یو این او کا معاہدہ برائے مہاجرین اورعالمی طاقتیں
سالوں کی کوشش سے بننے والا معاہدہ اپنے آغاز پر ہی مشکلات کا شکار ہوگیا۔
ہجرت ہمیشہ سے انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ رہی ہے۔ پیغمبروں سے لے کر رہبروں تک اور عوام سے لے کر خواص تک، ہجرت سب کا مقدر بنتی چلی آئی ہے۔ مستقبل قریب و بعید میں بھی ہجرت کے امکانات رد نہیں کیے جا سکتے ۔ ہجرت ایک عذاب ہے، جس نے جھیلا اس کی نسلیں بھی اس کرب سے نکل نہ پائیں۔ زمانۂ موجود، وہ بدقسمت زمانہ ہے جب ہجرت کا سبب بننے والی عالمی طاقتیں اس عذاب کا مداوا کرنے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی بے حسی کا لازوال کردار ادا کر رہی ہیں۔
اس کی ایک تازہ مثال اقوام متحدہ کی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی طرف سے مہاجرین کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پیش کیا جانے والا تاریخی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر سوچ بچارکی ابتدا 2016ء میں نیویارک سے ہوئی ۔ وہ پہلا موقع تھا جب عالمی سطح پر یو این او جنرل اسمبلی میں مہاجرین سے متعلق معاملات زیرِبحث لائے گئے ۔193ممبر ممالک نے اس معاملے کی سنگینی پر بات کی اور طے پایا کہ انسانی ہجرت کے اس المیے پر قابو پانے اور مہاجرین کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، مہاجرین کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا اور ساتھ ہی مہاجرین کی محفوظ، منظم اور باقاعدہ منتقلی کے راستے ہموارکیے جائیں گے۔
دیکھا جائے تو جدید دورکا یہ ایک تاریخی معاہدہ ہے جس کے متن پر بہت سارے ممالک متفق ہیں، لیکن کچھ وہ بھی ہیں جو اپنی ازلی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان میں سر فہرست امریکا ہے۔ امریکا پہلے تو اس معاہدے سے متفق تھا لیکن جس وقت یہ معاہدہ پیش کیا گیا، واشنگٹن نے اسے تسلیم کرنے سے انکارکر دیا۔ اس کی وجہ خالص سیاسی ہے اور سیاست کے اس اکتا دینے والے کھیل میں کم زور ہمیشہ ہی خسارے میں رہا ہے۔ سو اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ سیاست کی ابتدا آئی او ایم کے نئے ڈائریکٹر جنرل کے نام پر تنازعے سے ہوئی۔
امریکا نے اس اہم ترین عہدے کے لیے کین آئزک کا نام تجویز کیا تھا۔ جس وقت اس کی نامزدگی ہوئی وہ بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی بحالی کے کاموں میں مصروف تھا، لیکن پھر بھی اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی اکثریت نے کین آئزک کا نام مسترد کردیا،آخرکیوں؟ وجہ واشنگٹن پوسٹ میں اس کے خلاف اگلے دن ہی دن شایع ہونے والی ایک رپورٹ بنی۔ جس میں اس کے وہ تمام ریڈیو بیانات، ٹوئٹس اور سوشل میڈیا پوسٹ کے حوالے دیے گئے جو اسلام دشمنی میں اندھے ہوکر اس نے مسلمانوں کے خلاف مختلف وقتوں میں جاری کیے تھے۔ مسلم دشمنی کا پرانا ریکارڈ منظرعام پر آتے ہی وہ بوکھلا گیا اور اس نے کہا کہ میرا کہا ہوا نہیں بلکہ دنیا میرا عمل دیکھے اور اس نے تمام بیانات پر معذرت بھی کی جن میں وہ اسلام کو ایک پُرتشدد مذہب قرار دے کر مسلمانوں کی تاریخ دہشتگردی کے ساتھ جوڑتا چلا آیا ہے۔
2016ء میں فرانس کے شہر نائس اور امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اور لینڈو میں ہونے والے حملوں کے بعد بھی اس نے جو ٹوئٹ جاری کیے اس میں مسلمانوں کو ان واقعات کا ذمے دار ٹھہرایا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے آئزک کو مسترد کر کے دور اندیشی کا ثبوت دیا، کیونکہ اقوام متحدہ جن ممالک میں فعال کردار ادا کر رہی ہے وہ مسلم اکثریتی خطے ہیں۔
آئزک نے اس عہد ے پر نامزد ہونے کے بعد معذرت کی بھی توکیا فائدہ، تیر تو کمان سے نکل چکا تھا،اس کی اصل شکل دنیا کے سامنے آچکی تھی۔ ڈونلڈٹرمپ کی ساری کوششیں آئزک کو آئی او ایم کا ڈائریکٹر جنرل بنوانے کے لیے تھیں تاکہ مہاجرین کے خلاف ان کے سارے منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں قانونی سہاروں سے ختم کی جاسکیں۔ رائٹرز کے مطابق مہاجرین کی بحالی کے لیے دنیا بھر میں کام کرنے والی چھے سو سے زائد امدادی ایجنسیوں نے آئی او ایم کے ممبر ممالک کو بھی خط لکھے اور انسانی حقوق کی حمایت اور نسل پرستی کے خلاف ان سے اپنے عہد نبھانے کی درخواست کی۔ خطوط میں براہ راست کین آئزک کا نام لے کر مخالفت نہیں کی گئی لیکن سب کا واضح اشارہ اسی کی طرف تھا۔
آئزک نے اس عہدے کے لیے نامزد ہونے کے بعد بار بار اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ وہ ٹرمپ کی کسی پناہ گزین پالیسی کو چیلینج نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی اس نے ٹرمپ کے اس احمقانہ قول کی بھی تصدیق کی کہ ماحولیاتی تباہی میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ۔اس طرح کے بیانات اور اعمال کے بعد کین آئزک نے گویا خود ہی اس کرسی کو لات ماردی، لیکن ٹرمپ نے آئزک کے مسترد ہونے کو اپنی توہین گردانا۔ ساتھ ہی آئزک کے ذریعے وہ اقوام متحدہ کی اس تنظیم پر غلبہ حاصل کرنے کا جو خواب دیکھ رہے تھے وہ بھی ٹوٹ گیا۔ جاگتی آنکھوں کے خواب بکھرتا دیکھ کر انسان آپے سے باہر تو ہو ہی جاتا ہے۔ سو ٹرمپ کا بھی اب بس نہیں چل رہا کہ وہ اس توہین کا بدلہ کیسے چُکائیں۔
انھوں نے سب سے پہلے تو مہاجرین کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد میں نمایاں کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔ مہاجرین کے بڑھتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے پوری دنیا میں آئی او ایم کا عملہ دس ہزار سے بھی زائد افراد پر مشتمل ہے اور اس کا مجموعی بجٹ ایک بلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس میں امریکا ایک بڑا حصہ ڈالتا چلا آیا ہے لیکن اب امریکا نے یو این کے ممبر ممالک کے فیصلے کی سزا مہاجرین کو دینے کا مصمم ارادہ کر تے ہوئے بجٹ میں کٹوتی کا اعلان کردیا۔ ساتھ ہی امریکا مہاجرین کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پیش کیے جانے والے اس معاہدے سے بھی الگ ہوگیا، جس کی ابتدا میں وہ بڑے جوش وخروش سے شامل تھا۔
اس معاہدے سے اختلاف کرنے والا دوسرا ملک ہنگری ہے۔ ہنگری کے سربارہ وکٹر اوربان کی دیرینہ مہاجرین دشمن پالیسیوں سے دنیا واقف ہے۔ اس معاہدے کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ'' اس میں ان لوگوں کے حقوق کی تو کوئی بات ہی نہیں کی گئی جو چاہتے ہیں کہ ان کا ملک محفوظ، پُرامن اور رہنے کے قابل جگہ بن جائے۔'' گویا دوسرے لفظوں میں وہ مہاجرین کے خلاف اپنے سابقہ فیصلوں پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں اور نئے معاہدے مسترد کر رہے ہیں۔ اٹلی اور آسٹریا کی بھی اولین کوشش یہی ہے کہ یہ معاہدہ وقت کی دھول میں بیٹھ جائے اور انھیں مہاجرین کے آزار سے آزادی ملے۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کرز، یوں تو جوان ہیں لیکن ان کی یاد داشت شاید کسی بوڑھے سے بھی بدتر ہے کہ وہ اپنا وقت ہی بھول چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی نوعمری میں اعلٰیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ کا ارادہ باندھا تو ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک بذریعہ ریل سفر کیا، وہ بھی بنا کسی ویزے کے۔ آج اکتیس سالہ کرز تارکین وطن کے بڑے مخالف بن چکے ہیں اور ویزا فری سفرکے کڑے نقاد ہیں۔ اوپن بارڈر پالیسی کو کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں کہتے ہیں کہ اس سے آسٹریا کے باشندوں کے لیے ذہنی یکسوئی اور واضح شناخت کے ساتھ رہنا ناممکن ہوجائے گا۔
سالوں کی کوشش سے بننے والا معاہدہ اپنے آغاز پر ہی مشکلات کا شکار ہوگیا۔ مانا کہ ہر ملک کے لیے ریاستی مفادات بنیادی ترجیح ہوتی ہے، لیکن ان مہاجرین کا کیا کیا جائے جو اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین وقت سے گزر رہے ہیں۔
آج258 ملین لوگ ہجرت میں ہیں۔ نقل مکانی کی اس کوشش میں چند ہی سالوں میں ساٹھ ہزار لوگ سمندر کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہزاروں بچے اور عورتیں اسمگل کردیے گئے۔ نوجوان غلام بنا لیے گئے۔ گزشتہ ایک سال میں پندرہ سو مہاجرین راستے کی صعوبتیں برداشت نہ کرنے کے باعث ہلاک ہوگئے۔ اس انسانی المیے سے نمٹنے کے لیے ذاتی مفادات پائوں کی ٹھوکر سے ایک طرف کرکے کثیرالقومی معاہدے کرنے کا وقت آچکا ہے۔ ریاستیں اپنی سرحدوں کے تحفظ کے لیے کوئی ایسی پالیسی نہ بنائیں جس کی زد میں بنیادی انسانی حقوق روند دیے جائیں۔