الیکشن کا تیز بخار اتر گیا
قوم کو الیکشن کا جو تیز بخار چڑھا ہوا تھا‘ وہ میاں نواز شریف کی اینٹی بائیوٹک کھا کر اتر گیا ہے۔۔۔
قوم کو الیکشن کا جو تیز بخار چڑھا ہوا تھا' وہ میاں نواز شریف کی اینٹی بائیوٹک کھا کر اتر گیا ہے۔ مسلم لیگ ن وفاق میں با آسانی حکومت بنا لے گی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم ہوں گے۔ یوں 12 اکتوبر1999 کو جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا' وہیں سے دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ میاں صاحب قوم کے ساتھ کیا سلوک کریں گے' اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا' البتہ رجائیت پسندی کا تقاضا ہے کہ اچھے کی امید رکھی جائے۔ اس الیکشن میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ ن کے بعد سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ ممی ڈیڈی طبقہ پہلی بار گھروں سے باہر نکلا' خاں صاحب کو جتوانے کے لیے اس خوشحال طبقے نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا' ان کی اس محنت کا نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ برگر فیملیز کا گھروں سے نکل کر عملی سیاست میں آنا،ملک کے لیے نیک شگون ہے۔ خوشحال گھرانوں کے یہ انگلش میڈیم نوجوان خان صاحب کی ہار سے مایوس نہ ہوئے اور مستقل مزاجی سے سیاست میں موجود رہے تو آنے والے وقت میں وہ روایتی ڈیر ے دار سیاستدانوں کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کے امکانات بھی موجودہیں تاہم زیادہ امکان یہی ہیں کہ پیپلز پارٹی ہی میاں صاحب کی اپوزیشن ہوگی۔ اس الیکشن میں عبرت کے پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی۔ اس نے جنوبی پنجاب کا جو نعرہ لگایا تھا' وہ فائدہ دینے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا۔ جنوبی پنجاب تحریک کے خود ساختہ رہنما یوسف رضا گیلانی اپنی ساری سیٹیں ہار گئے۔ یہاں سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے۔سابقہ صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا بنانے میں اے این پی کی پچ پر کھیلنا بھی پیپلز پارٹی کے لیے خوشخبری نہ لاسکا۔ صدر آصف علی زرداری متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے پختونوں کو شناخت دی، اس کا صلہ خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کو صرف تین نشستوں کی صورت میں ملا ہے۔
خیبر پختونخوا کی ہندکو' کھوار' گوجری بیلٹ میں پیپلز پارٹی اب شاید ہی کبھی جیت سکے۔اس صوبے میں سب سے برا سلوک اے این پی کے ساتھ ہوا۔ اے این پی جس نے اپنی سیاست کو لبرل اور سیکولر آدرشوں سے ہٹا کر صرف پنجاب مخالفت کا روپ دیا تھا' اسے پختونوں نے یوں سبق دیا ہے کہ اس علاقائی جماعت کے سارے بت گرا دیے گئے ہیں۔ اسفند یار ولی' غلام احمد بلور اور میاں افتخار حسین شکست کھا گئے' امیر حیدر ہوتی کے والد اعظم ہوتی بھی اپنی آبائی نشست کھو بیٹھے۔ امیر حیدر ہوتی صوبائی سیٹ جیت کر عزت بچانے میں کامیاب ہوئے ورنہ قومی اسمبلی کی نشست پر وہ بھی ہار گئے تھے۔ اب وہاں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے امکانات ہیں۔ وہ تحریک انصاف جس کا قائد لاہور میں رہتا ہے جو پشتو نہیں پنجابی بولتا ہے۔ اسے کہتے ہیں' دے گھما کے۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ پنجاب سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی جیت غیر متوقع نہیں ہے،آثار بتا رہے تھے کہ مسلم لیگ ن الیکشن جیتے گی لیکن خیبر پختونخوا میں اے این پی جب کہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ جو سلوک ہوا' وہ غیر متوقع ضرور تھا۔ وسطی پنجاب سے ثمینہ خالد گھرکی' قمر زمان کائرہ' احمد مختار' نذر محمد گوندل' امتیاز صفدر وڑائچ' راجہ پرویز اشرف شکست کھا گئے' جنوبی پنجاب میں گیلانی خاندان اور مخدوم شہاب الدین جیسے مضبوط امیدوار ہار گئے۔ پیپلز پارٹی کالا باغ ڈیم دفن کرنے اور سرائیکی صوبہ بنانے کا نعرہ نہ لگاتی اور پنجاب میں روایتی جوش و جذبے سے میدان میں اترتی تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی' اے این پی اور ایم کیو ایم کی پالیسی نے مسلم لیگ ن کو پنجاب میں کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا' اگر یہ تینوں جماعتیں پنجاب کے حوالے سے غیر ضروری بیانات نہ دیتیں تو پنجاب کا سیاسی منظر نامہ مختلف ہوسکتا تھا۔
پیپلز پارٹی نے تو اپنی تاریخ میں پہلی بار پنجاب مخالف ہونے کا تاثر دیا ورنہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک کسی نے کبھی ایسا اشارہ نہیں دیا جس سے پنجاب مخالفت کا تاثر پیدا ہو، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں فتح یاب ہوتی رہی لیکن اس بار ایسا نہیں ہوسکا۔ لاہور میں این اے 129' این اے 130'این اے127 اور این اے 126 ایسے حلقے ہیں جہاں پیپلز پارٹی نے ہمیشہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوںکو ٹف ٹائم دیا اور یہاں سے وہ جیتتی بھی رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پنجاب میں پارٹی کا ووٹ بینک آج بھی موجود ہے' اس دفعہ تو ایسا ہوا کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کو خود ہی راستہ دے دیا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار گھر سے باہر نکلے ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے جن اعلیٰ دماغوں نے الیکشن پالیسی تیار کی' اس کا نتیجہ سب کے سامنے آگیا ہے۔ اب پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ ایسا ہونا ایک المیہ ہے۔ پیپلز پارٹی کو اے این پی کا انجام مد نظر رکھنا چاہیے کہ اسے پختونوں نے ہی مسترد کر دیا حالانکہ ان کے رہنما دن رات پختون قومی پرستی کی مالا جپتے رہتے تھے' اگر کل کو سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گیا تو پھر اسے کہیں جگہ نہیں ملے گی۔
الیکشن کا سیلاب گزر گیا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ سیلاب کا پانی جب اترتا ہے تو پھر اصل نقصانات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب الیکشن کے سیلاب کا پانی اتر رہا ہے' کچھ چیزیں واضح ہو رہی ہیں' ایک تصویر تو یہ ابھری ہے کہ مسلم لیگ ن کو سندھ سے ایک آدھ سیٹ ہی مل سکی ہے' پنجاب اور چھوٹے صوبوں کے درمیان تقسیم گہری ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ جناب الطاف حسین نے میاں نواز شریف کو کامیابی پر مبارکباد ضرور دی ہے لیکن اس مبارکبادی پیغام میں چھپے ہوئے طنز کو سب نے محسوس کیا ہے' الطاف حسین نے جو محسوس کیا' اسے بغیر لگی لپٹی بیان کر دیا' اس پر غصہ کرنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے' میاں صاحب نے بھی مدبرانہ انداز میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی جماعت الیکشن جیتتی ہے تو متوقع وزیر اعظم اچھی باتیں کرتا ہے' یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم منتخب ہوئے تب انھوں نے بھی دل خوش کرنے والی باتیں کی تھیں' آصف علی زرداری نے بھی صدر منتخب ہونے کے بعد بہت کچھ کہا تھا لیکن جب سیلاب کا پانی اترا تو پتہ چلا کہ ہر طرف لڑائی ہی لڑائی ہے۔ اللہ کرے' اس الیکشن کا سیلاب کوئی نقصان پہنچائے بغیر اتر جائے۔