خان دھوکا نہیں دے گا
چاہتاتوعوامی نفرت کو مقتدر طبقے کی طرف پھیر سکتا تھا۔مگراس نے اَزحداحتیاط سے کام لیا۔
الیکشن جیتنے کے بعدروایتی طورپرہرسیاسی قائدایک تقریرضرورکرتاہے۔لوگ اسے وکٹری اسپیچ کہتے ہیں جو صرف اورصرف جزوی طورپردرست ہے۔حقیقت میں یہ بھاری ذمے داریاں اُٹھانے کاوہ لمحہ ہوتاہے جو خواب، سراب اورسچ کوایک دوسرے سے جداکرتاہے۔
جس وقت عمران خان تقریرکررہاتھا۔اس کے فوراًبعدآج سے ٹھیک پانچ سال پہلے میاں نوازشریف کی وکٹری اسپیچ دیکھی۔ میاں صاحب، ایک بالکونی پرکھڑے تھے۔ ان کے ساتھ چھوٹے بھائی، شہباز،خاندان کے بچے بچیاں،اسحاق ڈاراور پرویز رشید کھڑے تھے۔ نوازشریف نے فتح والی رات کوجوپالیسی تقریرکی،وہ بے حدحوصلہ افزااوراچھی تھی۔صرف یادداشت کے لیے اس کے چندنکات آپکے سامنے رکھتاہوں۔
"ہم لوگ آپکی خدمت کے لیے آئے ہیں۔بلکہ آپکی نسلوں کی خدمت کرینگے۔میں اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں کرونگا۔میرے متعلق جوجومنفی چیزیں الیکشن سے پہلے کہی گئیں، ملک اورقوم کی خاطرسب کچھ معاف کرتاہوں۔ہم لوگ قوم کی حالت کوبدل کررکھ دینگے۔یہ میرافیصلہ ہے۔ملک کی خاطرسب کے ساتھ ٹیبل پربیٹھیں گے۔بے روزگاری، غربت،لوڈشیڈنگ کامکمل طورپرخاتمہ کردینگے۔
نوجوانوں کوپاؤں پرکھڑاکرینگے۔قوم کوعزت کی زندگی دینگے۔ ہماری پارٹی کوواضح برتری دیں تاکہ کسی کو ساتھ نہ ملانا پڑے"۔ آخرمیں میاں نوازشریف نے کہا، کہ "ہم نے الیکشن کے دوران جووعدے کیے ہیں ان میں سے ایک ایک وعدہ پورا کرینگے"۔2013کی تقریرہے جسے آپ پالیسی تقریر، وکٹری اسپیچ یاکوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔یہ بنیادی فیصلے تھے جووزیراعظم کے طورپربڑے میاں صاحب نے عملی طور پر کرکے دکھانے تھے۔غورسے پڑھیے بلکہ دوبارہ پڑھیے۔یہ ایک نئی صبح کاآغازتھا۔قوم سے وعدہ تھا۔ایک جذبہ تھاکہ شائدعام لوگوں کی کچھ بہتری ہوجائے۔ مگر حقیقت میں پانچ برس میں جوعملی طورپرکیاگیا،وہ ان بنیادی وعدوں سے مکمل طورپرمختلف تھا،بلکہ متضادتھا۔
مکمل طورپرکسی قسم کے سیاسی تعصب سے بالاترہوکر گزارشات پیش کررہاہوں۔کسی سیاسی جماعت سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا۔صرف یہ دیکھیے کہ کیاپانچ برس پہلے کی تقریرکے ایک نکتہ پربھی عمل کیاگیا۔ قطعاً نہیں۔ ہرگز نہیں۔ چلیے،بے روزگاری سے شروع کریں۔ 2013 میں بیروزگاری تقریباًچھ فیصدکے برابرتھی۔کیاآپ جاننا چاہیں گے کہ بیروزگاری کی موجودہ شرح کیا ہے۔
آزاد ذرایع اسکو بیس فیصدسے زیادہ دیکھتے ہیں۔سابقہ حکومتی ذرایع،شش وپنج کے بعداسے تیرہ فیصدلکھتے رہے۔بیس فیصد،تیرہ فیصد،چھ فیصد یا صفر فیصدکے معاملے سے نکلیے۔نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار2013میں بھی نہیں تھا۔معذرت کے ساتھ آج بھی پاکستان میں جائزروزگارکاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ہرگھرمیں کوئی نہ کوئی بیروزگارنوجوان بچہ یابچی بیٹھی ہوئی ہے۔لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعدبھی صرف روزگارکے لیے ایک درسے دوسرے درپرٹھوکریں کھارہے ہیں۔ان بچوں کی عزتِ نفس کتنی مجروح ہوتی ہے،اسکااندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔
والدین کادکھ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ کیا کریں۔ اولادکواعلیٰ تعلیم دینے کے علاوہ اورکیاکرسکتے تھے۔ اپنافرض اداکرنے کے باوجود،والدین آج بھی بے بس ہیں۔اولاد ان کی نگاہوں کے سامنے فارغ بیٹھی ہوئی ہے اوروہ کچھ نہیں کرسکتے۔ دراصل کالج اوریونیورسٹیاں بیروزگاری پیدا کرنے کی مشین بن چکی ہیں۔ڈگریاں ہی ڈگریاں۔مگرکسی قسم کا کوئی کام نہیں۔ کاغذکی ڈگریاں، روح کے لیے کانٹابن جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آل شریف،پنجاب بلکہ پاکستان کی قسمت پر گزشتہ تیس برس سے براجمان ہیں۔کیاواقعی ان لوگوں نے نوجوانوں کو بیروزگاری سے بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔
محیرالعقول اعلانات،عجیب وغریب تقاریر اور چند نمائشی اقدامات کے علاوہ یہ لوگ کچھ نہیں کرسکے۔کیایہ المیہ نہیں کہ اپنے کہے ہوئے وعدوں میں سے کلیدی ترین نکتے پربھی عمل نہیں کرسکے۔دھوکا دہی اورکیاہوتی ہے۔ ہاں، بیروزگاری ضرورختم ہوئی ہے۔آل شریف اورآلِ زرداری کاکوئی مرداور عورت بیروزگاری کے جہنم میں نہیں جل رہا۔تمام بڑے بڑے کارخانے اورملوں کے مالک ہیں۔یہ اوربات ہے کہ بتا نہیں سکتے کہ پیسہ کہاں سے آیا ہے۔ آمدن کے ذرایع شائدبتانے میں کوئی جھجھک یاشرم ہے۔ مگر تلخ سچ ہے کہ یہ عام آدمی کے سامنے مالیاتی کرپشن کے وہ بت ہیں،جنھیں پاکستان میں پہلی بارکاری ضرب لگی ہے۔ شائدشوربھی اسلیے مچایا جارہا ہے۔
تھوڑاساآگے بڑھیے۔روزمرہ کی چیزوں کی قیمتوں کی طرف نظردوڑائیے۔آٹا،دال،چاول،خوردنی تیل کی قیمتوں کو2013میں دیکھیے اور2018میں، خودہی مقابلہ کر لیجیے۔ قیمتوں میں خوفناک اضافہ دکھائی دیگا۔کسی بھی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں۔پانچ برسوں میں روزمرہ کے استعمال کی اشیا میں سترفیصدسے لے کرتین سوفیصدتک اضافہ ہوچکاہے۔ورلڈبینک سے لے کرکسی بھی آزاد ادارے کی رپورٹ دیکھ لیجیے۔قیمتوں میں اضافہ انتہائی ظالمانہ ہے۔ چھوڑئیے۔کسی بھی ادارے کی رپورٹ پر اعتماد مت کیجیے۔ کسی بھی خاتون خانہ جوگھرکاکچن چلاتی ہے۔
اس سے معلوم کرلیجیے۔جناب،جواب ایک ہی ہے کہ مہنگائی نے امیر طبقہ کے علاوہ ہرطبقہ کی کمرتوڑدی ہے۔آپ اپنے گھر سے آغاز کیجیے۔کچن کاخرچہ گزشتہ پانچ سالوں میں کتنابڑھا ہے۔اس کے لیے توکسی حکومتی،غیرحکومتی یابین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کی ضرورت نہیں۔مہنگائی کی آگ نے اس ملک کے سفیدپوش طبقے کوجھلساکررکھ دیاہے۔میاں صاحب کی تقریرکے اس اہم نکتہ پربھی کوئی عمل نہیں ہوسکا۔ ان کی حکومت کوپورے پانچ برس دیے گئے مگرایک مقام بتادیں کہ مہنگائی کے جن پرقابوپانے کے لیے کوئی سنجیدہ عملی اقدامات کیے ہوں۔
اعلانات کی حدتک سب کچھ کمال ہے مگرزمینی حقائق کچھ اوربتاتے ہیں۔یہی حال لوڈشیڈنگ کا ہے۔ہر شہر، قصبے اورگاؤں میں لوڈشیڈنگ آج بھی عذاب ہے اورپہلے بھی عذاب تھی۔درست ہے کہ اسکادورانیہ پہلے سے قدرے کم ہواہے۔گیارہ ہزارمیگاواٹ بجلی بنانے کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔مگرکیاکوئی سیانابندہ بتاسکتاہے کہ یہ سب کچھ کس قیمت پرحاصل کیاہے۔آزادذرایع کے مطابق دنیا کی مہنگی ترین بجلی بنانے کے کارخانے ایک مخصوص حکمتِ عملی کے تحت لگائے گئے ہیں۔کیاکسی میں جرات ہے کہ پوچھ سکے کہ حضور،آپ نے سستی بجلی کی طرف دھیان کیوں نہیں دیا۔کوئی جواب نہیں ہے۔کرپشن کی کہانیوں کی گونج ہرحلقے میں موجودہے۔کرپشن بھی نہیں،بلکہ ہوشربا کرپشن۔ اتناجھوٹ بولنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔
مگر یہ جھوٹ ہم سے سابقہ پوری دہائی میں بولاگیاہے۔کوئی جواب نہیں دے رہاکہ ظالمانہ شرح سودپرقرضے لے کر متنازعہ بجلی کے کارخانے لگانے کی کیاوجوہات تھیں۔پوچھیں توجواب آتاہے کہ آپ ترقی اورخدمت کے مخالف ہیں۔ ووٹ کو بے عزت کیاجارہاہے۔اس ردِعمل پرصرف دکھ کااظہار کیا جاسکتاہے۔میاں نوازشریف کی وکٹری اسپیچ میں ایک نکتہ پر بھی عمل نہیں ہوا۔ہاں،پروپیگنڈااس سطح کاہواہے کہ لگتا تھا کہ ترقی کاسیلاب آگیا۔لوگوں پر خوشحالی کی بارش ہوگئی ہے۔غریب اورسفیدپوش طبقہ جہاں پہلے تھا،آج اس سے بھی مشکل حالات سے دوچارہے۔تنقیدبرائے تنقید سے بالاترہوکرپانچ برس میں ترقی کاسفرپرکھ لیجیے۔ آپکو اعلانات کے علاوہ کچھ نظرنہیں آئیگا۔
اس تناظرمیں عمران خان کی وکٹری اسپیچ کودیکھتا ہوں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خان نے اس تقریر میں بے حدتوازن کامظاہرہ کیاہے۔سب سے پہلے تو عمران خان نے عاجزی سے کام لیاہے۔باڈی لینگوئج میں انکساری تھی۔ تکبراورفتح کاغرورنہیں تھا۔معلوم ہو رہاتھاکہ ملک کاہونے والاوزیراعظم اپنی ذمے داری کے بوجھ تلے آچکاہے۔کوئی مصنوعی پن بھی نہیں تھا۔ وہی سادہ ساکُرتاشلواراوروہی گھریلو ماحول۔یہ سب کچھ اچھالگ رہاتھا۔کسی بڑے چبوترے، ٹیرس پرکھڑا نہیں ہوا۔فتح سے چور،جم غفیربھی نہیں تھا۔ایک اورچیز جوکم ازکم میں نے محسوس کی کہ ساتھ خاندان کاکوئی فرد، رشتہ دار بھی موجودنہیں تھا۔کوئی اسحاق ڈارٹائپ انسان یاتالیاں بجوانے والاغیرسنجیدہ آدمی بھی ساتھ نہیں تھا۔
پوری تقریرمیں جذباتیت کاکوئی پہلونہیں تھا۔سادگی پر زور دیکر بات کرنا،سابقہ مخالفین کومعاف کرنااورالیکشن میں کسی بھی سیٹ کودھاندلی کے الزامات پرکھول کررکھ دینا،غیرمعمولی بات تھی۔چاہتاتوعوامی نفرت کو مقتدر طبقے کی طرف پھیر سکتا تھا۔مگراس نے اَزحداحتیاط سے کام لیا۔کسی قسم کی کوئی انتقامی بات نہیں کی۔یہ ایک مدبر لیڈرکی تقریرمعلوم ہورہی تھی۔اسے معلوم تھاکہ کتنی بڑی مشکلات کوعبورکرنے کی بات کررہا ہے۔ کیسے، معاشی کوتاہیوں کوختم کرنے سے لے کر غریب طبقہ کی دادرسی کریگا۔اعلان توہوگئے،لیکن اب تو خان پرعملی اقدامات کی بھاری ذمے داری ہے۔خدااسے کامیاب کرے۔دل گواہی دیتاہے کہ خان دھوکا نہیں دیگا!