچھاڑ میں میرے وطن عزیز پاکستان کا بہت نقصان ہو چکاہے اور ہو رہا ہے۔ کسی کے خلاف اگر بدعنوانیوں کے ثبوت وشواہد موجود تھے تو انھیں اُسی طرح عدالتی طریقہ کارکے مطابق سے ڈیل کرنا چاہیے تھا۔
جس طرح پہلے کیا جاتا رہا ہے۔ انھیں اڈیالہ جیل میںڈال کرکچھ لوگوں کے بے چین دلوں کو تشفی اور تسلی تو ہوئی ہوگی مگر وہ نہیں جانتے کہ اِس طرح ہمارے ملک کا کتنا نقصان ہو چکا ہے۔ایک اچھا بھلا چلتاہواسیاسی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ملک کی معیشت تھم سی گئی۔ترقی کرتا گراف پھر اچانک تنزلی کی جانب بڑھنے لگا۔ نا اُمیدیوں اور مایوسیوں کے سائے پھر اِس قوم اور مملکت پر چھانے لگے۔ روپیہ اپنی قدر تیزی سے کھونے لگا۔ ایک خوفناک معاشی بحران سر پر منڈلانے لگا۔ معاشی طور پر ایک مستحکم پاکستان اِن عالمی قوتوں کے لیے ایک خطرہ بن رہا تھا۔
ہم نے وہ خطرہ بھی دورکر دیا۔ سی پیک منصوبے پر تیزی سے عملدرآمدانھیں جس تشویش میں مبتلاکر رہا تھاہم نے وہ تشویش بھی ختم کردی۔ اب سی پیک پر کام رک سا گیا ہے۔ اِس منصوبے پر سرمایہ لگانے والا ملک چائنا ہماری سیاسی غیر یقینی سے پریشان ہے۔ وہ اب معاہدے کرے توکس سے کرے، وہ یہاں سرمایہ لگائے توکیسے لگائے۔ یہاں توکسی کو اپنے مستقبل کا پتہ ہی نہیں۔ وہ کب اچانک منظرنامے سے غائب کر دیا جائے اُسے خود پتہ نہیں۔ ایوان وزیراعظم سے نکال کر وہ کب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے یہ کسی کو معلوم ہی نہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ بے چاری قوم کرے تو کیا کرے۔ اُسے تو کوئی اختیار ہی نہیں۔ نگراں گورنمنٹ بھی بے بس اور خاموش ہے۔
عوام اب صرف ووٹ کے ذریعے اپنے احساسات کا اظہارکر سکتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ نہیں معلو م کہ 25ء جولائی کی شام کو آنے والا نتیجہ اُن کے دیے ہوئے ووٹوں کے مطابق ہوگا بھی یا نہیں یا گنتی کرتے ہوئے وہاں بھی آٹھ نمبرکا کوئی مشکوک ریگ مال استعمال ہو جائے گا۔ انجنئیرڈ الیکشن کی بازگشت ہم 1993ء کے انتخابات میں بھی سن چکے ہیں۔ جب باہر سے امپورٹ کیے جانے والے ایک نگراں وزیراعظم نے کچھ ایسے ہی صاف اور شفاف الیکشن کروائے تھے۔ جس میں الیکشن کے نتائج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی بجائے کہیں اور سے جاری ہوئے تھے۔
یہ ہماری سیاسی تاریخ کے وہ افسوسناک اور اندوہناک واقعات ہیں جنھیں ہم ستر سال سے دہراتے آئے ہیں۔ ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ عوام کے حق رائے دہی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا لیکن ہم اپنی حرکتوں سے پھر بھی باز نہیں آ رہے۔ غیر جمہوری طالع آزماؤں کو ہم دس دس سال خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے رہے ہیں۔ اُن کے کسی کام میں کوئی مداخلت نہیں کرتے لیکن جمہوری حکمرانوں کو ہم پانچ سال کے لیے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ایک ڈکٹیٹر قوم کوپتھروں کے دور میں بھیجے جانے کے انجانے خوف کا احساس دلاکر سارے ملک کو کسی دوسرے ملک کے ہاتھوں گروی رکھ دیتا ہے لیکن کسی کی حب الوطنی نہیں جاگتی، مگر ایک سول حکمراں بعض کارروائیوں پرذمے داروں سے سوال کرے تو اُسے اُٹھاکر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔
قوم کو اب سنجیدگی سے سوچناہو گا کہ کیا پاکستان آیندہ ستر برس بھی یونہی چلتا رہے گا ۔یہاں صرف چند لوگوں کا حکم چلے گا۔ عوام کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔اداروں کی عزت و احترام سب پر لازم ہے۔کسی بھی ادارے کی توہین برداشت نہیں جا سکتی۔ سب کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہنا ہوگا۔ فوج بحیثیت ایک ادارہ ہم سب کے لیے مقدس ترین ہے ۔ اُس کی توہین اور رسوائی کسی کو قبول نہیں۔یہ ادارہ کمزور ہوگا تو سارا ملک کمزور ہوگا۔دشمن ہمارے اِسی ادارے کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ عوام کو اِس سے بدظن اور متنفرکردینا چاہتا ہے۔
پاکستان سے محبت کرنے والا طبقہ آج اِسی سوچ اور فکر میں غمزدہ اور پریشان ہے کہ سب کچھ اِس ملک کے لیے اچھا نہیں ہو رہا۔کسی ایک سیاسی پارٹی کے خلاف پے درپے کارروائیوں سے اِس تاثر کو مزید تقویت پہنچ رہی ہے کہ یہ سب کچھ ایک پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ عجلت میں کیے جانے والے فیصلوں کے پیچھے کوئی غیبی قوت یقینا کار فرما ہے۔ اِس حقیقت سے انکار اب مشکل ہے کہ کوئی تو ہے جو یہ سب ڈوریاں ہلا رہا ہے۔ خدارا ، اب بھی وقت ہے۔ حالات کی سنگینی کا احساس کیا جائے۔ملک کی وحدت وسالمیت کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ دشمن ہمیں معاشی واقتصادی طور پر کمزورکرناچاہتا ہے ۔ ہماری اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے ہم خودکوتباہ کر رہے ہیں اوروہ فتح یاب ہورہا ہے ۔
سی پیک سے وابستہ ساری خوش فہمیاں دم توڑ رہی ہیں ۔ دس پندرہ سال ہم دہشت گردی کی آگ میں جلتے رہے ۔ جیسے تیسے کچھ حالات بہتر ہوئے تھے اور اچھے دنوں کی کچھ اُمیدیں بندھنا شروع ہو رہی تھیں کہ اِس خود ساختہ سیاسی بحران نے ہمیں آگھیرا ۔ یہ بحران ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔ پاناما لیکس سے دنیا میں کہیں کوئی بحران نہیں آیا لیکن ہم نے اِس کو لے کر اپنے ملک ہی کی جڑیں کھوکھلی کرنا شروع کردیں ۔
ہمارے اپنے پیدا کردہ بحران کے اثرات سے آنے والی حکومت بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ خراب اور شکستہ معیشت اُس کے سارے منشور اور منصوبوں کو خاک میں ملا دے گی۔بہتر ہوتا کہ ہم صرف ایک سال انتظار کرلیتے۔ میاں صاحب نے اگر کوئی کرپشن کی ہوتی تو عوام انھیں آنے والے الیکشنوں میں اُسی طرح مسترد کردیتے جس طرح انھوں نے 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کوکردیا تھا، مگرہمارا ملک اس طرح اس حال کو تو نہ پہنچتا۔