انسانی جسم میں رہنے والے ای کولی بیکٹیریا

بچوں اور بزرگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں


بچوں اور بزرگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

انسان کو بیشتر امراض جراثیم کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں لیکن تمام جراثیم ضرر رساں نہیں ہوتے۔

انسانی جسم کے اندر متعدد اقسام کے جراثیم پائے جاتے ہیں جو کئی طرح سے ہمارے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک قسم ای کولی کہلاتی ہے۔ یہ خردبینی جان دار انسانوں اور جانوروںکی آنتوں میں موجود ہوتے ہیں۔

اس کی بیشتر اقسام بے ضرر ہوتی ہیں یا محض ہلکے اسہال کا سبب بن سکتی ہیں، تاہم کچھ بے حد خطرناک اور مہلک ہوتی ہیں جیسے ای کولی O157:H7۔ اس قسم سے تعلق رکھنے والے جراثیم کی وجہ سے پیٹ میں سخت مروڑ اٹھتے ہیں، خونی پیچش شروع ہوجاتی ہے اور قے ہونے لگتی ہے۔

ای کولی کے انفیکشن سے متأثر ہونے والے صحت مند بالغ افراد عام طور پر ایک ہفتے میں مکمل تندرست ہوجاتے ہیں، تاہم چھوٹے بچے اور معمر افراد کے گردے ناکارہ ہوجانے کا خطرہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

علامات

ای کولی انفیکشن کی علامات جسم میں اس بیکٹیریا کے فعال ہوجانے کے تین سے چار روز کے بعد نمودار ہونے لگتی ہیں، اگرچہ متأثرہ فرد پہلے ہی روز خود کو بیمار محسوس کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کی علامات میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

٭ شدید یا ہلکے دست آنا، بعض اوقات ان میں خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔

٭ پیٹ میں درد اور مروڑ اٹھنا۔

٭ بعض افراد کو قے اور متلی بھی ہوتی ہے۔ اگر خونی پیچش ہورہی ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

اسباب

ای کولی کی متعدد اقسام میں سے صرف چند اسہال کا باعث بنتی ہیں۔ ان جراثیم کا ایک گروپ جس میں O157:H7 بھی شامل ہے، ایک طاقت وَر زہر خارج کرتا ہے جو چھوٹی آنت کی اندرونی جھلی کو نقصان پہنچاتا ہے جس کی وجہ سے دستوں میں خون آنے لگتا ہے۔ بیماریاں پھیلانے والے دوسرے جراثیم کے برعکس ضرر رساں ای کولی اگر محدود تعداد میں بھی جسم میں داخل ہوجائیں تو انفیکشن پھیلا دیتے ہیں۔ یہ نیم پکی ہوئی خوراک یا آلودہ پانی میں شامل ہوکر جسم میں داخل ہونے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

آلودہ خوراک

یہ ای کولی انفیکشن کا سب سے عام ذریعہ ہے۔ آلودہ خوراک میں خاص طور سے بڑے گوشت کا قیمہ، کچا یا بغیر ابلا ہوا دودھ اور تازہ سبزیاں ای کولی کی جسم میں منتقلی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ مویشیوں کو ذبح کرنے کے بعد جب گوشت بنایا جاتا ہے تو ای کولی بیکٹیریا آنتوں میں سے نکل کر گوشت پر منتقل ہوسکتے ہیں۔جب یہ گوشت کسی بھی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے تو جراثیم معدے میں منتقل ہوجاتے ہیں اور انفیکشن کا سبب بنتے ہیں۔

گوشت کی طرح مویشیوں کا دودھ بھی ای کولی بیکٹیریا کے جراثیم کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ گوالے جب دودھ دوہتے ہیں تو مویشیوں کے تھنوں پر موجود جراثیم دودھ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ دیہات میں مویشیوں کے باڑے عام طور سے کھیتوں کے ساتھ بنے ہوتے ہیں۔ ان باڑوں سے بہہ کر آنے والا گوبر سے آلودہ پانی کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس پانی میں اگر ای کولی بیکٹیریا موجود ہوں تو کھیتوں میں کاشت کی گئی سبزیاں خاص طور سے پالک اور سلاد وغیرہ ان جراثیم کا گھر بن جاتی ہیں جنھیں استعمال کرنے پر انسان بیمار ہوسکتا ہے۔

آلودہ پانی

انسانی اور حیوانی فضلہ سیوریج کے پانی میں شامل ہوکر زیرزمین اور سطح زمین پر موجود آبی ذرائع جیسے نہروں، دریاؤں، جھیلوں کو آلودہ کرسکتا ہے۔ اگرچہ انسانی آبادی کو فراہم کیے جانے والے پانی میں سے جراثیم ختم کرنے کیلیے اس میں کلورین ملائی جاتی ہے، اسکے باوجود جراثیم کے باقی رہ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔ ای کولی انفیکشن کی وجہ سے اسہال اور پیٹ کے دوسرے امراض کی وبا پھیل جانے کا سبب عام طور پر آلودہ پانی ہی ہوتا ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق گاؤں دیہات میں کھدے ہوئے کنویں، مؤثر واٹر فلٹریشن سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے جراثیم کے پھیلاؤ باعث بن سکتے ہیں۔ اسی طرح دیہات میں پانی کی رسد کے نظام کا جراثیم سے آلودہ ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں کہ جب سوئمنگ پول یا فضلے سے آلودہ پانی کی جھیل میں نہانے کے بعد لوگ ای کولی انفیکشن کا شکار ہوگئے۔

فرد سے فرد کو منتقلی

ای کولی بیکٹیریا ایک سے دوسرے فرد کو بآسانی منتقل ہوسکتے ہیں بالخصوص اس صورت میں جب متأثرہ بالغ فرد یا بچے کے ہاتھ اچھی طرح دُھلے ہوئے نہ ہوں۔ متأثرہ چھوٹے بچوں کے اہل خانہ کے ای کولی انفیکشن میں مبتلا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں چڑیا گھروں کی سیر کے لیے جانے والے بچوں کو ای کولی انفیکشن لاحق ہونے کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

ای کولی انفیکشن سے کون زیادہ متأثر ہوسکتے ہیں

یہ انفیکشن کسی بھی فرد کو ہوسکتا ہے جس کے جسم میں ای کولی بیکٹیریا داخل ہوگئے ہوں، تاہم کچھ لوگ اس سے زیادہ متأثر ہوسکتے ہیں:

٭ چھوٹے بچے اور معمر افراد کے جسم میں بیماریوں سے لڑنے کی طاقت کم ہوتی ہے، چناں چہ یہ ای کولی بیکٹیریا کا نسبتاً آسان شکار ثابت ہوسکتے ہیں۔

٭جن لوگوں کا مناعتی نظام ( امیون سسٹم ) ایڈز یا منشیات کے استعمال یا کسی بھی دوسری وجہ سے کمزور پڑ گیا ہو، انھیں ای کولی انفیکشن لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

٭ نیم پکا ہوا گوشت یا اس کی ڈشیں کھانے، کچا دودھ اور سیب کا جوس پینے، اور کچے دودھ سے بنا ہوا پنیر کھانے والے افراد اس انفیکشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔

٭ بعض ممالک میں سال کے مخصوص حصوں میں ای کولی انفیکشن کے کیسز زیادہ تعداد میں سامنے آتے ہیں۔ مثلاً امریکا میں جون سے ستمبر کے دوران لوگوں کی نمایاں تعداد ای کولی بیکٹیریا کی وجہ سے پیٹ کے امراض میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

٭ معدے میں موجود تیزابیت ای کولی کا کسی حد تک مقابلہ کرتی ہے۔ اگر معدے میں اس کی سطح کم ہوجائے تو ای کولی انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پیچیدگیاں

اکثر بالغ افراد ایک ہفتے میں انفیکشن سے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم بعض افراد خاص طور سے چھوٹے بچے اور بزرگوں کے گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں اور ان کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔

احتیاطی تدابیر

ابھی تک کوئی ایسی ویکسین یا دوا نہیں بنائی جاسکی جو ای کولی بیکٹیریا سے مکمل تحفظ فراہم کرسکے۔ چناں چہ احتیاط ای کولی انفیکشن سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔

٭ گوشت کے پکوان خاص طور سے کباب وغیرہ اچھی طرح پکائیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ ان میں گوشت کا گلابی پن باقی نہ رہے۔ تاہم یہ اس بات کی قابل بھروسہ علامت نہیں ہے کہ گوشت پک گیا ہے، کیوں کہ گوشت کو بُھونا جائے تو پکنے سے پہلے ہی اس کا گلابی پن ختم ہوجاتا ہے، لہٰذا ممکن ہو تو ' میٹ تھرمامیٹر ' کا استعمال کیا جائے اور یہ اطمینان کرلیا جائے کہ گوشت کم از کم 71 ڈگری سیلسیئس پر بُھونا جارہا ہو۔

٭ جراثیم سے پاک ( پیسچرائزڈ) دودھ اور جوس استعمال کریں۔

٭ تازہ سبزیوں اور پھلوں کو اچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔ پتوں والی سبزیوں کو دھوتے ہوئے خصوصی توجہ دیں۔

٭ سبزیاں اور گوشت کاٹنے اور پکانے میں استعمال ہونے والے برتنوں، چُھری کانٹے وغیرہ کو گرم پانی سے اچھی طرح دھوئیں۔

٭ کچی سبزیوں، گوشت اور پھلوں کو علیٰحدہ رکھیں، اور ہر ایک کو کاٹنے کے لیے الگ الگ کٹنگ بورڈ یا تختہ استعمال کرلیں۔

٭ کھانے پکانے یا کھانے کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔ اسی طرح رفع حاجت اور بچوں کے ڈائپر بدلنے کے بعد بھی ہاتھوں کو صابن سے دھونا نہ بھولیں۔ بچوں کو بھی ان تمام افعال کے بعد ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔